84054 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ بندہ کے دادا کی وفات 1937ء میں ہوئی اس وقت انکےدو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں جوکہ رشتے میں بندہ کے چچا اور پھوپھیاں لگتی ہیں ۔پھر تقریباً 1960 ء میں والد صاحب نے جائیدار تقسیم کی جب کہ پھوپھیوں نے کہا کہ ہم اپنا حصہ نہیں لیتے ۔پھر وقتاً فوقتاً جائیداد بیچی گئی اور کسی پھوپھی نے اعتراض نہیں کیا اور نہ مطالبہ کیا۔ پھر 1982 ء میں والد صاحب اپنے بیٹوں اور بیٹیوں پر بھی اپنی جائیداد تقسیم کی پھوپھیوں نے پھر بھی کوئی اعتراض اور مطالبہ نہ کیا اور ایک پھوپھی کہتی ہے کہ ہمیں بتایا گیا لیکن ہم نے کہا کہ ہم نہیں لیتے اور ہم نے اپنا حصہ معاف کیا ہے ۔2002 میں والد صاحب کا انتقال ہوا جو جائداد باقی تھی وہ بھی ہم بھائیوں نے اپنے مابین اور بہنوں میں تقسیم کی اسوقت بھی پھوپھیوں نے کوئی مطالبہ نہیں کیا ،پھر ہم نے ایک پھوپھی کو حج کروایا اور اپنی طرف سے رقم دی 2010 میں حج والی پھوپھی کا انتقال ہوا، 2023 تک ہم وہ جائیداد استعمال کرتے رہے کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا لیکن 2024 میں پھوپھی زادوں نے ہم سے دادا کے مال جائیداد میں اپنی والدہ کے حصہ کا مطالبہ کیا اور عدالت میں کیس دائر کیا اب کیا ان کا یہ مطالبہ درست ہے یا نہیں ؟، ان کا ہمارے جائیداد میں حصہ بنتا ہے یا نہیں ؟برائے مہربانی تفصیلی جواب عنایت فرمائے ۔
تنقيح: حج کے پیسوں سے متعلق سائل نےبتایا کہ ہم نے اپنی پھوپھی کو حج کروایا اور کچھ رقم بھی دی اس لیےکہ ہمارے والد کی بہن ہے اور ہم پر حق ہے،پھوپھی نے حج ادا کیا اور رقم لی اور کہا کہ میں نے اپنے بھائی کو معاف کیا ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
کسی کا مال اسکی دلی خوشی اور رضامندی کے بغیر دوسرے کے لیے جائز نہیں ہے۔ عموما بہنیں اپنا حق اس لیے چھوڑ دیتی ہیں کہ معاشرے میں بہن کا حق لینا عار سمجھا جاتا ہے ۔ اس وجہ سے اگر کوئی بہن حصہ چھوڑ رہی ہے تو یہ کسی کا مال بغیر طیب نفس(دلی رضامندی) کے کھانا ہوا جو کہ بلکل ناجائز اور سخت گناہ ہے۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا ۔ اور اگر کوئی بہن پوری رضامندی کے ساتھ اپنا حق ترک کرنے پر ازخود راضی ہے تو یہاں وراثت کے سقوط کے دو طریقے ہیں : اسے اس کاحق الگ کر کے حوالے کیا جائے، پھر وہ جسے چاہے اپنا حصہ ہدیہ یا ہبہ کردے۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے حصے کے بدلے کچھ مال لے کر صلح کرلے۔اسکے علاوہ صرف زبانی طور اپنا حصہ چھوڑ دینے سے کسی کا حصہ ساقط نہیں ہوتا ۔ صور ت مسئولہ میں چونکہ بہنوں نے صرف زبانی طور پر اپنا حصہ چھوڑا ہے ،لہذا میراث میں ان کا حصہ ساقط نہیں ہوا۔ جو پھوپھی زندہ ہے انہیں اور فوت ہونے کی والی پھوپھی کے ورثاء کو ان کا حصہ دے دیا جائے یا کچھ مال کے عوض ان سے صلح کر لی جائے ۔لیکن صلح کرتے وقت یہ ضروری ہے کہ ورثاء میں کوئی نابالغ بچہ نہ ہو، اگر نابالغ بچہ ہوگا تو ترکہ میں جو زمینیں ہیں ان کی حق میں تو صلح ٹھیک نہیں اور زمین کے علاوہ دیگر چیزوں میں بھی صلح اس وقت معتبر ہے جب صلح میں نابالغ بچے کے لیے نفع ہو ،یعنی یا تو اس موروثہ چیزوں کی مکمل قیمت دے دی جائےیا معمولی کمی بیشی ہوجسے لوگ عام طور پر برادشت کرتے ہوں ۔
باقی جو حج کے لیے جو رقم دی ہے وہ اپنی طرف بطور ہدیہ دی ہے اور یہ صدقہ و احسان اور صلہ رحمی ہے ۔اس کے بعد مبہم معافی کا کوئی اثر نہیں ہوگا ۔
حوالہ جات
«مشكاة المصابيح» (2/ 926):
وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه.
تكملة حاشية ابن عابدين = قرة عيون الأخيار تكملة رد المحتار ط الفكر» (8/ 208):
وَلَو قَالَ تركت حَقي من الْمِيرَاث أَو بَرِئت مِنْهَا وَمن حصتي لَا يَصح وَهُوَ على حَقه، لَان الارث جبري لَا يَصح تَركه اهـ
الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية» (6/ 474):
ومن صالح من الغرماء أو الورثة على شيء من التركة فاطرحه كأن لم يكن ثم اقسم الباقي على سهام الباقين مثاله زوج وأم وعم صالح عن نصيبه من التركة على ما في ذمته من المهر فاطرحه كأنها ماتت عن أم وعم فاقسم التركة بينهما للأم الثلثان، والباقي للعم كذا في الاختيار شرح المختار»
المبسوط للسرخسي (20/ 179):
لأن فيما سوى العقار للوصي ولاية البيع في تركة الموصي فكذلك له ولاية الصلح فأما في العقار فليس له ولاية البيع فيما صار للصغير من هذه التركة كما لم يكن للموصي ذلك في ملك الصبي ولا يجوز صلحه فيه أيضا، وكذلك لو كانت الورثة كبارا وصغارا فصلح الوصي فيما سوى العقار جائز عليهم بشرط النظر كما لا يجوز بيعه فيه للحفظ عليه۔
محمد سعد ذاكر
دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی
03 /ذی الحجہ /1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد سعد ذاکر بن ذاکر حسین | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |