جانور بے قابو ہو گیا تو ذبح اضطراری جائز ہے:
اگر جانور بے قابو ہو کر ہاتھ سے چھوٹ جائے اور پکڑنے میں نہ آئے تو ذبح اضطراری بھی جائز ہے، یعنی چھری، برچھی وغیرہ کسی دھار دار آلہ پر بسم ﷲ پڑھ کر ذبح کی نیت سے دور سے مار دے، وہ جانور کے جسم میں جس جگہ بھی لگ جائے اور جانور ہلاک ہو جائے تو جانور حلال ہو جائے گا۔
بکری آبادی میں بھاگ جائے یا کنویں وغیرہ میں گر جائے تو ذبح اضطراری جائز نہیں کیونکہ پیچھا کر کے اسے قابو میں لایا جاسکتا ہے اور صحراء میں بھاگ جائے تو ذبح اضطراری جائز ہے۔
اونٹ یا گائے، بھینس بے قابو ہو کر بھاگ جائیں تو بہر صورت ذبح اضطراری جائز ہے، خواہ آبادی میں بھاگیں یا صحراء میں۔
اسی طرح جانور نے کسی پر حملہ کردیا اور اس نے بنیت ذبح بسم ﷲ پڑھ کر اسے کسی دھاری دار چیز سے قتل کردیا تو بھی حلال ہو جائے گا (الفتاوی الھندیۃ، 5/285)۔
قربانی کے جانور کے دودھ، اون اور گوبر کا حکم:
مندرجہ ذیل صورتوں میں قربانی کے جانور کا دودھ، اون اور گوبر استعمال میں لانا اور اس سے نفع حاصل کرنا بلاکراہت جائز ہے:
1:۔جانور گھرکا پالتو ہو۔
2:۔ جانور خریدا ہو مگر خریدتے وقت قربانی کی نیت نہ ہو۔
3:۔قربانی کی نیت سے خریدا ہو مگر اس کا گزارا باہر چرنے پر نہ ہو بلکہ گھر میں چارہ کھاتا ہو۔
اگر قربانی کی نیت سے خریدا ہو اور باہر چر کر گزر کرتا ہو تو اس کے دودھ، اون اور گوبر کو استعمال میں لانا جائز ہے مگر استعمال میں نہ لانا بہتر و احوط ہے۔
ایسے جانور کا دودھ ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مار کر خشک کر دینا چاہیے۔ اگر خشک نہ ہو اور جانور کو تکلیف ہو رہی ہو تو نکال کر صدقہ کر دینا چاہیے۔
اگر ذبح کرنے کے بعد اون کاٹی جائے تو اسے اپنے استعمال میں لانا جائز ہے۔اسے بیچ کر قیمت استعمال میں لانا صحیح نہیں۔اگر بیچ دی تو قیمت صدقہ کر دینی چاہیے (الفتاوی الھندیۃ، 5/301)۔
حلال جانورکی مندرجہ ذیل سات چیزوں کا کھانا حرام ہے:
1:۔بہتا خون
2:۔مذکر کی پیشاب گاہ
3:۔خصیتین
4:۔مؤنث کی پیشاب گاہ
5:۔غدود
6:۔مثانہ
7:۔پتہ ۔۔ (حاشیۃ ابن عابدین، 6/749)۔
قربانی کا جانور بدلنا:
جانور گھر کا پالتو ہو یا خریدنے کے بعد قربانی کی نیت کی ہو تو اس کا بدلنا غنی اور فقیر دونوں کے لیے جائز ہے اور اگر قربانی کی نیت سے خریدا ہو تو اس میں تین روایات ہیں:
1:۔غنی اور فقیر دونوں کے لیے بنیت اضحیہ جانور خریدنے سے وہ قربانی کے لیے متعین نہیں ہوتا۔ لہٰذا دونوں کے لیے بدلنا جائز ہے۔
2:۔دونوں کے لیے متعین ہوجاتا ہے۔ غنی پر بقدر مالیت اور فقیر پر اسی جانور کی قربانی واجب ہے۔ بقدر مالیت کا مطلب یہ ہے کہ غنی پر بعینہٖ اسی جانور کا ذبح کرنا تو واجب نہیں مگر اس جانور کی مالیت سے وجوب متعلق ہوگیا۔ لہٰذا اسی کو ذبح کرے یا اسی کی مالیت کا کوئی دوسرا جانور۔
اس روایت کے مطابق غنی کے لیے جانور بدلنا جائز ہے یا نہیں؟ اس میں مختلف اقوال ہیں، راجح قول یہ معلوم ہوتا ہے کہ جانور بدلنا مکروہ تنزیہی ہے۔ لیکن اگر کسی نے بدل کر کوئی دوسرا جانور بطور اضحیہ ذبح کردیا تو پہلے کو ذبح کرنا ضروری نہیں۔ اس کو ویسے ہی چھوڑدینا بلاکراہت جائز ہے۔
دونوں صورتوں میں اگر ادنیٰ جانور سے تبدیل کیا تو جتنی قیمت پہلے جانورکی زیادہ تھی اتنی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے۔
یہ دونوں قول ظاہر الروایۃ ہیں۔ پہلے قول میں وسعت او رآسانی زیادہ ہے اور دوسرا قول احوط و اشہر ہے۔
3:۔غنی کے لیے بنیت اضحیہ خریدنے سے جانور قربانی کے لیے متعین نہیں ہوتا، فقیر کے لیے متعین ہوجاتا ہے، لہٰذا غنی کے لیے اس جانور کا بدلنا مطلقاً جائز ہے اور فقیر کے لیے مطلقاً ناجائز۔ (خلاصة الفتاوى، 4/319)۔
ان روایات پر کئی مسائل متفرع ہوتے ہیں جو درج ذیل ہیں:
1:۔ بنیت اضحیہ جانور خریدا وہ گم ہوگیا، پھر دوسرا جانور خرید لیا، اس کے بعد ایام نحر میں پہلا بھی مل گیا:
مذکورہ صورت میں پہلی روایت کے مطابق (جو اوسع و ایسر ہے) غنی اور فقیر دونوں کو اختیار ہے کہ دونوں جانوروں میں سے کوئی ایک یا ان دونوں کے سوا کوئی اور جانور ذبح کریں۔ فقیر کو یہ بھی اختیار ہے کہ کوئی جانور بھی ذبح نہ کرے۔
2:۔بنیت اضحیہ جانور خریدا، پھر وہ گم ہوگیا یا مرگیا:
اس صورت میں غنی پر تینوں روایات کے مطابق دوسرے جانور کی قربانی واجب ہے۔ خواہ پہلے جانور سے کم قیمت ہی کا ہو، فقیر پر کچھ بھی واجب نہیں۔
3:۔بنیت اضحیہ جانور خریدا، وہ گم ہو گیادوسرا جانور خرید کر ایام نحر میں ذبح کردیا، پھر ایام نحر ہی میں پہلا جانور مل گیا:
اس صورت میں پہلی روایت کے مطابق غنی اور فقیر دونوں پر کچھ واجب نہیں۔
4:۔ بنیت اضحیہ جانور خریدا، وہ گم ہو گیادوسرا جانور خریدا، مگر ایام نحر میں ذبح نہیں کیا، ایام نحر گذرنے کے بعد پہلا جانور بھی مل گیا:
پہلی روایت کے مطابق غنی پر واجب ہے کہ کوئی ایک جانور زندہ یا کسی بھی لائق اضحیہ جانور کی قیمت صدقہ کردے۔ فقیر پر کچھ بھی واجب نہیں۔
5:۔بنیت اضحیہ جانور خریدا، وہ گم ہو گیادوسرا جانور خریدکر ایام نحر میں ذبح کردیا، ایام نحر گذرنے کے بعد پہلا جانور بھی مل گیا:
روایت اولیٰ کے مطابق غنی اور فقیر دونوں پر کچھ بھی واجب نہیں۔
6:۔بنیت اضحیہ جانور خریدا، مگر ایام نحر میں ذبح نہ کیا:
روایت اولیٰ کے مطابق غنی پر یہی جانور زندہ یا کسی بھی لائق اضحیہ جانور کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے۔ فقیر پر کچھ بھی واجب نہیں۔
7:۔فقیر نے قربانی کی نیت سے جانور خریدکر ذبح کیا، پھر ایام نحر میں مالدار ہوگیا:
روایت اولیٰ کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر کچھ بھی واجب نہ ہو۔
ضروری وضاحت:
ہم نے مندرجہ بالا مسائل روایت اولیٰ جو ظاہر الروایۃ ہونے کے ساتھ ساتھ اوسع وایسر (زیادہ وسعت اور آسانی والی) بھی ہے، اس کے مطابق لکھے ہیں۔ بعض کتب میں تیسری روایت کے مطابق مسائل لکھے گئے ہیں، اگر کوئی احتیاطاً ان کتب کی تحریر کے مطابق عمل کرنا چاہے تو اچھی بات ہے۔
جانور متعین کیا تھا، مگر قربانی نہ کرسکا:
اگر کسی مالدار نے قربانی نہیں کی، حتیٰ کہ قربانی کے ایام گذر گئے تو اب قربانی فوت ہوگئی۔ اگر اس نے قربانی کا جانور زبان سے نذرمان کر (کہ اس خاص جانور کی قربانی کرنا میں نے اپنے اوپر لازم کرلیا) معین کر رکھا تھا تو اب قربانی کے ایام کے بعد اسی زندہ جانور کو فقراء پر صدقہ کردے۔ اگر بیچ دیا تو اس کی قیمت اور ذبح کردیا تو اس کا سارا گوشت پوست صدقہ کردے۔ اگر مذبوحہ جانور کی قیمت زندہ سے کم ہے تو جتنی کم ہے اتنا صدقہ کرنا بھی ضروری ہے، اگر گوشت پوست میں سے کچھ خود استعمال کرلیا تو اس کی قیمت صدقہ کرے۔
مالدار نے جانور متعین نہیں کیا تھا، ایام گذرگئے:
کسی شخص پر قربانی واجب تھی، مگر اس نے غفلت کی اور قربانی نہیں کی تو اگر اس نے کوئی جانور متعین نہیں کیا تھا تو قربانی کے قابل متوسط درجہ کی بھیڑ یا بکری کی قیمت فقراء پر صدقہ کرنا واجب ہے۔ گائے کے ساتویں حصّہ کی قیمت کو صدقہ کر دینا کافی نہیں۔اسی طرح دوسرے سال اس سال کی قضا کے طور پر جانور ذبح کرنا بھی کافی نہیں (بدائع الصنائع، 5/68)۔
فقیر نے پالتو جانور کی قربانی کی نیت کی، پھر قربانی نہیں کی:
اگر فقیر نے قربانی کے لیے جانور خریدا نہیں بلکہ جانور اس کے پاس پہلے سے موجود تھا، اس کی قربانی کی نیت کرلی تو اس پر قربانی واجب نہیں ہوئی۔ اس لیے اگر ایام گذر گئے اور اس نے قربانی نہیں کی تو اس پر کچھ بھی واجب نہیں (الفتاوی الھندیۃ، 5/294)۔
جانور ہلاک ہوگیا:
قربانی کے لیے خریدا ہوا جانور ہلاک ہوجائے یا چوری ہوجائے ، خواہ خريدنے والے نے اسے زبان سےمعین کیا ہو یا نہ کیا ہو تو مالدار پر دوسرے جانور کی قربانی واجب ہے۔ فقیر سے قربانی ساقط ہوگئی، دوسرے جانور کی قربانی واجب نہیں (بدائع الصنائع، 5/66)۔
قربانی کی وصیت و توکیل:
کسی نے یہ وصیت کی کہ اس کے انتقال کے بعد اس کی طرف سے قربانی کر دی جائے، مزید کوئی وضاحت نہ کی کہ کون سا جانور ذبح کیا جائے، نہ ہی قیمت بیان کی کہ اتنی مالیت کا جانور خریدا جائے تو بھی وصیت جائز و نافذ ہے جو ایک بکری یا بھیڑ ذبح کرنے سے پوری ہو گی، گائے میں حصہ ڈالنے سے پوری نہیں ہوگی۔
لیکن اگر کسی زندہ شخص نے جانور یا قیمت کی تعیین کئے بغیر کسی کو وکیل بنایا کہ میری طرف سے قربانی کردو تو یہ توکیل صحیح نہیں، اگر دوسرے شخص نے قربانی کر دی تو قربانی نہیں ہوگی۔
غیر کی طرف سے قربانی:
گائے کی قربانی میں کسی غائب شخص کا حصہ اس کی طرف سے قیمت ادا کیے بغیر یا ادا کرنے کا وعدہ کیے بغیر، اس کے حکم سے یا حکم کے بغیر شامل کر لیا تو اس شخص کی اور دوسرے شرکاء کی قربانی درست ہوگی یا نہیں؟ اس میں یہ تفصیل ہے:
1.دوسرے کی طرف سے نفل قربانی اس کے حکم کے بغیر بھی جائز ہے اور یہ دراصل خود جانور کے مالک یا حصہ خریدنے والے کی قربانی ہے جس کا ثواب دوسرے کو پہنچا رہا ہے۔ لہذا سب شرکاء کی قربانی درست ہو جائے گی (الھدایۃ، 1/178)۔
2.دوسرے کے حکم سے اس کی نفل یا واجب قربانی کا حصہ گائے میں شامل کیا تو سب کی قربانی درست ہے۔.
3.دوسرے کے حکم کے بغیر اس کی واجب قربانی کا حصہ شامل کیا تو اگر اس شخص کی طرف سے قربانی کرنے کا مستقل معمول ہے تو بھی سب کی قربانی درست ہے۔
4.بغیر حکم کے ایسے شخص کی قربانی کا حصہ گائے میں رکھا جس کی طرف سے قربانی کرنے کا مستقل معمول نہیں تو اس دوسرے شخص کی قربانی نہیں ہوئی (حاشیۃ ابن عابدین، 6/315)۔
اس صورت میں دوسرے شرکاء کی قربانی ہوئی یا نہیں؟ اس میں عبارات فقہ مختلف ہیں۔ قول عدم جواز احوط ہے اور قول جواز عقل و درایت کے مطابق ہے، اس لیے کہ جب نامزد کردہ حصہ کا مالک بھی خود ذابح یا خریدنے والا ہے تو اس کی اور باقی شرکاء کی قربانی صحیح نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔
5.غیر کی واجب قربانی میں اپنی بکری ذبح کر دی، جبکہ غیر نے اس بکری پر قبضہ نہیں کیا تھا تو نہ اپنی قربانی ہوئی نہ غیر کی ہوئی، خواہ اس کے حکم سے کی ہو یا بغیر حکم کے (الفتاوی الھندیۃ، 5/302)۔
6.اگر غیر کے حکم سے بکری خرید کر غیر کی طرف سے قربانی کی تو صحیح ہو جائے گی، اس لیے کہ اس صورت میں یہ غیر کا وکیل ہے اور وکیل کا قبضہ موکل کا قبضہ شمار ہوتا ہے (المبسوط للسرخسي، 12/204)۔
دوسرے شخص نے بلا اجازت جانور ذبح کر دیا:
اگر کسی کی قربانی کا جانور اس سے صراحۃً اجازت لیے بغیر دوسرے شخص نے ذبح کر دیا تو اگر اس نے مالک ہی کے لیے ذبح کیا تو یہ قربانی مالک ہی کی طرف سے ہوگی۔ (مجمع الضمانات، 1/9)اور ذابح پر ضمان نہ آئے گا اور اگر ذابح نے اپنے لیے ذبح کیا تو اس کا فیصلہ مالک پر موقوف ہے، اگر وہ ذبح کرنے والے کو زندہ جانور کی قیمت کا ضامن ٹھہرائے تو یہ قربانی ذبح کرنے والے کی طرف سے ہو جائے گی اور اگر مالک مذبوحہ جانور لے لے اور گوشت سے زائد قیمت کا ذبح کرنے والے کو ضامن ٹھہرائے تو یہ قربانی کسی کی طرف سے بھی درست نہیں ہوگی۔
فی البدائع: إذا اغتصب شاة إنسان فضحى بها عن نفسه أنه لا تجزيه لعدم الملك ولا عن صاحبها لعدم الإذن ثم إن أخذها صاحبها مذبوحة وضمنه النقصان فكذلك لا تجوز عن التضحية وعلى كل واحد منهما أن يضحي بأخرى (بدائع الصنائع، 5/76)۔
میت کی طرف سے قربانی:
قربانی کسی میت یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی استاذ یا والدین یا کسی رشتہ دار کی طرف سے کرنا درست ہے۔ یہ قربانی درحقیقت جانور کے مالک یا حصہ خریدنے والے کی ہے جس کا ثواب وہ مذکورہ بالا اشخاص کو پہنچا رہا ہے (الھدایۃ، 1/178)۔
میت کی قربانی کا گوشت کھانا:
کوئی شخص میت کی طرف سے بغیر اس کی وصیت کے نفل قربانی کرے تو اس میں سے خود کھانا اور دوسروں کو کھلانا جائز ہے، اس لیے کہ اس کا حال مثل اپنی قربانی کے ہے، لیکن اگر میت نے قربانی کرنے کی وصیت کی ہو تو اس میں سے خود کھانا یا اغنیاء کو کھلانا جائز نہیں، بلکہ سارا گوشت فقراء پر صدقہ کرنا لازم ہے (حاشیۃ ابن عابدین، 6/326)۔
گوشت کی تقسیم:
اگر بڑے جانور میں کئی شرکاء ہیں اور آپس میں گوشت تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ پوری احتیاط سے وزن کرکے تقسیم کریں۔ اندازہ سے تقسیم کرلینا جائز نہیں، اگرچہ باہم کمی بیشی معاف کردیں۔ یہ حق شرع ہے جو کسی کے معاف کرنے سے معاف نہیں ہوتا۔ وزن نہ کرنے میں کمی بیشی لازمی بات ہے جس میں سود کا گناہ ہوگا (بدائع الصنائع، 5/67)۔
وزن کی مشقت سے بچنے کی آسان تدبیر:
اگر وزن کی مشقت سے بچنا چاہیں تو اس کی آسان تدبیر یہ ہے کہ سری پائے یا کلیجی کے ٹکڑے کرکے ہر حصہ میں ایک ایک ٹکڑا رکھ دیا جائے۔ اس طرح اندازہ سے تقسیم کرنا بھی جائز ہوجائے گا (مجمع الأنھر، 2/518)۔
گوشت تقسیم کرنا کس صورت میں ضروری نہیں؟
1.وزن کرکے برابر تقسیم کرنا اس صورت میں ضروری ہے کہ شرکاء آپس میں تقسیم کرنا چاہیں، اگر سارا گوشت لوگوں میں تقسیم کرنا چاہیں یا پکاکر ان کو کھلانا چاہیں تو تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں۔
البتہ اگر شرکاء میں سے کسی نے زبان سے نذرمان کر قربانی اپنے اوپر واجب کی تھی تو اس کا حصہ الگ کرکے فقراء پر صدقہ کرنا واجب ہے (حاشیۃ ابن عابدین، 6/317)۔
2.اگر کسی نے پورا جانور اپنے گھر کے افراد کے لیے رکھ لیا تو تقسیم کرنا ضروری نہیں۔ مثلاً: گائے خریدی اور اس کا ایک حصہ اپنے لیے، ایک حصہ بیوی کے لیے اور باقی حصص بالغ اولاد کے لیے رکھ لیے، پھر ذبح کرنے کے بعد پورا گوشت تقسیم کئے بغیر گھر میں رکھ لیا اور سب ایک ہی گھر میں رہتے اور کھانا مشترک کھاتے ہیں تو جائز ہے (حاشیۃ ابن عابدین، 6/317)۔
قربانی کے گوشت کے تین حصے مستحب ہیں:
افضل یہ ہے کہ قربانی کا گوشت تین حصے کر کے ایک حصہ اپنے اہل و عیال کے لیے رکھے، ایک حصہ اقارب و احباب میں تقسیم کرے، ایک حصہ فقراء میں تقسیم کرے۔ جس شخص کے اہل و عیال زیادہ ہوں وہ تمام گوشت خود بھی رکھ سکتا ہے، یہ استحباب کے خلاف نہیں (تحفۃ الفقہاء، 3/88)۔
مفتی محمد
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی