عمرہ کرنے کا طریقہ اور چند ضروری مسائل بیان کرنے کے بعد عمرہ کے ارکان وواجبات سے متعلق مزید مسائل و احکام جن کی اکثر ضرورت پڑتی ہے اور مختلف لوگ پوچھتے رہتے ہیں، پیش خدمت ہیں:
طواف کا بیان
طواف کی تعریف:
طواف کے معنی کسی چیز کے چاروں طرف چکر لگانے کے ہیں اور حج و عمرہ کے بیان میں اس سے مراد بیت اللہ کے چاروں طرف سات مرتبہ گھومنا ہے۔
اضطباع و رَمل:
طواف کے بعد اگر سعی بھی کرنی ہو تو طواف شروع کرنے سے پیشتر اضطباع بھی کرے، یعنی چادر کو داہنی بغل میں سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال لے اور داہنا کندھا کھلا رہنے دے اور تمام طواف میں باقی رکھے اور اوّل کے تین چکروں میں رَمل اکڑ کر شانہ ہلاتے ہوئے کچھ تیزی کے ساتھ قریب قریب قدم رکھ کر چلے۔
کانوں تک ہاتھ کب اُٹھائے؟
طواف کے شروع میں حجرِ اَسود کے استقبال سے پہلے ہاتھ اُٹھانا بدعت ہے۔ اس لیے حجرِ اَسود کے استقبال کے بعد تکبیر کے ساتھ ساتھ ہاتھ اٹھائے۔( الشامیة: ۳/ ۵۷۶،۵۷۷)
اضطباع کب شروع کرے؟
اضطباع طواف شروع کرنے سے تھوڑی دیر پہلے شروع کرنا ہی مسنون ہے، زیادہ دیرپہلے یہ عمل خلافِ سنت ہے۔( الغنیة: صـ: ۹۹)
دوگانۂ طواف اضطباع کے ساتھ مکروہ ہے:
جب دوگانہ طواف پڑھے تو مونڈھے کو ڈھانک کر پڑھے، اضطباع کے ساتھ پڑھنا مکروہ ہے، اضطباع صرف طواف میں ہوتا ہے۔( الغنیة: صـ: ۱۰۶)
نیت کہاں کھڑے ہو کر کی جائے؟
اکثر طواف کرانے والے حجرِ اَسود اور رکن یمانی کے درمیان میں کھڑے ہو کر نیت کراتے ہیں، یہ مکروہ ہے، طواف کی نیت اس طرح کھڑے ہو کر کرنی چاہیے کہ حجرِ اَسود دائیں کندھے سے سیدھے ہاتھ کو ہو اور داہنا کندھا حجرِ اَسود کے بائیں کنارے کے ساتھ متصل جگہ کے بالمقابل ہو۔( الغنیة: صـ ۱۰۱)
ارکانِ طواف:
طواف کے تین رکن ہیں: (الغنیة: ص: ۱۰۹)
1:۔طواف کے اکثر چکر پورے کرنا۔
2:۔بیت اللہ کے باہر مسجد کے اندر کرنا۔
3:۔خود طواف کرنا گو کسی چیز پر سوا ہو کر کرے، مگر غیر سمجھدار نابالغ بچہ اور بے ہوش اس سے مستثنیٰ ہے، اس کی طرف سے دوسرا شخص بھی کر سکتا ہے۔
شرائط ِطواف:
طواف کی چھ شرطیں ہیں(الغنیة: ص: ۱۰۹،۱۱۰) ، تین تو صرف حج کے طواف کیلئے ہیں اور تین ہر طواف کیلئے۔
طوافِ حج کی شرائط:
1:۔حج کا طواف یعنی طواف زیارت خاص اور متعین وقت میں ہو، یعنی عید کے دن (10/ ذی الحجہ) صبح صادق طلوع ہونے کے بعد سے 12/ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک کسی بھی وقت میں ہو، کیونکہ اس سے پہلے اور اس کے بعد حج کے فرض طواف کا کوئی اعتبار نہیں۔
2:۔طواف سے پہلے (میقات سے) اِحرام باندھنا۔
3:۔طواف سے پہلے وقوفِ عرفات کا ہونا۔
ہر طواف کی شرائط:
اسلام، نیت اور مسجد کے احاطہ میں(اگر چہ مسجد کی چھت کے اوپر ہو) طواف کا ہونا سب طوافوں کے لیے شرط ہے۔
بلا نیت طواف نہ ہوگا:
طواف کے لیے نیت شرط ہے، اگر کوئی شخص بلا نیت بیت اللہ کے چاروں طرف سات چکر لگائے گا تو طواف نہ ہوگا۔( الغنیة: ص: ۱۱۰)
طواف کی تعیین ضروری نہیں:
صرف طواف کی نیت صحت ِ طواف کے لیے کافی ہے، خاص طور سے متعین کرنا کہ فلاں طواف کرتا ہوں، شرط نہیں معین کرنا صرف مستحب یا مسنون ہے،( الغنیة: ص: ۱۱۰) پس اگر کسی شخص پر خاص وقت میں کوئی طواف واجب تھا اور اس نے اس کی تعیین کر کے یا تعیین کیے بغیر اس وقتمیں طواف کر لیا تو وہ طواف کافی ہو جائے گا۔ مثلاً عمرہ کی نیت سے حرم میں آیا اور بغیر معین کیے صرف طواف کی نیت کر کے طواف کرلیا تو یہ طواف عمرہ ہی کا اداء ہو گا۔
واجباتِ طواف:
واجبات ِطواف آٹھ ہیں(الغنیة: ص: ۱۱۲۔۱۱۶)
1:۔طہارت یعنی بے وضو نہ ہو اور حیض و نفاس اور جنابت سے پاک ہو۔
2:۔ستر عورت
3:۔جو شخص پیدل چلنے پر قادر ہو اس کو پیادہ طواف کرنا۔
4:۔دا ہنی طرف سے طواف شروع کرنا۔
5:۔حطیم کو شامل کر کے طواف کرنا۔
6:۔حجرِ اَسود سے طواف کی ابتداء کرنا مگر اس میں اختلاف ہے، جمہور کے نزدیک سنت ہے اور ظاہر الروایة بھی یہی ہے۔
7:۔پورا طواف کرنا، یعنی اکثر طواف تو رکن ہے اور اکثر سے زیادہ واجب ہے۔
8:۔طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا۔
واجبات کا حکم:
واجب کا حکم یہ ہے کہ اگر کسی واجب کو ترک کر ے گا تو طواف کا اعادہ واجب ہوگا۔ اگر اعادہ نہ کیا تو اس کی جزا واجب ہو گی، جس کی تفصیل جنایات کے باب میں ملاحظہ کی جائے۔
حطیم کو شامل کیے بغیر طواف کر لیا:
اَگر کسی نے حطیم کو شامل کیے بغیر حطیم کے اندر سے طواف کیا تو اِس پر حطیم کے گردطواف کرنا لازم ہے جس کا افضل طریقہ یہ ہے کہ حطیم کو بائیں جانب پر رکھ کر ابتدائِ حطیم سے انتہاء تک طواف کرے، یہ ایک چکر ہو گا، حطیم کو دائیں جانب رکھ کر واپس لوٹے لیکن اس چکر کو شمار نہ کرے، اس طرح سات مرتبہ حطیم کو بائیں جانب رکھ کر طواف کا اعادہ کرے، نیز اگر اس طواف کے بعد سعی بھی کرنا ہے تو پھر پہلے تین چکروں میں رمل اور سب چکروں میں اضطباع بھی مسنون ہے۔( الغنیة: ص: ۱۱۴)
سنن طواف:
ابتداء و انتہاء میں حجرِ اَسود کا اِستلام۔
اضطباع۔
اوّل کے تین چکروں میں رمل، باقی میں رمل نہ کرنا بلکہ اطمینان سے چلنا۔
سعی اور طواف کے درمیان اِستلام کرنا (یہ اس کیلئے ہے جو طواف کے بعد سعی کرے)
حجرِ اَسود کے مقابل کھڑے ہو کر تکبیر کے وقت دونوں ہاتھ مثل تکبیر تحریمہ کے اٹھانا۔
حجرِ اَسود سے طواف کی ابتداء کرنا (یہ اکثر کے نزدیک سنت ہے اور بعض واجب کہتے ہیں) تمام چکر پے در پے کرنا۔
بدن اور کپڑوں کا نجاست ِ حقیقہ سے پاک ہونا۔ (الغنیة: ص: ۱۱۸۔۱۲۰)
مستحبات ِ طواف:
1:۔طواف کو حجرِ اَسود کی داہنی جانب سے اس طرح شروع کرنا کہ طواف کرنے والے کا پورا بدن حجرِ اَسود کے سامنے گزرتے ہوئے محاذی ہو کر گزرے۔
2:۔حجرِ اَسود پر تین مرتبہ بوسہ دینا اور تین مرتبہ اس پر پیشانی رکھنا۔
3:۔طواف کرتے ہوئے ماثورہ دعائیں پڑھنا۔
4:۔مرد کو بیت اللہ کے قریب ہو کر طواف کرنا بشرطیکہ ہجوم کی وجہ سے کسی کو تکلیف نہ ہو۔
5:۔عورت کو رات میں طواف کرنا۔
6:۔طواف میں (بیت اللہ کا پشتہ) شامل کرنا۔
7:۔اگر طواف بیچ میں چھوڑ دیا ہو یا مکروہ طریقہ پر کیا ہو تو اس کو شروع سے کرنا۔
8:۔مباح گفتگو سے اِجتناب۔
9:۔خشوع میں مخل ہر کام سے اِجتناب۔
10:۔دعائیں اور اذکار آہستہ پڑھنا۔
11:۔رکن یمانی (مغربی جنوبی گوشہ) کا اِستلام کرنا۔
12:۔جو چیزیں دل کو مشغول کرنے والی ہوں ان سے نظر بچانا۔( الغنیة: ص: ۱۲۰،۱۲۲)
مباحات ِ طواف:
طواف میں یہ چیزیں مباح ہیں: سلام کرنا، چھینک آنے پر الحمد للہ کہنا، مسائل شرعیہ بتانا اور دریافت کرنا، کسی ضرورت سے کلام کرنا، کچھ پینا، دعائوں کا ترک کرنا، اچھا شعر پڑھنا اور کہنا، پاک جوتے وغیرہ پہن کر طواف کرنا، کسی عذر کی وجہ سے سوار ہو کر طواف کرنا، دل دل میں قرآن پڑھنا۔( الغنیة: ص: ۱۲۵)
محرمات ِ طواف:
یہ چیزیں طواف کرنے والے کے لیے حرام ہیں:
جنابت (ناپاکی) یا حیض و نفاس کی حالت میں طواف کرنا، بلا عذر کسی کے کندھے پر بیٹھ کر یا سوار ہو کر طواف کرنا، بے وضو طواف کرنا، بلا عذر گھٹنوں کے بل یا الٹا ہو کر طواف کرنا، طواف کرتے ہوئے حطیم کے بیچ میں سے نکلنا۔ طواف کا کوئی چکر پورا یا آدھا چھوڑ دینا، حجرِ اَسود کے علاوہ اور کسی جگہ سے طواف شروع کرنا۔ طواف میں بیت اللہ کی طرف منہ کرنا۔ البتہ شروع طواف میں حجرِ اَسود کے استقبال کے وقت جائز ہے، طواف میں جو چیزیں واجب ہیں ان میں سے کسی کو ترک کرنا۔( الغنیة: ۱۲۶)
مکروہاتِ طواف:
یہ چیزیں طواف میں مکروہ ہیں (الغنیة: ص: ۱۲۶،۱۲۷)فضول اور بے فائدہ بات چیت کرنا، خرید و فروخت کرنا یا اس کی گفتگو کرنا، کوئی ایسا شعر پڑھنا جو حمد و ثناء سے خالی ہو۔ دعا یا قرآن بلند آواز سے پڑھنا، جس سے طواف کرنے والوں اور نمازیوں کو تشویش ہو، ناپاک کپڑوں میں طواف کرنا، رَمل اور اضطباع کو بلا عذر ترک کرنا (یعنی جس طواف میں اضطباع اور رَمل مسنون ہو) حجرِ اَسود کا اِستلام چھوڑنا، طواف کے پھیروں میں زیادہ وقفہ کرنا۔ دو طواف اس طرح اکٹھے کرنا کہ دوگانۂ طواف بیچ میں نہ پڑھے، لیکن اگر نماز پڑھنا اس وقت مکروہ ہو تو جائز ہے۔ حجرِ اَسود سے دور رکن یمانی اور حجرِ اَسود کے درمیان طواف کی نیت کرنا اور ہاتھ کانوں تک اُٹھانا۔ خطبہ اور فرض نماز کی جماعت کھڑی ہو جانے کے وقت طواف کرنا، طواف کے درمیان کھانا کھانا، بعض نے پینے کو بھی مکروہ کہا ہے۔ پیشاب یا پاخانہ کے تقاضا کے وقت طواف کرنا، اسی طرح بھوک اور غصہ کی حالت میں طواف کرنا، طواف کرتے ہوئے نماز کی طرح ہاتھ باندھنا یا کولھے اورگردن پر ہاتھ رکھنا، طواف کے لیے کمر رسی وغیرہ سے کسنا، طواف کے درمیان رُک کر دعا کرنا، حجرِ اَسود اور رکن یمانی کے علاوہ کا اِستلام کرنا، مقام ابراہیم کو چومنا۔
دورانِ طواف جماعت کھڑی ہوگئی:
جب جماعت کھڑی ہو جائے تو اس وقت طواف شروع کرنا تو مکروہ ہے لیکن اگر کسی نے پہلے سے طواف شروع کیا ہے اور طواف مکمل کر کے (یا اگر درمیان میں ہو تو چکر مکمل کر کے) جماعت کی پہلی رکعت مل جانے کا غالب گمان ہو تو طواف یا شروع کیا ہوا چکر مکمل کر کے جماعت میں شریک ہونا بہتر ہے، اگر رکعت نکل جانے کا خدشہ ہو تو طواف موقوف کر کے جماعت میں شامل ہو جائے، بعد میں جہاں سے طواف چھوڑا تھا وہیں سے شروع کر کے مکمل کرے۔
دورانِ طواف نمازِ جنازہ:
طواف کے دوران جنازہ کی نماز شروع ہونے کی صورت میں جنازہ میں شریک ہو جائے، فارغ ہونے کے بعد جہاں سے چھوڑا تھا وہیں سے شروع کر کے طواف مکمل کرے۔( الشامیة: ۳/ ۵۸۲))
مکروہ اوقات میں طواف:
جن اوقات میں نماز پڑھنا مکروہ ہے ان میں طواف کرنا بھی مکروہ نہیں۔ (الغنیة: ص: ۱۲۷)
طواف نامکمل چھوڑ کر کوئی کام کرنا:
اگر بلا ضرورت طواف نا مکمل چھوڑ کر کسی اور کام میں لگ جائے تو ایسا کرنا مکروہ تو ہے لیکن اس سے طواف باطل نہیں ہوتا،( الشامیة: ۳/ ۵۸۲)(وقفہ کم ہو یا زیادہ ہو) واپس آنے کے بعد بہتر تو یہ ہے کہ نئے سرے سے طواف شروع کر کے سات چکر پورے کرے، لیکن اگر جہاں سے چھوڑا تھا وہیں سے شروع کر کے مکمل کرے تو بھی درست ہے۔
طواف کی دُعائیں
طواف کے چکروں میں جو دُعائیں پڑھنے کا عام دستور ہوگیا ہے، ان کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں۔1 چکروں کی تخصیص کے بغیر صرف چند ایک کی ضعیف روایت ملتی ہے، اَلبتہ ایک دو دُعائیں قابلِ اعتماد روایت سے ثابت ہیں، مگر ان کی بھی کسی چکر کے ساتھ تخصیص ثابت نہیں، بغیر تخصیص کے ان کے پڑھنے میں حرج نہیں، اَگر کوئی نہ پڑھے اَور طواف کے دَوران بالکل خاموش رہے تو بھی جائز ہے۔2 وجوہِ ذیل کی بناء پر چکروں کی دُعائیں پڑھنا بدعت اَور گناہ ہے:
1:۔جو عمل ضعیف حدیث سے ثابت ہو اس کو سنت سمجھنا بدعت اَور ناجائز ہے، جبکہ یہ دُعائیں کسی ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں اَور عوام و خواص ان کو سنت سے بھی بڑھ کر فرض سمجھتے ہیں، اس لئے یہ بہت خطرناک بدعت اَور بہت بڑا گناہ ہے۔(ردالمحتار: ۱/ ۲۷۴، السعایة: ۲/ ۴۶)
2:۔ان دُعاؤں کے التزام اَور دینی اداروں کی طرف سے ان کی روز افزوں اِشاعت کی وجہ سے عوام ان کو ضرورِی سمجھنے لگے ہیں، اَیسی حالت میں امر مندوب بھی مکروہ ہوجاتا ہے، چہ جائیکہ جس کا ثبوت ہی نہ ہو۔(السعایة: ۲/ ۴۷)
3:۔اکثر لوگوں کو دُعائیں یاد نہیں ہوتیں، طواف میں کتاب دیکھ کر پڑھتے ہیں اَور اِزدحام میںکتاب پڑھتے ہوئے چلنے سے خشوع نہیں رہ سکتا۔(غنیة: صـ ۱۲۲)بالخصوص دُعائوں کی خاطر جتھوں کی صورت میں چلنا سخت تکلیف دہ ہے جو کہ حرام ہے۔(ردالمحتار: ۲/ ۴۹۳، بدائع: ۳/ ۱۱۹)
5:۔جتھوں کی صورت میں چِلّا چِلّاکر دُعائیں پڑھنے سے دوسروں کے خشوع میں خلل پڑتا ہے۔(غنیة: صـ ۱۲۲)
6:۔عوام دُعائوں کے الفاظ صحیح نہیں اَدا کر پاتے تو معلّم جتھے کو روک کر الفاظ کہلوانے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ طواف میںٹھہرنا مکروہِ تحریمی ہے،(غنیة: صـ ۱۲۶)
علاوہ اَزیں اس صورت میں بعض لوگوں کا بیت اللہ کی طرف پشت یا سینہ ہوجاتا ہے، یہ بھی مکروہِ تحریمی ہے(ردالمحتار: ۳/ ۵۷۹) اَور اَگر اِسی حالت میں کچھ آگے کو سرک گئے تو اِتنے حصہ کے طواف کا اِعادہ واجب ہے۔(غنیة: صـ ۱۱۳ ۔ ۱۱۴)
اللہ کرے علمائِ دین کو مفاسد ِمذکورہ کی طرف اِلتفات ہو اَور وہ اِس بدعت ِشنیعہ و معصیت ِعلانیہ کی اِشاعت کی بجائے اِس سے اِجتناب کی تبلیغ کا فرض اَدا کریں۔
مسائل اِستلام
اِستلام یا اِشارہ:
اگر ہجوم کی وجہ سے اِستلام (حجرِ اَسود کو بوسہ دینا یا ہاتھ سے چھونا) ممکن نہ ہو تو ہاتھ یا لکڑی وغیرہ سے اشارہ کر لے۔ (الدرالمحتار: ۳/ ۵۲۸)
حجرِ اَسود پر خوشبو لگی ہو تو:
حجرِ اَسود پر اگر خوشبو لگی ہو اور طواف کرنے والا محرم ہو تو اِستلام جائز نہیں بلکہ ہاتھوں سے اشارہ کر کے ہاتھوں کو بوسہ دے۔
چاندی کے حلقے کو ہاتھ لگانا:
حجرِ اَسود پر چاندی کا حلقہ لگا ہوا ہے، اِستلام کے وقت اس کو ہاتھ لگانا جائز نہیں، بہت سے نا واقف اِستلام کے وقت اس کو ہاتھ لگاتے ہیں، یہ ناجائز ہے۔( الغنیة: صـ: ۱۰۳)
حجرِ اَسود اور چوکھٹ کے علاوہ کسی حصہ کا بوسہ لینا:
حجرِ اَسود اور بیت اللہ کی چوکھٹ یعنی دہلیز کے علاوہ بیت اللہ کے اور کسی گوشہ یا دیوار کو بوسہ دینا منع ہے، صرف رکن یمانی کو ہاتھ لگائے، بوسہ نہ دے،البتہ امام محمد رحمہ ﷲ تعالیٰ سے ایک روایت بوسہ دینے کی بھی ہے اس لیے دوسروں پر نکیر کرنا بھی مناسب نہیں اور اگر ہاتھ نہ لگا سکے تو اس کی طرف اشارہ نہ کرے۔( الشامیة: ۳/ ۵۸۴، ۵۸۵)
دورانِ طواف بیت اللہ کی طرف رُخ کرنا یا پیچھے ہٹنا:
اِستلام کے وقت کے سوا دورانِ طواف بیت اللہ کی طرف منہ اور سینہ کرنا منع ہے، نیز اِستلام کرنے کے بعد اسی جگہ کھڑے کھڑے دائیں طرف مڑ کر طواف شروع کردینا چاہیے،1 عام طور پر لوگ اِستلام کر کے پیچھے کو ہٹتے ہیں جس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے، اِس سے اِجتناب کرنا چاہیے۔
مفتی محمد
رئیس دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی