021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسائل حج

اِحرام کے اَحکام

اِحرام کي تعريف:

اِحرام کا معنی ہے ’’حرام کر دينا‘‘ شريعت کی اصطلاح ميں حج يا عمره کی غرض سے حرم جانے والے شخص کا اپنے اوپر کچھ مخصوص چيزوں کي پابندی لگانے کا نام اِحرام ہے، ايسے شخص کو محرم کہا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ اگر کسی آفاقی کا اراده حج يا عمره کا نہ ہو، اور کسی کام سے جانا چاہتا ہو تو بھی بغير اِحرام کے جانا جائز نہيں، بلکہ اس پر بھی  لازم ہے کہ حج يا عمره کا اِحرام باندھ کر جائے اور حج يا عمره بھی کرے اور دوسرا کام بھی۔

اِحرام تو دل ميں مذکوره پابنديوں کی نيت کرنے کا نام ہے، تاہم اس کے اظہار کے واسطے تلبيہ پڑھنا يا اور کوئی ذکر کرنا شرط ہے، اس کے بغير محض دل کی نيت سے کوئی شخص محرم نہيں بن سکتا۔(فتاوی شامیہ: ۳/۵۵۶)

اِحرام باندھنے کا وقت:

حج کے مہینے (شوال) شروع ہونے سے پہلے اِحرام باندھنا مکروه ہے، البتہ حج کے دن داخل ہوتے ہی جتنا جلدی ہو سکے اِحرام باندھنا بہتر ہے، بشرطيکہ ممنوعات اِحرام  ميں مبتلا ہونے کا خدشہ نہ ہو، ورنہ پھر جتنی تاخير ہو سکے بہتر بلکہ ضروری ہے۔(غنية الناسک: ص ۶۷،۶۸)

’’ميقات‘‘ جہاں سے اِحرام کے بغير گزرنا جائز نہيں:

پاکستانيوں اور ہندوستانيوں کے لئے ’’ميقات‘‘ يعنی وه مقام جہا ں سے اِحرام باندھے بغير گزرنا جائز نہيں ’’يلملم‘‘ ہے۔(ردالمحتار: ۳/ ۵۴۸، طبع دارالمعرفة) جہاز ميں بہت پہلے اس کا چرچا شروع ہوجاتا ہے اور کپتان کی طرف سے بھی اعلان کرديا جاتا ہے کہ فلاں وقت جہاز يلملم کے اوپر سے گزرے گا، اس لئے اِحرام جہاز ميں بھي باندھا جا سکتا ہے، مگربہتر صورت يہ ہے کہ ہوائی جہاز سے جانے والے اِحرام کی چادريں توگھر سے ہی باندھ ليں اور نيت وتلبيہ اس وقت پڑھيں جب جہاز فضا ميں بلند ہو جائے،اس لئے کہ کبھی جہاز ميں کسی خرابی يا کسی اور رکاوٹ کی وجہ سے پرواز ميں کئی کئی گھنٹے تاخير ہو جاتی ہے۔ اگر تلبيہ  پڑھ کر احرام کی  نيت کر لی تو احرام کی پابندياں لازم ہو جائيں گی جن کا نبھانا مشکل ہوگا۔ (هداية: ۱/ ۲۳۵) البتہ جو حضرات حج سے پہلے جده سے سيدھے مدينہ منوره جانے کا اراده رکھتے ہوں وه يہاں سے احرام نہ باندھيں، ان کو مدينہ طيبہ سے رَوانگي کے بعد ذوالحليفہ سے (جو مدينہ سے چھ ميل کے فاصلے پر ہے) اِحرام باندھنا چاہيے۔(رد المحتار: ۳/ ۵۵۲)

اِحرام سے پہلے:

مکہ کی طرف پيش قدمی سے پہلے اپنے بال اور ناخن کاٹ ليں، مونچھیں درست کرليں، بغل و زير ناف بال صاف کر ليں، سرمونڈھنے کی عادت ہو تو سر منڈواليں، ورنہ کنگھی  وغيره کر کے بال درست کرليں، ازدواجی تعلقات قائم کرنے کا موقع ميسر ہو توطبيعت فارغ کر ليں، يہ تمام اعمال مستحب ہيں۔(الدرالمختار: ۳/ ۵۵۸)

غسل:

اس کے بعد اِحرام ميں داخل ہونے سے پہلے غسل کريں، يہ عمل سنت ہے۔

اِحرام کی  نيت کرنے سے پہلے اِحرام کی چادريں پہننا لازم ہے، اگر ايک بڑی چادر ہو تو بھی درست ہے، نيز سفيد رنگ مستحب ہے، اس کی بجائے دوسرے رنگ کی چادر استعمال کرنے ميں بھی حرج نہيں۔

سلے ہوئے کپڑوں ميں اِحرام:

سلے ہوئے کپڑوں ميں اگر کسی مرد نے اِحرام باندھا يعنی احرام کی نيت کر کے تلبيہ پڑھ ليا تو اگر پورا ايک دن يا ايک رات سلا ہوا کپڑا پہنے رکھا تو گناہگار ہونے کے ساتھ دم لازم ہو جائے گا، اس سے کم ہو تو صدقہ (سوا دو کلو گندم يا اس کی قيمت کسی فقير کو دينا) لازم ہو جائے گا، بہتر يہ ہے کہ حرم کے فقراء ہوں، نيز ايک فقير کو دينا لازم ہے، دو ميں تقسيم نہيں کر سکتا۔ (ردالمحتار: ۲/ ۵۶۵)

انگوٹھي، ہميانی ، عينک اور جوتا پہننا:

ہاتھ ميں انگوٹھي پہننا يا روپيہ پيسہ رکھنے کے ليے سلی ہوئی ہميانی  يا پيٹی  باندھنا، عينک لگانا جائز ہے۔ (امداد الاحکام:۲ / ۱۷۷۔۱۸۰)

نيز مردوں کے ليے ايسا جوتا جو پاؤں کی پشت پر ابھری ہوئی ہڈی کو ڈھانکنے والا ہو استعمال کرنا جائز نہيں، اس کا حکم بھی سلے ہوئے کپڑے پہننے کي طرح ہے جس کی تفصيل آچکی ہے۔

بوقت ِ احرام خوشبو کا حکم:

غسلِ اِحرام کے بعد بدن ميں ايسی خوشبو کا استعمال جس کی خوشبو تو باقی رہے ليکن اِحرام کے بعد اس کا اثر يعنيی رنگ يا جسم باقی نہ ره سکے بالاتفاق مستحب ہے، جبکہ کپڑوں ميں ايسی خوشبو کا استعمال نا پسنديده ہے، نيز کپڑوں ميں ايسی خوشبو استعمال کرنا جس کا اثر باقی  رہے جائز ہی نہيں۔(ردالمحتار: ۳/ ۵۵۹)

اِحرام کے نفل و نيت:

اس کے بعد دو رکعت نفل پڑھيں، يہ سنت ہے (بشرطيکہ مکروه وقت نہ ہو، ورنہ جائز نہيں) پہلی رکعت ميں سورة الکافرون اور دوسری ميں سورة الاخلاص پڑھنا مستحب ہے، نماز کی حالت ميں چادر سے سر ڈھانک لينا ضروری ہے، ننگے سر نماز پڑھنا مکروه ہے۔ مستحب يہ ہے کہ نماز کے فوراً بعد قبلہ رخ ہوکر عمره کی  نيت کر ليں، چاہيں تو زبان سے نيت کے الفاظ بھی  پڑھ سکتے ہيں۔ نيت کے ساتھ کم اَز کم ايک بار تلبيہ پڑھنا شرط ہے اور تين مرتبہ پڑھنا مستحب ہے۔(غنیۃ الناسک:ص: ۶۷)    نيت اور تلبيہ کے بعد اِحرام باندھنے کا عمل مکمل ہو گيا، اب خوب عاجزي سے دعا کيجئے، يہ دعا بھی مستحب ہے:

’’أللّٰهم إني أسألک رضاک والجنة وأعوذبک من سخطک والنار‘‘ (غنية الناسک: ۷۴)

زبانی  نيت ميں غلطی ہوگئی:

اِحرام کی زبانی نيت ميں غلطی  ہو جائے، مثلاً حج کی بجائے عمره يا عمره کي بجائے حج کا لفظ منہ سے نکل جائے۔ تو اس سے فرق نہيں پڑتا۔‘‘(غنیۃ الناسک:ص:۷۸)    

خواتين کے اِحرام کا طريقہ:

خواتين کے ليے اِحرام کا طريقہ بھی یہی ہے جو ذکر ہوا، البتہ ان کے ليے سلا هوا کپڑا پہننا جائز بلکہ وہی  ضروری ہے، اسی طرح وه چپل بھي پہن سکتی ہيں جو پاؤں کی درميانی ہڈی  کو چھپالے، دستانے اور زيورات پہننے کی بھی اجازت ہے، البتہ دستانے پہننا بہتر نہيں۔

منہ پر کپڑا لگانا منع ہے، ليکن ستر و پرده کا اہتمام بھی  ضروری ہے، جس کا آسان طريقہ يہ ہے کہ ايسی ٹوپی پہن ليں جس پر چھجہ لگا ہوا ہو، اس کے اوپر سے نقاب گرا ديں، اس طرح پرده بھی ہو جائے گا اور چہرے پر کپڑا بھی نہیں لگے گا، البتہ اتنی بوڑھی خاتون کو جس کی طرف کسی کی رغبت کا انديشہ نہ ہو چہره کھلا رکھنے کی اجازت ہے۔( الهدایۃ:۱/ ۲۷۷ (ردالمحتار: ۳/ ۶۲۸،۶۲۹)

خواتين کے لئے ستر و پرده کی غرض سے سر ڈھانکنا بھی لازم ہے، تاہم چونکہ احرام کا حصہ نہيں ہے، لہٰذا غسل اور وضو کے وقت سر سے دوپٹہ  وغيره ہٹا کر اسے دھونا اور اس پر مسح کرنا لازم ہے، بعض خواتين وضو کرتے وقت چادر کے اوپر سے مسح کرتی ہيں جو درست نہیں، اس طرح کرنے سے وضو اور نماز نہیں  ہوگی۔

خواتين کے لئے بھی احرام سے پہلے غسل بہر حال مسنون ہے، اگرچہ حيض يا نفاس کي حالت ہو، تاہم اس حالت ميں نماز جس ميں اِحرام کے دو نفل بھی شامل ہيں نہیں  پڑھ سکتیں ، بلکہ غسل کے بعد کپڑے پہن کر نيت کريں اور تلبيہ پڑھیں، بس ان کا اِحرام بندھ گيا۔

تلبیہ اور اِحرام کے احکام

تلبیہ  کے الفاظ:

’’لبيک أللّٰهم لبيک، لبيک لا شريک لک لبيک، إن الحمد والنعمة لک والملک لا شريک لک۔‘‘ (متفق علیہ)

’’حاضر ہوں، اے ﷲ! ميں حاضر ہوں، آپ کا کوئی شريک نہیں، ميں حاضر ہوں، بلاشبہ تمام تعريفيں اور سب نعمتیں آپ ہی کے ليے ہيں اوربادشاہت بھی آپ ہی  کی ہے۔ آپ کا کوئی شريک نہیں ہے۔‘‘

تلبیہ ميں مذکوره الفاظ سے کمی کرنا تو مکروهِ تحريمی ہے، البتہ اضافہ درست ہے، درج ذيل الفاظ کا اضافہ بھی صحيح احاديث ميں منقول ہے:

’’لبيک اللّٰهم لبيک، لبيک وسعديک، والخير في يديک، لبيک والرغباء إليک والعمل۔‘‘ (متفق عليہ واللفظ لمسلم)

ترجمہ: ’’ميں تيری خدمت ميں حاضر ہوں، اے الله! ميں تيری خدمت ميں حاضر ہوں، ميں تيری خدمت ميں حاضر ہوں اور تيری خدمت ميں نيک بختی  حاصل کرتا ہوں اور بھلائي تيرے ہی ہاتھ ميں ہے، تيری خدمت ميں حاضر ہوں اور رغبت و توجہ تيری طرف ہے اور عمل تيرے ہی  لئے ہے۔‘‘

وفي الدر: وزد ندبا فيها أي عليها لا في خلالها ولا تنقص منها فإنه مکروه أي تحريما۔‘‘وقال في الشامية: ’’فما مر من لبيک وسعديک ونقله في النهر عن ابن عمر يأتي به بعد التلبية لا في أثنائها‘‘ (ردالمحتار: ۲/ ۴۸۴)

آواز کتنی بلند ہو؟

مردوں کے ليے بلند آواز سے تلبيہ پڑھنا مسنون ہے، ليکن آواز کو اتنا بلند کرنا بھی درست نہیں جس سے تکليف پہنچے، خواتين اتني آہستہ آواز سے تلبیہ پڑھیں کہ وه خود ہی سن سکيں، دوسروں تک ان کی  آواز نہ  پہنچے۔ (ابو داؤد ونسائی، مظاهر حق: ۲/  ۶۷۱)

قال العلامة الحصکفي رحمه ﷲ تعاليٰ: ’’ولا تلبي جهرا بل تسمع نفسها دفعا للفتنة۔‘‘ (ردالمحتار: ۲/ ۵۲۸)

تلبیہ  کے بعد درود و دعاء:

احناف کے نزديک مستحب يہ ہے کہ تلبیہ سے فارغ ہونے کے بعد درود پڑھا جائے، البتہ اس ميں آواز پست رکھی جائے، نيز الله تعالیٰ سے اس کي خوشنودی اور جنت مانگے، دوزخ کی  آگ سے پناه چاہے اور اپنی جس دينی  و دنيوی اصلاح کے ليے چاہے دعا مانگے۔(فتاوی شاميۃ: ۳/ ۵۶۲)

تلبیہ  کی کثرت:

حج و عمره ميں کثرت سے تلبیہ پڑھنا مستحب ہے، اٹھتے، بيٹھتے، سوار ہوتے، سواری سے اترتے، کسی سے ملتے اور جدا ہوتے، راستہ کے نشيب و فراز ميں، پاکی کی  حالت ہو يا ناپاکی کی، غروبِ آفتاب کے وقت، صبح صادق طلوع ہوتے وقت غرض ہر حال ميں پڑھنا مستحب ہے، نيز يہ بھی مستحب ہے کہ شروع کرنے پر کم اَز کم تين مرتبہ پڑھا جائے اور يہ کہ درميان ميں باتيں نہ  کی  جائيں، نيز تلبیہ  پڑھنے والے کو سلام کرنا مکروه ہے، تاہم اگر کسی نے سلام کر ليا تو اس کا جواب دينا جائز ہے، لازم نہيں، بہتر یہ  ہے کہ تلبیہ ختم ہونے کے بعد جواب دے، إلا يہ کہ اس کے چلے جانے کا خدشہ ہو تو اسی وقت جواب دے۔ اگر پوری جماعت جا رہی ہو تو ہر شخص کے ليے الگ الگ تلبیہ پڑھنا مسنون و مستحب ہے۔(ردالمحتار: ۳/ ۵۷۳،۵۷۴)

تلبیہ ميں حج يا عمره کا ذکر:

آپ صرف عمره کر رہے ہوں تو ’’لبيک بعمرة‘‘ صرف حج کر رہے ہوں تو ’’لبيک بحجة‘‘ اور ايک ہی اِحرام کے ساتھ حج و عمره دونوں يعنی قران کر رہے ہوں تو ’’لبيک بحجة وعمرة‘‘ کہنا مستحب ہے۔ (الغنيةالناسک: ص: ۷۴)

رسول اللهﷺ اور صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنهم سے اسی طرح منقول ہے۔

تلبیہ کے خاص الفاظ کی اہميت:

حج وعمره کے ليے جانے والے پر لازم ہے کہ تلبیہ کے الفاظ ياد کرے، کيونکہ يہ خاص الفاظ پڑھنا مسنون ہے، ليکن اگر کسی کو ياد نہ ہو سکے تو اس کی جگہ کوئی دوسرا ذکر لا الہ الا الله، الحمد لله، سبحان الله وغيره بھی کافی ہے۔(فتاوی شامیہ: ۳/ ۵۶۱)

تلبیہ زبان سے پڑھنا ضروری ہے:

تلبیہ  بہر حال زبان سے پڑھنا ضروري ہے، دل ہی دل ميں پڑھنے سے حکم پر عمل نہيں ہوگا، البتہ گونگے شخص کے لئے دل ميں پڑھنے کا حکم ہے، تاہم بقدرِ استطاعت زبان ہلانا اور ادائيگی کی کوشش کرنا اس کے لئے بھی مستحب ہے۔(فتاوی شامیہ: ۳/ ۵۶۱)

تلبیہ عربی ميں افضل ہے:

تلبیہ عربی کے علاوه زبانوں اردو، فارسی وغيره ميں بھی جائز ہے، تاہم عربی ميں پڑھنا بہر حال افضل ہے۔(فتاوی شامیہ: ۳/ ۵۶۱)

تلبیہ  ختم:

حج ميں پہلے شيطان کو پہلی کنکر مارنے پر اور عمره ميں طواف شروع کرنے سے پہلے حجرِ اَسود کے اِستلام کے وقت تلبیہ موقوف کر ديا جائے، اس کے بعد تلبیہ  پڑھنا مسنون نہیں۔(فتاوی شامیہ: ۳/ ۶۰۷،۶۰۸)

احرام کی پابندياں:

جب آپ نے اِحرام باندھ کر عمره يا حج کي نيت کرلی اور تلبیہ کہہ ليا تو آپ ’’مُحرِم‘‘ ہوگئے. (هداية: ۱/ ۲۵۶)اور آپ پر احرام کی پابندياں عائد ہوگئيں، اب آپ سلا ہوا کپڑا نہيں پہن سکتے، اَيسا جو تا نہيں پہن سکتے جوپاؤں کی پشت پر ابھری ہوئی ہڈی کو ڈھانکنے والا ہو، حجامت نہيں بنوا سکتے، بلکہ جسم کے کسی حصہ کا ايک بال بھی نہیں  توڑ سکتے، ناخن نہیں  تراش سکتے، خوشبو نہيں لگا سکتے، غسل نہيں کر سکتے، صابن سے ہاتھ منہ نہيں دھوسکتے، بيوی سے ہمبستری  نہيں کر سکتے، بلکہ ايسی کوئی بات بھی نہيں کر سکتے جو اس کی خواہش کو اُبھارنے والی ہو اور جس سے نفس کو خاص لذت ملتی ہو، کسی جانور کا شکار نہيں کرسکتے۔ (ردالمحتار: ۳/ ۵۶۶ ۔ ۵۷۲) بلکہ اپنے کپڑے يا جسم کی جوں بھی نہيں مار سکتے۔

حج بدل ميں نيت کس طرح کرے؟

اگر کسی دوسرے کی طرف سے حج بدل کر رہا ہو تو اِحرام ميں اس کی طرف سے حج کرنے کی نيت کرنا شرط ہے اور دعا اور تلبیہ ميں بھی  اس کی  طرف سے حج کی تصريح کرنا بہتر ہے۔

في غنية الناسک: ’’وإن کان إحرامه عن الغير … شرط النية عنه، ثم إن شاء ذکره في التلبية والدعاء وإن شاء اکتفي بالنية عنه۔‘‘ (صـ: ۷۴)

نابالغ کا اِحرام اور حج و عمره:

نابالغ بچہ نفل عمره و حج کر سکتا ہے، اگر وه سمجھدار ہے تو اس کی طرف سے کوئی دوسرا اِحرام نہ باندھے، بلکہ ضروری ہے کہ وه خود احرام باندھے اور آگے حج يا عمره کے افعال بھي بچہ خود انجام دے، البتہ جو افعال وه خود نہيں انجام دے سکتا وه اس کی طرف اس کا کوئی رشتہ دار اس کا نائب بن کر ادا کر سکتا ہے۔ نيت بچے کی طرف سے ادا کرنے کی کرے گا۔

نابالغ اگر سمجھدار نہيں تو اس کا خود اِحرام باندھنا درست نہيں، کوئي رشتہ دار (بہتر يہ ہے کہ سب سے قريبی رشتہ دار ہو) اس کی طرف سے حج يا عمره کا احرام باندھے، آگے حج يا عمره کے افعال بھي بچہ سے نہيں کروائے گا بلکہ بچہ کی طرف سے نائب بن کر اس کی  طرف سے نيت کر کے طواف وغيره سارے افعال کرے گا، البتہ طواف کے بعد دو رکعتوں ميں نيابت درست نہيں ہے، لهٰذا وه بچہ کی طرف سے ادا نہيں کرے گا۔

واضح رہے کہ مذکوره بالا دونوں صورتوں ميں بہتر تو يہ ہے کہ بچے کو اِحرام کے ممنوعات سے بچايا جائے، اسے اِحرام کا لباس پہنايا جائے اور حج يا عمره کے سارے افعال اس سے کروائے جائيں يا اس کی طرف سے کيے جائيں ليکن اگر ان امور پر کسی عذر سے يا بلا عذر عمل درآمد نہ ہو سکے مثلاً بچہ احرام ميں ممنوع چيزوں کا ارتکاب کرلے يا سارے افعال نہ کرے، بعض چھوڑ دے تو اس کی کوئی جزا يا قضا نہ بچے کے اوپر ہے اور نہ اس کے بالغ رشتہ دار کے اوپر ہے۔(غنية الناسک: ص: ۸۳،۸۴)

احرام کی چادريں دھونا:

اِحرام کي چادريں ميلی  ہو جائيں تو اسے دھونا درست ہے، البتہ خوشبو دار سرف يا صابن سے دھو نا اور پھر انہيں پہننا جائز نہيں۔

       اِحرام ميں انجکشن:

اِحرام کي حالت ميں انجکشن لگوانے ميں حرج نهيں۔

طواف ميں اضطباع:

حالت ِ احرام ميں اضطباع يعنی داياں کندھا کھلا رکھنا صرف اس طواف کی  حالت ميں مسنون ہے جس کے بعد صفا و مروه کی سعی بھی کرنی ہو۔ اس کے علاوه نہيں، لہذا عام حالات ميں کندھا ڈھانکنا چاہیے، خصوصاً نماز کی حالت ميں۔(فتاوی شامية:۳/ ۵۵۸)

اِحرام کب باندھنا لازم هے؟

اپنے اوپر اعتماد ہو کہ ممنوعات ِ اِحرام کا ارتکاب نہیں کرے گا تو گھر ہی سے اِحرام باندھنا اور جتنا پہلے ہو سکے (حج کے مہینوں کے اندر اندر) اِحرام باندھنا مستحب ہے، ليکن اگر کسی کو خدشہ ہو کہ احرام کی پابنديوں کی  رعايت نہیں  کرسکے گا، تو اس کے ليے احرام ميں جتنی تاخير ممکن ہو، مستحب ہے، البتہ درجِ ذيل جگہوں سے (جنہیں مواقيت) کہتے ہیں بغير احرام کے گزرنا جائز نہیں، اس سے پہلے احرام باندھنا واجب ہے، يہ پانچ جگہیں درجِ ذِيل ہيں:

1:۔’’ذوالحليفه‘‘ (آج کل اس کو ’’ابيارِ علي‘‘ کہتے ہيں) مدينہ منوره سے آنے والوں کے لئے  یہاں احرام باندھنا ضروری  ہے۔

2:۔’’جحفہ‘‘ مصر، شام، مغربی  علاقے اور تبوک سے آنے والے لوگوں کے لئے ميقات ہے، آج کل يہ بستی  چونکہ ويران ہو چکی ہے، اس لئے اس کے ساتھ اس سے تھوڑا سا پہلے بستی  ’’رابغ‘‘ ہی سے لوگ اِحرام باندھتے ہيں۔

3:۔’’قرن المنازل‘‘ (آج کل اس کو ’’سيل‘‘ کہتے  ہيں) اہل نجد، رياض اور طائف کی طرف سے آنے والے يہاں سے اِحرام باندھتے ہيں۔

4:۔’’ذاتِ عرق‘‘ اہل عراق يعنی  بصره اور کوفہ کے لوگوں کے ليے يہ ميقات ہے، ليکن اس بستی  کے اثرات بھی  مٹ گئے ہيں، لہذا بہتر يہ ہے کہ عقيق (جو اس سے پہلے ہے) سے اِحرام باندھا جائے۔

5:۔’’يلملم‘‘ (آج کل اس کو ’’سعديہ‘‘ کہتے ہيں) پاکستان، ہندوستان اور يمن کے لوگوں کے ليے ميقات ہے۔( غنية الناسک: ص: ۵۰۔۵۲)

ان پانچ مقامات سے بری يا بحری راستے سے بغير اِحرام کے آگے گزرنا حرام و ناجائز ہے۔

ميقات سے اِحرام کا مطلب:

مذکوره مقامات سے ہر اس شخص کے لئے بغير احرام کے آگے جانا جائز نہيں جس کا گزر یہاں سے ہو، اگرچہ وه دوسری جگہ کا رہنے والا ہو مثلاً ايک پاکستانی  عراق کی طرف سے حرم آرہا ہو تو اس کے لئے  عقيق سے اِحرام باندھنا ضروری ہے ، اِحرام کے بغير نہ گزرنے کا مطلب يہ ہے کہ حج يا عمره کا اِحرام باندھے گا اور اس پر حج يا عمره (جس کا بھی  احرام باندھا ہو) کرنا بھی  ساتھ لازم ہوگا، اگر نہیں کيا تو اس کی قضا لازم ہوگی ۔

اگر راستے ميں دو ميقات ہوں:

اگر کسی  شخص کے راستے ميں دو ميقات آرہی ہوں مثلاً مدينہ سے آنے والے شخص کے سامنے ذوالحليفہ(ابيارعلی) اور پھر اس کے بعد جحفہ (رابغ) دو ميقاتيں ہوتی ہيں تو ايسے شخص کے ليے افضل تو يہ ہے کہ پہلے والی ميقات سے اِحرام باندھے ليکن اگر دوسری ميقات سے اِحرام باندھے تو بھی کوئی  گناه يا جزا لازم نہیں هوتی۔( غنية الناسک ،ص: ۵۳)

ايک ميقات پر گزر ہو اور دوسری محاذاة ميں ہو:

کسی ميقات کی محاذاة سے احرام باندھنا جب جائز ہے جب حقيقی ميقات سے گزر نہ ہو، لہذا جس شخص کے سامنے دو ميقات آرہی ہوں، ايک ميقات پر سے وه حقیقةً گزرے گا، جبکہ دوسری ميقات پر اس کا حقيقی گزر نہیں ہوگا، بلکہ وه راستے ميں اس سے آگے کسی جگہ اس کی  محاذاة ميں آئے گی تو ايسی صورت ميں جس ميقات سے اس کا حقيقی گزر ہوگا اس سے اِحرام باندھنا لازم ہے، اگر محاذاة کی جگہ سے اِحرام باندھے گا تو يہ درست نہیں ہوگا (فتاوی شامیۃ: ۳/ ۵۵۱) اور اس پر بغير اِحرام کے ميقات عبور کرنے کي وجہ سے دَم بھی لازم آئے گا۔

البتہ اگر محاذاة والی ميقات پہلے آتی ہے تو اس سے اِحرام باندھنے ميں حرج اس لئے نہیں کہ حقيقی ميقات سے پہلے احرام باندھنا جائز بلکہ افضل ہے۔

حل ميں جانے والے پر اِحرام ضروری نہیں:

ميقات سے بغير اِحرام کے گزرنا کسی شخص کے لئے جائز نہیں، خواه وه حج، عمره کی  نيت سے جا رہا ہو يا کسی اور کام سے حرم ميں جانے کا اراده رکھتا ہو، البتہ اگر کسی کی ميقات سے گزرنے کی  نيت تو ہو ليکن آگے حرم ميں جانے کی نيت بالکل نہ ہو بلکہ  ’’حل‘‘ (حرم اور ميقات کے درميان) جانے کي نيت ہو، نيز راستے ميں حرم پر اس کا گزر بھی نہ ہو تو اس کے ليے ميقات سے اِحرام کے بغير گزرنا جائز ہے۔( غنية الناسک: صـ: ۵۴)

مکی اگر ميقات سے باہر چلا جائے:

اگر مکہ اور حرم کا رہائشی سفر کر کے ميقات سے باہر آجائے تو اس کے ليے بھی واپس جاتے ہوئے ميقات سے اِحرام باندھنا لازم ہے۔(فتاوی شامیہ: ۳/ ۵۵۴)

ميقات سے اِحرام کے بغير گزرنے کی  ايک جائز صورت:

اگر کسی حج و عمره پر جانے سے پہلے ہی  ’’حل‘‘ ميں کوئی  کام درپيش ہو اور اس کا اراده يہ ہو کہ ميں پہلے ’’حل‘‘ کے کسی  مقام مثلاً جده جاؤں گا، وہاں سے مقصد پورا ہونے کے بعد حرم ميں بھی حج يا عمره يا کسی  اور کام سے جاؤں گا تو ايسے شخص کے ليے بغير اِحرام باندھے ميقات عبور کرنا جائز ہے، وه پہلے جده ميں اپنا کام انجام دے، اس کے بعد حج يا عمره کے ليے وہیں سے اِحرام باندھ کر حرم چلا جائے۔ (تفصيل کے لئے حضرت مفتی رشيد احمد صاحب رحمہ الله تعالیٰ  کا رسالہ ’’حيلۂ دخولِ مکہ بلا اِحرام‘‘ ملاحظہ ہو)

نيز اس صورت ميں جده سے اِحرام باندھنا جب ضروری ہے جب حج يا عمره کے ليے حرم ميں جانے کی  نيت ہو، اگر کسی  اور ضرورت سے جانے کی نيت ہو تو پھر اِحرام باندھنے کی  ضرورت نہیں۔(ردالمحتار: ۳/ ۵۵۳،۵۵۴)

جو شخص دو ميقاتوں کے درميان رہتا ہو:

اگر کوئی شخص ايسا ہو کہ بعض جگہوں کے اعتبار سے تو ميقات کے اندر ہو ليکن کسی دوسری ميقات سے باہر ہو تو اس کے ليے دوسری ميقات سے پہلے پہلے اِحرام باندھنا لازم ہے، مثلاً ايک آدمی ذوالحليفہ اور جحفہ کے درميان رہتا ہو تو اس کے ليے حرم آتے وقت (خواه ويسے آرہا ہو يا حج عمره کے لئے آرہا ہو دونوں صورتوں ميں) جحفہ سے پہلے پہلے حج يا عمره کا اِحرام باندھنا لازم ہوگا۔(غنية الناسک: ص: ۵۶)

اہل حرم کے ليے ميقات:

جو لوگ حرم کے اندر موجود ہوں وه حج کرنا چاہيں تو حج کا اِحرام جہاں وه ہيں وہيں سے باندھنا لازم ہے اور خلاف ورزی  پر دَم لازم ہوگا، البتہ عمره کے اِحرام کے ليے حرم سے نکل کر حل کی زمين ميں آنا واجب ہے، خلاف ورزی پر دَم لازم ہوگا، بہتر يہ ہے کہ تنعيم ميں آکر عمره کا اِحرام باندھيں۔( ردالمحتار: ۳/ ۵۵۳،۵۵۴) اس لئے  کہ يہ قريب پڑتا ہے، نيز اس لئے  بھی کہ حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا کو رسول اللهﷺنے يہیں سے عمره کا اِحرام باندھنے کا حکم ديا تھا۔

جده:

جده ائير پورٹ پر کاغذی کارروائی ميں تقريباً چھ سے باره گھنٹے لگ جاتے ہيں، نيز یہاں سے فراغت کے بعد آپ کے معلم کا وکيل مکہ مکرمہ جانے کے ليے سواری کا انتظام کرے گا، اس  ميں بھی کبھی کبھی ايک دِن يا دو دِن تاخيرہوجاتی ہے، صبر وتحمل سے کام ليجئے اور ذکر وعبادت ميں مشغول رہیے۔

حدودِ حرم:

مرکز جده سے مسجد الحرام تک کل فاصلہ 80 کلو ميٹر ہے،جبکہ حدودِ حرم کی ابتدا سے مسجد الحرام تک فاصلہ 23 کلوميٹر ہے، حدودِ حرم سے تقريباً 2 کلوميٹر پہلے ايک چيک پوسٹ ہے، یہاں سے ايک سڑک الگ ہوتی ہے جو غير مسلموں کے ليے مختص ہے، اس پر ايک بورڈ ہے جس پر ’’لغير المسلمين‘‘ لکھا ہوا ہے۔اس سے تقريباً دو کلوميٹر بعد حدودِ حرم شروع ہوتی  ہيں، يہاں سڑک کے دونوں طرف آغازِ حدودِ حرم کی علامت کے طور پر محراب نما ستون بنے ہوئے ہيں اور ’’بدایۃ حد الحرم‘‘ کا بورڈ لگا ہوا ہے۔

اس سے چار کلوميٹرآگے سڑک کے اوپر ايک بہت بڑی رحل بنی ہوئی ہے،جس کے بارے  ميں پہلے مشهو ر تھا کہ يہ آغازِحدودِ حرم ہے، اَگر اب بھی  کسی  کا يہ خيال ہو تويہ درست نہیں۔

حدودِ حرم پہنچ کر يوں دُعاء کيجئے:

’’اَللّٰهُمَّ هَذَا حَرَمُکَ وَأَمَنُکَ فَحَرِّمْنِيْ عَلَى النَّارِ وَاٰمِنِّيْ مِنْ عَذَابِکَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَکَ وَاجْعَلْنِيْ مِنْ أَوْلِيَائِکَ وَأَهْلِ طَاعَتِکَ۔‘‘ (کتاب الاذکار للنووي)

ترجمہ: ’’اے ﷲ! يہ تيرا حرم اَور تيرے امن کی  جگہ ہے، پس جہنم کو مجھ پر حرام فرما اَور اس دِن کے عذاب سے ہميں مامون فرما جس دِن تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا اَور مجھے اپنے دوستوں اَور اہل طاعت ميں سے بنا ديجئے۔‘‘

                                                                  

                                                                   مفتی محمد

                                                               دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی