021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کھال کے احکام ومصارف

کھال اپنے استعمال میں لانا جائز ہے:

قربانی کی کھال کا قربانی کرنے والےیا اس کے اہل و عیال اور گھر کے دوسرے افراد کیلیے اپنے استعمال میں لانا جائز ہے۔ جائے نماز، دستر خوان، مشکیزہ، ڈول، موزہ، جوتا وغیرہ کوئی بھی چیز بنا کر استعمال کی جا سکتی ہے (حاشیۃ ابن عابدین، 6/317)۔

اپنے استعمال کیلیے بنائی گئی کسی چیز کو کرائے پر دینا جائز نہیں:

کھال سے مذکورہ بالا اشیاء میں سے کوئی چیز بنا لی تو اسے کرایہ پر دینا جائز نہیں، اگر کسی نے غلطی سے کرایہ پر دیا تو جو کرایہ ملے اسے صدقہ کرنا واجب ہے (الفتاوی الھندیۃ، 5/301)۔

کھال یا اس سے بنی ہوئی چیز کا ہبہ جائز ہے:

قربانی کی کھال یا اس سے بنائی گئی کوئی بھی چیز کسی کو بغیر عوض کے ہبہ میں دے دینا جائز ہے۔جس کو دی جائے خواہ وہ سید اور مالدار ہو، یا اپنے ماں، باپ اور اہل و عیال ہوں، کوئی رشتہ دار یا اجنبی ہو، ہر ایک کو دینا جائز ہے (الفتاوى الهندية، 5/300)۔

کھال معاوضہ میں دینا جائز نہیں:

قربانی کی کھال، اون، آنتیں، گوشت، چربی یعنی جانور کا کوئی جزو کسی خدمت اور مزدوری کے معاوضہ میں دینا جائز نہیں۔ بعض علاقوں میں کھال قصاب کو مزدوری کے طور پر دے دی جاتی ہے۔ قربانی کی کوئی چیز قصاب کو اجرت میں دینا جائز نہیں۔ اس کی اجرت الگ دینا چاہیے۔

امام اور مؤذن کو بھی تنخواہ اور اجرت کے طور پر دینا جائز نہیں۔ بطور ہدیہ کسی کو بھی دے سکتے ہیں (الفتاوی الھندیۃ، 5/301)۔

کھال فروخت کرنا:

قربانی کی کھال یا اس سے بنائی ہوئی چیز کو فروخت کرنے میں تفصیلِ ذیل ہے:

1:۔اگر روپے کے عوض فروخت کی تو حاصل ہونے والی رقم کا فقراء پر صدقہ کرنا واجب ہے۔

2:۔کسی ایسی چیز کے عوض فروخت کی جو باقی رہتے ہوئے استعمال میں نہیں آسکتی یعنی اسے خرچ کئے بغیر اس سے نفع نہیں اٹھایا جا سکتا، مثلاً کھانے پینے کی کوئی چیز، تیل، پیٹرول، رنگ و روغن، صابن وغیرہ، تو ان اشیاء کا بھی صدقہ کرنا واجب ہے۔ خود استعمال کرنا جائز نہیں۔ قربانی کی کھال ان اشیاء یا روپے کے عوض صدقہ کرنے کی نیت سے فروخت کی تو کوئی حرج نہیںاور اپنے استعمال میں لانے کیلیے فروخت کی تو مکروہ ہے۔ جس پر استغفار لازم ہے اور ان اشیاء کا صدقہ کرنا دونوں صورتوں میں واجب ہے (الدر المختار، 1/648)۔

3:۔اگر قربانی کی کھال یا اس سے بنائی ہوئی کوئی چیز کسی ایسی چیز کے بدلے میں فروخت کی جو باقی رہتے ہوئے استعمال میں آتی ہے، یعنی اسے خرچ کئے بغیر فائدہ اٹھایاجا سکتا ہے، مثلاً کپڑے، برتن، کتاب، قلم وغیرہ تو ان اشیاء کا فقراء پر صدقہ کرنا واجب نہیں، خود استعمال کرنا، ہبہ کرنا، خیرات کرنا سب جائز ہے (تحفۃ الفقہاء، 3/88)۔

4:۔کھال کسی باقی رہنے والی چیز کے عوض فروخت کی، پھر اس چیز کو کھانے پینے یا استعمال سے خرچ ہونے والی کسی چیز کے بدلے فروخت کر دیا تو حاصل ہونے والی چیز کا صدقہ کرنا واجب ہے۔

کھال کی رقم یا اس سے حاصل شدہ چیز کا مصرف:

جن صورتوں میں کھال سے حاصل کی ہوئی رقم یا چیز کا صدقہ واجب ہے، وہ صدقہ صرف انہی فقراء و مساکین کو دیا جا سکتا ہے جنہیں زکوٰۃ دینا درست ہو (حاشية ابن عابدين، 2/339)۔ جن لوگوں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں، انہیں یہ صدقہ دینا بھی جائز نہیں۔ جس پر زکوٰۃ یا قربانی واجب ہو، وہ اس صدقہ کا مستحق نہیں۔

باپ مالدار ہو تو بچوں کو صدقہ دینا:

اگر باپ مالدار ہو تو اس کے نابالغ بچّوں کو یہ صدقہ دینا جائز نہیں۔ اور بالغ بچے اگر مالدار نہ ہوں تو انہیں یہ صدقہ دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی مالدار شخص کی بیوی مالدار نہ ہو تو اسے بھی دیا جا سکتا ہے۔اگر نابالغ بچّوں کی ماں تو مالدار ہے، باپ مالدار نہیں تو ان بچوں کو بھی یہ صدقہ دیا جا سکتا ہے (حاشیۃ ابن عابدین، 2/350)۔

سیّد کو صدقہ دینا:

سیّد اور بنو ہاشم کو (یعنی جو لوگ حضرت علی، حضرت عباس، حضرت جعفر، حضرت عقیل، حضرت حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی اولاد ہوں) یہ صدقہ دینا جائز نہیں۔ اگر یہ حاجت مند ہوں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ ویسے ان کی مدد کریں اور اس کو اپنی سعادت سمجھیں (حاشية ابن عابدين، 2/350)۔

والدین یا اولاد کو صدقہ دینا:

اپنے ماں باپ، دادا، دادی، نانا، نانی، پردادا، پردادی وغیرہ کو یہ صدقہ دینا جائز نہیں، اس سے واجب ادا نہیں ہوگا۔ والدین کی خدمت ویسے ہی اولاد کے ذمہ فرض ہے۔ اسی طرح اپنی اولاد، پوتے، پوتی، نواسے، نواسی وغیرہ کو یہ صدقہ دینا جائز نہیں۔اسی طرح شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے کو یہ صدقہ دینا جائز نہیں۔

مذکورہ بالا کے سوا سب رشتہ داروں کو یہ صدقہ دینا جائز ہے، بشرطیکہ وہ مستحق زکوٰۃ ہوں، بلکہ ان کو دینے میں دوگنا ثواب ہے، ایک صدقہ کا، دوسرا صلہ رحمی کا (حاشیۃ ابن عابدین، 2/346)۔

کسی خدمت کے معاوضہ میں صدقہ دینا:

کسی کی مزدوری یا حق خدمت کے طور پر یہ صدقہ دینا جائز نہیں۔ لہٰذا قصاب کی مزدوری یا امام و مؤذن کی خدمت کے معاوضہ کے طور پر ان کو یہ صدقہ دینے سے واجب ادا نہیں ہوگا (بدائع الصنائع، 5/81)۔

کھال اور اس کی رقم بطور تملیک دینا ضروری ہے:

زکوٰۃ اور دوسرے صدقات واجبہ کی طرح اس صدقہ کے ادا ہونے کے لیے بھی یہ شرط ہے کہ کسی مسکین کو مالکانہ طور پر دے دیا جائے، جس میں اس کو ہر طرح کا اختیار ہو۔ چنانچہ اسے مسجد، مدرسہ، شفاخانہ، کنویں، پل یا کسی اور رفاہی ادارے کی تعمیر میں خرچ کرنا جائز نہیں۔ اگرچہ وہ ادارہ مساکین ہی کی خدمت کیلیے وقف ہو، کیونکہ اس صورت میں کسی مسکین کو مالک بنانا اور اس کے قبضہ میں دینا نہیں پایا گیا۔ اسی طرح کسی لاوارث کے کفن دفن، یا کسی میت کا قرض ادا کرنے میں خرچ کرنا جائز نہیں۔

کسی ایسے مدرسہ یا انجمن وغیرہ کو دینا بھی جائز نہیں جہاں غریبوں کو مالکانہ طور پر وہ صدقہ نہ دیا جاتا ہو، بلکہ ملازمین کی تنخواہوں یا تعمیر اور فرنیچر وغیرہ انتظامی امور پر خرچ کر دیا جاتا ہو، البتہ اگر کسی ادارے میں مسکین طلبہ یا دوسرے مساکین کو مفت کھانا وغیرہ دیا جاتا ہو یا کوئی رفاہی ادارہ کھال یا اس کی رقم سے دوسرے مساکین کی کفالت کرتا ہو تو وہاں یہ صدقہ یا کھال دینا جائز ہے (الاختیار، 1/121) ۔

مسکین صدقہ وصول کرنے کے بعد جہاں چاہے خرچ کر سکتا ہے:

اگر کھال یا اس کی رقم کسی مسکین کی ملک میں دے دی اور صراحت کر دی کہ تم اس کے پوری طرح مالک ہو، ہمیں اس میں کوئی اختیار نہیں، پھر وہ اپنی خوشی سے اس کی رقم، مسجد، مدرسہ یا کسی بھی رفاہی ادارہ کی تعمیر یا اس کے ملازمین کی تنخواہوں وغیرہ میں اپنی طرف سے لگا دے تو یہ جائز ہے (البحر الرائق، 2/264) ۔

حیلۂ تملیک:

بعض اداروں میں حیلۂ تملیک کا یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ زکوٰۃ یا کھال کی رقم یا دوسرے صدقات واجبہ کی رقم کچھ مساکین کو دے کر پھر ان سے واپس لے لی جاتی ہے۔ جس کو دی جاتی ہے اسے یقین ہوتاہے کہ مجھے اس مال کا کوئی اختیار نہیں، اگر اپنے پاس رکھ لوں گا تو ادارے کے بڑے اور دوسرے لوگ ملامت کریں گے، اس خوف اور شرم کے مارے بے چارہ یہ رقم واپس چندہ میں دے دیتا ہے۔ ممکن ہے بعض افراد دین کی ترویج واشاعت کی نیت سے بطیب خاطر بھی واپس دیتے ہوں، مگر سب کے بارے میں یہ یقین کرنا مشکل ہے۔ اس لیے اس کے بجائے بوقت ضرورت شدیدہ یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ کسی مسکین سے کہا جائے کہ وہ کسی غنی سے اپنے لیے قرض لے کر ادارہ کو دیدے، ادارہ اسے تعمیر وغیرہ ہر مصرف پر خرچ کرسکتا ہے، اور ادارہ میں مد زکوٰۃ و صدقات واجبہ کی جو رقم ہو وہ اس مسکین کو قرض ادا کرنے کے لیے دیدی جائے، وہ اس سے اپنا قرض ادا کرے۔

کھال بھی شرکاء میں مشترک ہے:

جس بڑے جانور کی قربانی کئی شرکاء مل کر کر رہے ہوں، اس کے گوشت کی طرح کھال بھی سب شرکاء میں مشترک ہوگی، لہٰذا کسی شریک کے لیے یہ جائز نہیں کہ دوسروں کے حصے کی کھال بلااجازت خود رکھے یا کسی کو دے۔

اگر بقیہ شرکاء اپنا اپنا حصہ اس کو ہبہ کر دیں یا یہ ان سے خرید لے تو اب ہر طرح تصرف کر سکتا ہے۔

البتہ اگر یہ کھال فروخت کر دی اور معاوضہ میں رقم یا ایسی چیز حاصل کی جو رقم کے حکم میں ہے یعنی خرچ کئے بغیر استعمال نہیں ہو سکتی، تو اپنے حصے کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے، بقیہ حصوں کی رقم خود رکھ سکتا ہے۔

قربانی کی جھول، رسی وغیرہ:

قربانی کے جانور کی جھول، رسی اور ہار وغیرہ کو بھی کسی خدمت کے معاوضہ میں دینا جائز نہیں۔ ان چیزوں کو صدقہ کر دینا مستحب ہے، اپنے استعمال میں بھی لا سکتے ہیں (اعلاء السنن، 17/260)۔

کھال کی حفاظت ضروری ہے:

بعض لوگ جانور کی کھال اس طرح اتارتے ہیں کہ اس میں چھری لگ کر سوراخ ہو جاتے ہیں، یا کھال پر گوشت لگا رہ جاتا ہے، جس سے کھال کو نقصان پہنچتا ہے، اسی طرح بعض لوگ کھال اتارنے کے بعد اس کی حفاظت نہیں کرتے، سڑ کر بے کار یا بہت کم قیمت رہ جاتی ہے۔ یہ سب امور "تبذیر" یعنی فضول خرچی میں داخل ہیں، خواہ مخواہ ثواب ضائع اور گناہ لازم۔ اس لیے کھال احتیاط سے اتار کر ضائع ہونے سے بچانا شرعاً ضروری ہے۔

کھال خریدنے کے بعد ہر تصرف جائز ہے:

جس نے قربانی کی کھال خریدی، وہ اس کا مالک ہو گیا، اس میں ہر قسم کا تصرف کر سکتا ہے، خواہ اپنے پاس رکھے، یا فروخت کر کے قیمت اپنے خرچ میں لائے۔

مفتی محمد 

دارالافتاء جامعۃ الرشید احسن آباد کراچی