84094 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
ایک عورت فاطمہ کا انتقال ہوا۔ فاطمہ کے شوہر، والدین، دادا، دادی اور نانی کا انتقال اس کی زندگی میں ہوگیا تھا، جبکہ بچے نہیں تھے۔ البتہ تین بھتیجے تھے: بکر (بڑا)، زید (منجلا)، اور حامد (چھوٹا)۔ فاطمہ کی رہائش بکر کے گھر میں تھی۔ بکر کا انتقال ہوا تو فاطمہ اسی گھر میں بکر کے بیٹوں کے ساتھ رہائش پذیر رہی۔ جب فاطمہ کا انتقال ہوا تو اس وقت اس کی ایک بہن زینب اور دو بھتیجے زید اور حامد حیات تھے۔ ایک مستند دارالافتاء کے فتوی کے مطابق فاطمہ کے ورثا یہ تین افراد قرار پائے: (1) زینب: نصف (2) زید: چوتھائی (3) حامد: چوتھائی۔ انتقال کے وقت فاطمہ کی ملکیت کی تفصیل: (1) کچھ زرعی زمین، جو اس کے بھتیجوں کے زیر انتظام تھی اور ابھی تک ہے۔ (2) تقریبا نوے ہزار روپے کیش۔ (3) دو عدد سونے کی انگوٹھیاں۔ (4) چار عدد سونے کی چوڑیاں۔ (5) فاطمہ کا کچھ لوگوں کے ذمے قرض، جو ابھی تک وصول نہیں ہوا۔
اب سوال یہ ہے کہ:
(1)۔۔۔ بکر (فاطمہ کا بڑا بھتیجا جس کا انتقال ہو چکا تھا) کے بڑے بیٹے (جس کے ساتھ فاطمہ رہائش پذیر تھی) نے غسل دینے والی عورت کو نے ورثا سے مشورہ کیے بغیر فاطمہ کو انتقال کے بعد غسل دینے والی عورت کو ترکہ کی دو عدد سونے کی انگوٹھیاں دیدی تھیں۔ اس کے دو تین دن بعدہی ورثا میں سے زید سے پوچھا گیا تو اس نے رضامندی کا اظہار کیا۔ زینب کو بتایا گیا تو اس نے صراحتًا کچھ نہیں کہا کہ اچھا کیا یا ٹھیک ہے، لیکن کوئی اعتراض بھی نہیں کیا کہ کیوں صدقہ کیا؟ بلکہ خاموش رہی، جیسے انسان کوئی بات سن کر اس کو قبول کرلیتا ہے۔ اور حامد نے کوئی واضح بات نہیں بتائی۔
باقی ترکہ کے حوالے سے زید سے بات ہوئی تو اس نے حصہ لینے سے انکار کیا اور اپنا حصہ فاطمہ کی طرف سے صدقہ کرنے کا کہا۔ حامد سے مشورہ نہیں ہوا، یہ سوچ کر کہ چونکہ زید اور حامد دونوں کے مالی حالات کشادہ ہیں اور زید نے اپنا حصہ نہیں لیا، لہذا حامد بھی یہی کہے گا اور دونوں اپنا حصہ فاطمہ کی طرف سے صدقہ کرنے کو کہیں گے۔ زینب سے چار عدد سونے کی چوڑیوں کے حوالے سے بات ہوئی، انہیں بتایا گیا کہ یہ فاطمہ کا سونا ہے اور یہ صدقہ کردیا جائے گا تو انہوں نے لینے والے کوئی بات نہیں کی۔ چنانچہ فاطمہ کی چار عدد سونے کی چوڑیاں فروخت کر کے رقم مسجد اور سکول میں صدقہ کر دی گئی۔ ترکہ کی نقد رقم میں سے بھی کچھ رقم صدقہ کی گئی۔ اس کے بعد جب زید کو یہ سونا اور کچھ رقم صدقہ کرنے کا کہا گیا تو اس نے رضامندی کا اظہار کیا۔ ۔ زینب کو بتایا گیا تو اس نے صراحتًا کچھ نہیں کہا کہ اچھا کیا یا ٹھیک ہے، لیکن کوئی اعتراض بھی نہیں کیا کہ کیوں صدقہ کیا؟ بلکہ خاموش رہی، جیسے انسان کوئی بات سن کر اس کو قبول کرلیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ زینب کے حصے کا صدقہ درست ہوا ہے یا نہیں؟ اگر بالفرض درست نہیں ہوا تو دو انگوٹھیوں، چار عدد چوڑیوں اور صدقہ کی گئی نقد رقم میں زینب کا حصہ اب اس کے ورثا کو دینا ضروری ہوگا؟ اگر ہاں تو کون دے گا؟ اور سونے میں کس وقت کی قیمت لگائی جائے گی؟
حامد سے ابھی جب فاطمہ کے ترکہ کی بات ہوئی تو ان کا کہنا ہے کہ ان سے مشورہ نہیں کیا گیا۔ اب موجودہ نقد رقم اور زمین میں حامد کا جو حصہ بنتا ہے، وہ تو ان کو دیا جا سکتا ہے۔ لیکن سونے میں حامد کا جو حصہ تھا اس کا کیا حکم ہوگا؟ آیا اس میں حامد کا بھی اپنے حصے کے بقدر صدقہ سمجھا جائے گا یا حامد کے حصہ کے بقدر رقم ان کو واپس کی جائے گی؟ ان سے اس بابت پوچھا گیا تو انہوں نے کوئی واضح بات نہیں کی، ہمیں ان کی باڈی لینگویج سے یہ سمجھ آیا کہ وہ راضی نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ خود یہ رقم صدقہ کرے۔ اگر حامد کو رقم واپس کی جائے گی تو سونے کی قیمت اس وقت کی لگے گی جس وقت فروخت کیا گیا تھا یا موجودہ قیمت کا حساب ہوگا؟ اور رقم لوٹانا کس کی ذمہ داری ہوگی؟ اسی طرح نوے ہزار نقد رقم میں سے جتنی رقم صدقہ کی گئی ہے، اس میں حامد کے حصے کا کیا حکم ہوگا؟
(2)۔۔۔ فاطمہ کے ترکہ کی زرعی زمین اور نوے ہزار روپے میں سے بقیہ رقم موجود ہے، اسی طرح لوگوں کے ذمے اس کا جو قرض ہے وہ بھی ابھی تک وصول نہیں ہوا۔ ورثا میں سے زید نے ان میں بھی اپنا حصہ فاطمہ کی طرف سے صدقہ کرنے کا کہا تھا، لیکن اب وہ شاید کچھ سوچ رہے ہیں۔ جبکہ زینب نے کہا تھا کہ زرعی میں فاطمہ کو اپنے والد کی طرف سے جو حصہ ملا ہے، اس میں میں اپنا حصہ لوں گی، اور ان کو اپنے شوہر کی طرف سے جو حصہ ملا تھا وہ میں نہیں لوں گی۔ حامد کی بات اوپر گزرچکی ہے۔ اس زرعی زمین اور نقد رقم کا کیا حکم ہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
(1)۔۔۔ فاطمہ کے ترکہ میں سے صدقہ کی گئی دو عدد سونے کی انگوٹھیوں، چار عدد سونے کی چوڑیوں اور کچھ نقد رقم کا حکم یہ ہے کہ:
- زید کے حصے کا صدقہ بلاشبہہ درست ہوا ہے، کیونکہ اس نے بعد میں صدقہ کی اجازت دیدی تھی اور اس پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔
- زینب کے حصے کا صدقہ درست نہیں ہوا؛ اس خاموشی کو اجازت اور رضامندی شمار نہیں کیا جاسکتا، اگر وہ رضامند ہوتی تو بتادیتی، جبکہ میراث کے معاملات میں عموماً خواتین ملامت وغیرہ کے ڈر سے خاموش رہتی ہیں؛ والساکت لاینسب إلیه قول.
بعض فقہی عبارات میں متصدَّق علیہ (جس شخص کو کوئی چیز صدقہ کے طور پر دی گئی ہو) کے قبضے کے وقت مالک کی خاموشی کو اجازت اور رضامندی بتایا گیا ہے، لیکن وہ عبارات اس صورت سے متعلق ہیں جب مالک نے صدقہ خود کیا ہو، پھر جب متصدَّق علیہ کے قبضے کے وقت وہ خاموش رہا ہو اور اس نے کچھ نہ کہا، جبکہ صورتِ مسئولہ میں زینب نے یہ سونا صدقہ نہیں کیا، نہ ہی اس کے سامنے متصدَّق علیہ نے اس پر قبضہ کیا ہے، بلکہ دوسرے لوگوں نے صدقہ کیا ہے، اس لیے یہ خاموشی رضامندی کی دلیل شمار نہیں ہوگی۔
لہٰذا اب زینب کے ورثا سے اس سونے اور رقم کے بارے میں بات کی جائے، اگر تمام ورثا عاقل بالغ ہوں اور وہ اجازت دیدیں تو ٹھیک ہے، ورنہ جس جس نے یہ صدقہ کیا تھا، اس پر لازم ہوگا کہ زینب کا حصہ ان کو دیدے۔ اگر بعض راضی ہوں اور بعض راضی نہ ہوں تو جو راضی نہ ہوں، صرف ان کے حصوں کا ضمان لازم ہوگا۔
- جہاں تک حامد کا تعلق ہے تو چونکہ وہ زندہ ہے، اس لیے اس کے حصے کے بارے میں اس سے وضاحت لی جائے، اگر وہ اس صدقہ پر رضامندی کا اظہار کرے تو اس کے حصے کا صدقہ بھی درست ہوجائے گا، لیکن اگر وہ اس کی اجازت نہ دے اور رضامندی کا اظہار نہ کرے تو جن افراد نے دو انگوٹھیاں غسل دینے والی خاتون کو دی تھیں، ان پر لازم ہوگا کہ حامد کو اس کے حصے کا سونا دیں۔ اسی طرح جن افراد نے چار عدد سونے کی چوڑیاں اور کچھ نقد رقم صدقہ کی ہے، ان پر لازم ہوگا کہ اس کے حصے کا سونا اور رقم اس کو واپس کردیں۔ اگر فریقین سونے کے بدلے میں رقم لینے دینے پر متفق ہوں تو جس دن رقم دی جائے گی، اس دن مارکیٹ میں سونے کی رائج قیمت کا اعتبار ہوگا، اسی حساب سے حامد کو رقم دینا ضروری ہوگا۔
(2)۔۔۔ فاطمہ کی چھوڑی ہوئی زرعی زمین، اس وقت موجو نقد رقم اور لوگوں کے ذمے قرض میں زید، زینب اور حامد تینوں کا حصہ بر قرار ہے۔ زید کا اپنا حصہ فاطمہ کی طرف صدقہ کرنے کا کہنے اور زینب کا فاطمہ کو شوہر سے ملنے والی زمین میں حصہ نہ لینے کی بات سے ان کے حصے ختم نہیں ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہ زرعی زمین جب تک تقسیم نہیں ہوتی، اس وقت تک اس کا کرایہ اور فصل وغیرہ زید، حامد اور زینب کے ورثا میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔
تقسیم کی صورت میں حکم یہ ہے کہ ساری زمین اور نقد و قرض رقم کو تقسیم کر کے زید اور حامد کو اپنا اپنا حصہ قبضہ کے ساتھ دیا جائے، اور زینب کا حصہ اس کے ورثا کو دیا جائے۔ پھر ان میں سے جو شخص اپنا پورا یا بعض حصہ صدقہ کرنا چاہے، وہ خود صدقہ کردے۔ البتہ اگر کوئی شخص اپنا حصہ وصول نہیں کرتا اور کسی کو اس کے صدقہ کرنے کا وکیل بناتا ہے تو یہ بھی درست ہے، لیکن وکیل جب تک اس کا حصہ عملاً صدقہ نہیں کرے گا، اس وقت تک اس کی ملکیت ختم نہیں ہوگی اور وہ اپنا حصہ وصول کرنے کا مجاز ہوگا۔
حوالہ جات
الأشباه والنظائر (ص: 350):
لو قال الوارث : تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك، و الحق يبطل به، حتى لو أن أحدًا من الغانمين قال قبل القسمة: تركت حقي بطل حقه، و كذا لو قال المرتهن : تركت حقي في حبس الرهن بطل ، كذا في جامع الفصولين و فصول العمادي.
رد المحتار (5/ 632)
قولهم "الإبراء عن الأعيان باطل" معناه أنها لا تكون ملكًا له بالإبراء.
الأشباه والنظائر (ص: 179):
القاعدة الثانية عشرة : لا ينسب إلى ساكت قول: فلو رأى أجنبيا يبيع ماله فسكت ولم ينهه لم يكن وكيلا بسكوته، و لو رأى القاضي الصبي أو المعتوه أو عبدهما يبيع و يشتري فسكت لا يكون إذنا في التجارة، ولو رأى المرتهن الراهن يبيع الرهن فسكت لا يبطل الرهن و لا يكون رضا في رواية، ولو رأى غيره يتلف ماله فسكت لا يكون إذنا بإتلافه، و لو رأى عبده يبيع عينا من أعيان المالك فسكت لم يكن إذنا، كذا ذكره الزيلعي في المأذون، و لو سكت عن و طء أمته لم يسقط المهر، وكذا عن قطع عضوه أخذا من سكوته عند إتلاف ماله. و لو رأى المالك رجلا يبيع متاعه و هو حاضر ساكت لا يكون رضا عندنا خلافا لابن أبي ليلى.
شرح القواعد الفقهية ــ للزرقا (ص: 199-196):
القاعدة السادسة والستون (المادة 67 من المجلة، ص: 24):
"لاينسب إلى ساكت قول لكن السكوت في معرض الحاجة بيان، يعني أنه لا يقال لساكت أنه قال كذا، لكن السكوت في ما يلزم التكلم به إقرار وبيان."…………… يتفرع على هذه الجملة الأولى (لاينسب إلى ساكت قول)مسائل: منها: ما لو رأى أجنبياً يبيع ماله فسكت لا يكون سكوته إجازة، بخلاف ما لو قبضه المشتري بعد ذلك بحضرته وهو ساكت فإنه يكون إجازة كما سيأتي من حاشية الرملي على جامع الفصولين….....….الخ
الجملة الثانية من القاعدة (لكن السكوت في معرض الحاجة بيان):
أولاً _ الشرح: ولكن السكوت من القادر على التكلم في معرض الحاجة إلى البيان بيان بشرط أن يكون هناك دلالة من حال المتكلم أو يكون هناك ضرورة لدفع الغرر والضرر، يعني أن السكوت فيما يلزم التكلم به إقرار وبيان.
ثانياً _ التطبيق: ( أ ) يتفرع على دلالة حال المتكلم مسائل: ……..منها أن سكوت المالك عند قبض الموهوب له والمتصدق عليه،والمرتهن والمشتري قبل نقد الثمن إذن لأن حالته من إقدامه على العقد الموضوع لإفادة حكمه ثم سكوته عند القبض مع قدرته على النهي تدل كصريح القول على الإذن. ………………… ( ب ) ويتفرع على ضرورة دفع الغرر والضرر مسائل: 1 - منها ما لو أصر المدعى عليه على السكوت حين طلب الحاكم منه الجواب عن دعوى المدعي فإنه يعد منكراً دفعاً للضرر عن المدعي. 2 - ومنها سكوت الشفيع حين علم بالبيع فإنه تسليم للشفعة؛ لأنه إذا لم يجعل تسليماً كان تغريراً للمشتري وإضراراً به إما بامتناعه عن التصرف أو بنقض الشفيع تصرفه إذا تصرف. 3 - ومنها أن سكوت المدعى عليه عن الجواب بلا عذر يعد إنكاراً دفعاً للضرر عن المدعي بتأخير حقه. 4 - ومنها أنه إذا وضع رجل متاعه عند رجل وهو يراه فسكت صارمودعاً دفعاً للغرر.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
03/ذو الحجۃ/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |