021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جھگڑے کے دوران”تم فارغ ہو آج ” کہنے کا حکم
84129طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

تقریباً سات ماہ پہلے میرے شوہر کسی بات پہ لڑ رہے تھے، میں بالکل خاموش تھی، وہ بولے جا رہے تھے، لڑتے لڑتے انہوں نے مجھے کہا: اپنے گھر والوں کو فون کرو اور کہو تمہیں آ کر لے جائیں میں نے تمہارے ساتھ نہیں رہنا،میں خاموش بیٹھی رہی پھر اور باتیں کرتے کرتے کہا "تم فارغ ہو آج" اور کافی دیر تک لڑتے رہے۔میرے شوہر اب صلح چاہتے ہیں وہ حلفاً کہتے ہیں کہ ان کی طلاق کی کوئی نیت نہیں تھی۔میں نے پوچھنا تھا کیا فارغ لفظ بغیر نیت کے کہنے سے طلاق ہو جاتی ہے ؟ میں نے آج کسی مفتی کا بیان سنا کہ ایسے طلاق ہو جاتی ہے، پلیز قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں ۔شکریہ

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 سوال میں ذکر کی گئی صورتِ حال کے مطابق شخصِ مذکور نے جھگڑے کی حالت میں جب اپنی بیوی سے کہا کہ "تم فارغ ہو آج" تو اس کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع چکی ہے اور ان الفاظ سے طلاق کے وقوع کے لیے نیت کی ضرورت نہیں، کیونکہ ہمارے عرف میں یہ الفاظ  کنایاتِ طلاق کی اس قسم سے تعلق رکھتے ہیں جن سے قرینہ کے پائے جانے کے وقت بلانیت بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، کذا فی احسن الفتاوی (5/188)  لہذا فریقین کے درمیان نکاح ختم ہو چکا ہے، اب حکم یہ ہے کہ فریقین عدت کے دوران اور عدت کے بعد باہمی رضامندی سے گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔ دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کو صرف دو طلاقوں کا حق باقی ہو گا، اس لیے آئندہ طلاق کے معاملے میں احتیاط کی ضرورت ہو گی۔     

حوالہ جات
تبيين الحقائق وحاشية الشلبي (2/ 217) المطبعة الكبرى الأميرية،القاهرة:
والكنايات ثلاثة أقسام قسم منها يصلح جوابا ولا يصلح ردا ولا شتما وهي ثلاثة ألفاظ أمرك بيدك اختاري واعتدي ومرادفها وقسم يصلح جوابا وشتما ولا يصلح ردا وهي خمسة ألفاظ خلية برية بتة بائن حرام ومرادفها، وقسم يصلح جوابا وردا ولا يصلح سبا وشتيمة وهي خمسة ألفاظ اخرجي واذهبي اغربي قومي تقنعي ومرادفها ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية للاحتمال والقول قوله مع يمينه في عدم النية وفي حال مذاكرة
الطلاق وهي أن تسأله المرأة طلاقها أو يسأله أجنبي يقع في القضاء بكل لفظ لا يصلح للرد وهي القسم الأول والثاني ولا يصدق قوله في عدم النية؛ لأن الظاهر أنه أراد به الجواب؛ لأن القسمين لا يصلحان للرد والقسم الثالث وإن كان يصلح للشتم لكن الظاهر يخالفه؛ لأن السب غير مناسب في هذه الحالة فتعين الجواب ولا يقال وجب أن يصدق في غير الطلاق؛ لأنه غير حقيقة فيه أيضا؛ لأنا نقول إنما يصدق في الحقيقة لما أنه يخطر بالبال وهنا لما ذكر فقد خطر بالبال فكلما كان أشد خطرا بالبال كان أولى.
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 405)      دار إحياء التراث العربي:                                                                                                                                
 الحاصل أن أحوال التكلم ثلاثة حالة الرضاء وحالة الغضب وحالة مذاكرة الطلاق، والكنايات ثلاثة أقسام ما يصلح ردا جوابا ولا يصلح ردا ولا شتما وهو اعتدي وأمرك بيدك واختاري وقد بينا أن اختاري وأمرك بيدك كنايتان عن التفويض لا يقع بهما الطلاق إلا بإيقاعها بعده حتى لا يدخل الأمر في يدها إلا بالنية وما يصلح جوابا وشتما ولا يصلح ردا وهو خلية برية بتة بائن حرام ومرادفها من أي لغة كان وما يصلح جوابا وردا ولا يصلح سبا وشتيمة وهو اخرجي اذهبي قومي اغربي تقنعي ومرادفها من أي لغة كان ولم يذكر حكم ما يصلح جوابا وردا.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

24/ذوالحجة 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے