سب سے پہلا کام:
اَگر آپ پر حج فرض ہے اَور آپ نے اسے اَدا کرنے کا اراده کرليا ہے تو ﷲ تعالی کی اس نعمت عظمٰی کی قدر ومنزلت کو پوری طرح محسوس کيجئے اَور شکر کيجئے کہ ﷲ تعالیٰ نے اپنے مقدس گھر اَور اپنے محبوبﷺکے محترم شہر کی حاضری کا اراده محض اپنے فضل وکرم سے آپ کے دِل ميں ڈالا اَور اس کے اسباب بھی مہيا فرماديئے اَور سب سے بڑا شکر يہ ہے کہ اپنے آپ کو حرمين شريفين کے فيوض وبرکات اَور انوار وتجليات کے حصول کے ليے تيار کرنے اَور حج کے اعمال اَور اس کا طريقہ سيکھنے ميں مشغول ہوجايئے۔
بڑا بد نصيب ہے وه شخص جس کو اس کا مولیٰ ايسا بہترين سفر نصيب کرے اَور وه وہاں کی حاضری کے آداب اَور طريقے سيکھنے اَور اپنے آپ کو وہاں کے ليے بنانے سنوارنے کي فکر نہ کرے اَور يونہی غفلت، لاپروائی اور بے شعوری کے ساتھ وہاں جا پہنچے۔
اچھا رفيق سفر تلاش کيجئے:
حج کو جانے والےا ﷲ تعالیٰ کے کسي ايسے بندے کا ساتھ تلاش کيجئے جو حج کے مسائل بھی اچھی طرح جانتا ہو اور صالح بھی ہو، پھر پورے سفر ميں ان کے مشوروں پر عمل کيجئے، ليکن اس کی پوری احتياط کيجئے کہ آپ ان کے ليے تکليف کا سبب نہ بنيں، ﷲ تعالیٰ کے نيک بندے چونکہ عام لوگوں سے زِياده حساس اور لطيف مزاج ہوتے ہيں،اس لئے خلاف ِمزاج باتوں سے انہيں دوسروں کی نسبت زياده تکليف ہوتی ہے، اگرچہ وه زبان سے اس کا اظہار نہ کريں۔
ساتھ رکھنے کي چند کتابيں:
سفر حج ميں کچھ دينی کتابيں بھی ضرور ساتھ رکھيے، کم اَز کم ايک کتاب ايسی ضرور ہو جس سے بوقت ِضرورت حج کے مسائل معلوم ہوسکيں اور ايک کتاب ايسی ہو جس کے مطالعہ سے آپ کے دِل ميں عشق ومحبت اَور خوف وخشيت کی وه کيفيات پيداہوں جو درحقيقت حج کی اور ہر دينی عمل کی اصل روح ہيں۔
ضروری مسائل کے ليے حضرت مولانا احتشام الحسن صاحب کاندھلوی رحمہ ﷲ تعالی ٰکی کتاب ’’رفيق حج‘‘، حضرت مولانا مفتی سعيد احمد صاحب سہارنپوري رحمہ ﷲ تعالیٰ کی کتاب ’’حج و زِيارت کا مسنون طريقہ‘‘، حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی رحمہﷲ تعالیٰ اور حضرت مولاناسيد ابو الحسن علی صاحب ندوي رحمہ ﷲ تعاليٰ کے مضامين پر مشتمل کتاب ’’آپ حج کيسے کريں؟‘‘ ميں سے ہر ايک کتاب بہت مفيد ہے۔
کيفيات وجذبات پيدا کرنے کے ليے شيخ الحديث حضرت مولانا محمد زکريا صاحب رحمہ ﷲ تعالیٰ کی کتاب ’’فضائل حج‘‘ انتہائی مؤثر ہے۔
عمومی دينی معلومات کے ليے حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی رحمہ اﷲتعالیٰ کی کتاب ’’اِسلام کيا ہے؟‘‘ اور ’’دين وشريعت‘‘ اچھی کتابيں ہيں۔
يہ کتابيں اس سفر ميں خود مطالعہ ميں رکھئے، دوسروں کو مطالعہ کے ليے ديجئے اور بے پڑھے بھائيوں کو پڑھ کر سنائيے۔ اس مشغلہ ميں آپ کا جتنا وقت گزرے گا، اعلیٰ درجہ کی عبادت ميں گزرے گا۔
گناہوں سے توبہ:
روانگی سے قبل سارے چھوٹے بڑے گناہوں سے سچے دِل سے توبہ واستغفار کيجئے اور آئنده گناہوں سے اجتناب کا پختہ عزم کيجئے،تاکہ گناہوں کی گندگي سے صاف ستھرے ہوکر اپنے مولیٰ کے دربار ميں پہنچيں۔
توبہ کا بہتر طريقہ يہ ہے کہ پہلے غسل کريں، اگر نہ ہو سکے تو وضو کریں اور دو رکعت نماز توبہ کي نيت سے پڑھيں، اس کے بعد درود شريف پڑھيں پھر نہايت خشوع و خضوع سے اپنے گناہوں کي معافی اور دوسري دعائيں مانگيں، جس قدر عاجزی کا اظہار، رونا گڑگڑانا، ممکن ہو کمی نہ کريں اور بار بار يہ دعاء پڑھيں:
’’أللّٰهم أنت ربي لا إلٰه إلا أنت خلقتني، وأنا عبدک، وأنا علي عهدک ووعدک ما استطعت، أعوذبک من شر ما صنعت، أبوء لک بنعمتک عليَّ وأبوء بذنبي، فاغفرلي فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت۔‘‘ (بخاري عن شداد بن أوس، معارف الحديث: ۵/ ۲۴۸)
ترجمه: ’’اے الله ! تو ہی ميرا رب (مالک ومولیٰ ) ہے، تيرے سوا کوئی مالک و معبود نہيں، تونے ہی مجھے پيدا فرمايا اور وجود بخشا، ميں تيرا بنده ہوں اور جہاں تک مجھ عاجز و ناتواں سے ہو سکے گا تيرے ساتھ کيے ہوئے (ايمانی) عہد و ميثاق اور (اطاعت و فرمانبرداری کے) وعدے پر قائم رہوں گا، تيري پناه چاهتا ہوں اپنے عمل و کردار کے شر سے، ميں اقرار کرتا ہوں کہ تونے مجھے نعمتوں سے نوازا اور اعتراف کرتا ہوں کہ ميں نے تيري نا فرمانياں کيں اور گناه کئے۔ اے ميرے مالک و مولا! تو مجھے معاف فرما دے اور ميرے گناه بخش دے، تيرے سوا گناہوں کو بخشنے والا کوئی نہيں۔‘‘
حقوق العباد کي تلافی يا معافی:
جن بندوں کے حقوق آپ کے ذِمہ ہوں، جن کی کبھی حق تلفی کی ہو، جن کا کبھی دل دکھايا ہو، ان سب سے معاملہ صاف کيجئے، حق ادا کيجئے، بدلہ ديجئے يا معاف کرائيے، کسی کی امانت ہو تو ادا کيجئے، جن امور سے متعلق وصيت کرنی ہو وه کر ديجئے يا وصيت نامہ لکھ ديجئے۔
اخلاصِ نيت:
سفر شروع کرنے سے پہلے نيت کا جائزه ليجئے کہ نفس و شيطان نے ريا ودکھاوا يا کسی اور دنيوی نفع کی نيت تو دِل ميں نہيں پيدا کردی، صرف اور صرف ﷲ تعالیٰ کے حکم کی تعميل، اس کی رضا کے حصول اور آخرت کے ثواب کو اپنا مقصد بنايئے، اس کے سوا کوئی چيز اس مقدس سفر کا محرک نہ ہو۔
گھر سے روانگی:
اگر آپ کو کسي بڑے شہر کے حاجی کيمپ ميں کچھ دِن قيام کرنا ہے تو گھر سے اِحرام نہ باندھئے، بلکہ روانگی کے وَقت خوب خشوع وخضوع سے دو رکعت نفل پڑھئے اور سفر ميں سہولت وعافيت، معاصی سے حفاظت اور حجِ مبرور وزِيارتِ مقبولہ نصيب ہونے کی خوب عاجز ی سے دُعاء کر کے اہل خانہ اور والدين سے اجازت لے کر گھر سے رخصت ہوجائيے، گھر سے نہايت خوش و خرم ہو کر نکليں، غمگين اور پژمرده ہو کر نہ نکليں، ياد ہو تو گھر سے نکلتے وقت يہ دُعاء پڑھئے:
’’بِسْمِ ﷲ تَوَکَّلْتُ عَلَي ﷲِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہ۔‘‘(رواه ابو داو‘د والترمذي، المشکوٰة: صـ ۲۱۵)
ترجمہ: ’’ميں الله کا نام لے کر نکل رہا ہوں، الله ہی پر ميرا بھروسا ہے، کسی خير کے حاصل کرنے يا کسی شر سے بچنے ميں کاميابی الله ہی کے حکم سے ہو سکتی ہے۔‘‘
يہ دُعاء ياد نہ ہو تو صرف ’’بِسْمِ ﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم‘‘ پڑھ کر نکلئے ۔
جب سواری پر سوار ہوں:
جب سواری پر سوار ہوں اور وه روانہ ہونے لگیں تو یہ دُعاء پڑھيے:
’’سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَهٗ مُقْرِنِيْنَ وَإِنَّا إِلٰي رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ‘‘ (رواه مسلم، المشکوٰة: ۲۱۳)
ترجمہ: ’’پاک اور مقدس ہے وه ذات جس نے ہماری سواری کے ليے اپنی اس مخلوق کو مسخر اور ہمارے قابو ميں کر ديا ہے اور خود ہم ميں اس کی طاقت نہ تھی کہ اپنی ذاتی تدبير و طاقت سے اس طرح قابو يافتہ ہوجاتے (بلکہ الله ہی نے اپنے فضل و کرم سے ايسا کيا ہے) اور ہم بالآخر اپنے اس مالک کے پاس لوٹ کر جانے والے ہيں۔‘‘اگر عربی الفاظ ياد نہ ہوں تو جس زبان ميں چاہيں اس کا مفہوم اداکرديں۔
جہاز کے اِنتظار کا زمانہ:
ريل يا موٹر وغيره کا سفر ختم کر کے کراچی، راولپنڈی وغيره بڑے شہروں ميں حاجيوں کو اکثر کئی دن قيام کرنا پڑتا ہے، اس قيام کے دَوران اس کا خاص خيال کيجئے کہ آپ حج وزِيارت کے اراده سے گھر سے نکلے ہيں، اس لئے بے فائده سير وتفريح اور خواه مخواه بازاروں ميں گھومنے سے پرہيز کيجئے اور پورے اہتمام کے ساتھ حج کے مسائل، اس کا طريقہ اور دين کی ضرورِی باتيں سيکھنے سکھانے کا سلسلہ جاري کيجئے اَور امير قافلہ کے مشورے سے تعليمی نظام بنا ليجئے۔ حاجي کيمپوں ميں عموماً حج کے بارے ميں علماء کرام کے بيانات کا انتظام ہوتا ہے، ان ميں شريک ہو کر خوب استفاده کيجئے۔
اجتماعي تعليم اور مسائل سيکھنے سکھانے کے بعد جو اوقات فارغ بچيں ان ميں نوافل اور ذکر وتلاوت ميں مشغول رہئے يا بيت اﷲ، مسجد نبوی اور روضۂ مطہره کي زِيارت کے تصور سے لذت حاصل کيجئے ياحرمين کا شوق اُبھارنے والی کتابوں کا مطالعہ کيجئے، اس سے حصولِ علم وثواب کے علاوه اس پريشانی وپراگندگی سے حفاظت ہوجائے گي جس کا عموماً حاجی اس قيام کے دوران شکار رہتے ہيں۔
حج کی اقسام
اِحرام کا طريقہ معلوم کرنے سے پہلے يہ سمجھ ليجئے کہ حج کی تين قسميں ہيں:
1:۔ اِفراد:
صرف حج کا اِحرام باندھا جائے اَور صرف حج کي نيت کي جائے۔
2:۔ قران:
حج وعمره دونوںکا اِحرام باندھا جائے اور ايک ہی احرام سے دونوں کو اَدا کرنے کی نيت کی جائے۔ (بدائع الصنائع: ۳/ ۱۶۸۔۱۷۰)
ان دونوں صورتوں ميں اِحرام کی ساری پابندياں اِحرام باندھنے سے ليکر حج سے فارغ ہونے تک قائم رہتی ہيں، جن کا نبھانا اکثر لوگوں کے ليے مشکل ہوتا ہے اور اکثر اَيسا ہوتا ہے کہ لوگ ايسے کام کر بيٹھتے ہيں جن کی حالت ِاِحرام ميں ممانعت ہے اور ان کی وجہ سے ’’دَم‘‘ يعني بکري وغيره يا صدقہ واجب ہوجاتا ہے اَور بعض صورتوں ميں ’’بدنہ‘‘ يعني بڑا جانور ذبح کرنا واجب ہوجاتاہے اور بعض صورتوں ميں حج ہی فاسد ہوجاتا ہے، اس لئے
عوام کو آج کل ان دونوں صورتوں کا مشورہ نہيں ديا جاتا بلکہ تمتع کا مشوره ديا جاتا ہے۔ البتہ اگر کوئی بالکل آخری ايام ميں حج کے ليے جا رہا ہو تو اسے قران ہی کرنا چاہیے، امام اعظم امام ابو حنيفہ رحمہ ﷲ تعالیٰ کے نزديک قران ہی سب سے اَفضل ہے اور امام اعظم رحمہ الله تعالیٰ کی تحقيق کے مطابق رسول الله صلی الله عليه وسلم نے قران ہی کيا تھا۔ اتنی بڑی فضيلت حاصل کرنے کے ليے چند دن اِحرام کي پابنديوں پر عمل کرنا کيا مشکل ہے؟
3 تمتع:
پہلے صرف عمره کا اِحرام باندھا جائے اور مکہ مکرمہ پہنچ کر عمره کے افعال يعنی طواف، سعی اور حلق کر کے اِحرام ختم کرديا جائے اور پھر 8ذي الحجہ کو مسجد حرام سے حج کا اِحرام باندھا جائے۔
اکثر لوگوں کے لئے یہی تيسری صورت آسان اور بہتر ہوتی ہے۔
مفتی محمد
رئیس دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی