03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
صفا و مروہ کے درمیان سعی کے مسائل

سعی کے معنی و مراد:

صفا و مروہ، یہ وہی جگہ ہے جہاں حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں دوڑی تھیں۔ پہلے یہاں سے بیت اللہ نظر نہیں آتا تھا، اب سعودی حکومت نے مسعی ایسے طرز پر بنا دیا ہے کہ صفا و مروہ کی سعی کرتے وقت بیت اللہ نظر آتا رہے۔

سعی کے معنی ہیں دوڑنا۔ احکام حج میں صفا اور مروہ کے درمیان مخصوص طریقہ سے سات چکر لگانے کا نام سعی ہے۔ صفا مروہ کے درمیان سعی کا فاصلہ بعض علماء نے سات سو پچاس اور بعض نے سات سو چھیاسٹھ ذراع لکھا ہے۔(معلم الحجاج: صـ ۱۴۷)

سعی طواف کے فوراً بعد سنت ہے:

سعی ہمارے نزدیک واجب ہے، طواف کے بعد فوراً کرنا واجب نہیں، سنت ہے، اگر کسی عذر یا تکان کی وجہ سے طواف کے فوراً بعد نہ کر سکے تو مضائقہ نہیں۔ بلا عذر تاخیر مکروہ ہے۔( الغنیة: صـ ۱۲۸)

اگر طواف اور سعی کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہو جائے تب بھی کوئی جزاء واجب نہیں ہوتی۔( الغنیة: صـ: ۱۲۸)

سعی کے لیے کہاں سے نکلے؟

سعی کے لیے مسجد حرام کے باب الصفا سے نکلنا مستحب ہے، رسول اللہ zبھی اس دروازے سے نکلے تھے،( الدرالمحتار: ۳/ ۵۸۷) اگر کسی دوسرے دروازے سے نکلے تو بھی جائز ہے۔

اِستلام:

سعی شروع کرنے سے پہلے حجرِ اَسود کا اِستلام مسنون ہے۔( الشامیة: ۳/ ۵۸۶)

مسجد سے نکلتے وقت:

جس وقت سعی کے لیے مسجد سے نکلے تو پہلے بایاں پائوں باہر نکالے اور یہ پڑھے: (غنیة: صـ: ۱۲۸)

’’بسم اللّٰہ والصلٰوة والسلام علی رسول ﷲ! أللّٰہم اغفرلی ذنوبی وافتح لی أبواب فضلک۔‘‘

’’اللہ کا نام لے کر داخل ہوتا ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔ اے میرے رب! میرے گناہ بخش دیجئے اور اپنی رحمت کے دروازے میرے لیے کھول دیجئے۔‘‘

جب صفا کے قریب پہنچے:

جب صفا کے قریب پہنچے تو یہ پڑھنا مستحب ہے: (غنیة: صـ: ۱۲۸)

أبدأ بما بدأ ﷲ بہ إن الصفا والمروة من شعائر ﷲ۔

صفا پر زیادہ اوپر نہ چڑھے:

صفا پر ایک تہائی چڑھائی چڑھے، اس سے زیادہ اوپر چڑھنا جیسا کہ جاہل لوگ بالکل دیوار تک چڑھ جاتے ہیں، اہل سنت وجماعت کے طریقہ کے خلاف ہے۔ نئی تعمیر میں مسعی کو اتنا اونچا کر دیا گیا ہے کہ صفا کی تمام سیڑھیاں نیچے دب گئی ہیں، اس لیے ایک تہائی چڑھنے سے بھی بیت اللہ نظر آنے لگتا ہے۔( الشامیة: ۳/ ۵۸۷)

صفا پر پہنچ کر:

صفا پر چڑھ کر قبلہ رُو ہو کر کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھاکر دعا کرے، ہتھیلیوں کا رُخ آسمان کی طرف ہو، جس طرح عام دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں، اکثر جاہل معلم ناواقف حجاج سے تین مرتبہ کانوں تک مثل تکبیر تحریمہ کے ہاتھ اٹھواتے ہیں، یہ خلافِ سنت ہے۔( الغنیة: صـ: ۱۲۹)

میلین اخضرین کے درمیان:

میلین اخضرین کے درمیان زیادہ تیز دوڑنا مسنون نہیں، بلکہ متوسط رفتار سے اتنا تیز چلنا چاہیے کہ رَمل سے زیادہ اور بہت تیز دوڑنے سے کم رفتار ہو۔( الشامیة: ۳/ ۵۸۸)

میلین کے درمیان ہر چکر میں جھپٹ کر تیز چلنا مسنون ہے۔( الشامیة: ۳/ ۵۸۸)

میلین کے درمیان جھپٹ کر نہ چلنا یا تمام سعی میں جھپٹ کر تیز چلنا برا ہے، لیکن اس سے دَم یا صدقہ واجب نہیں ہوتا۔( الشامیة: ۳/ ۵۸۸)

سعی صفا سے شروع کرنا لازم ہے:

سعی کو صفا سے شروع کرنا اور مروہ پر ختم کرنا واجب ہے، اس کی خلاف ورزی کرنے پر دَم لازم ہوگا۔ (الغنیة: ص: ۱۳۳)

سعی اور تلبیہ:

حج کی سعی اگر طوافِ قدوم کے بعد طوافِ زیارت سے پہلے کرے تو سعی میں تلبیہ پڑھے اور عمرہ کی سعی میں تلبیہ نہ پڑھے، تمتع کرنے والا بھی تلبیہ نہ پڑھے، کیونکہ عمرہ کرنے والے اور تمتع کرنے والے کا تلبیہ طواف شروع کرنے کے وقت ختم ہو جاتا ہے اور حج کرنے والے کا رَمی شروع کرنے کے وقت ختم ہوجاتا ہے۔

ہجوم کی وجہ سے دوڑنا ممکن نہ ہو تو؟

اگر ہجوم کی وجہ سے میلین اخضرین میں دوڑنا ممکن نہ ہو تو اگر غالب گمان یہ ہو کہ تھوڑا  انتظار کرنے سے ہجوم کم ہو کر موقع مل جائے گا تو مسنون ہے کہ سعی شروع نہ کرے، انتظار کر کے مسنون طریقہ سے سعی شروع کرے، لیکن اگر غالب گمان یہ نہ ہو کہ ہجوم کم ہو جائے گا یا سعی شروع کرنے کے بعد ہجوم بڑھ گیا تو پھر سعی کے تسلسل کو خراب نہ کرے بلکہ میلین اخضرین کے درمیان صرف تیز چلنے والے کے ساتھ مشابہت کی صورت بنا کر سعی مکمل کرے۔( الغنیة: ص: ۱۳۰)

سوار کے لیے دوڑنا:

جو شخص سواری پر سعی کرے اس کے لیے بھی میلین أخضرین کے درمیان سواری تیز چلانا مسنون ہے،بشرطیکہ دوسروں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔( الغنیة: ص: ۱۳۰)

ثقہ آدمی چکروں کی تعداد کم بتائے تو ؟

اگر سعی کے چکروں کی تعداد میں کچھ شک ہو تو کم کا اعتبار کرکے پورا کرے اور اگر کوئی ثقہ اور عادل شخص تعداد کم بتاتا ہے تو اس کے قول پر عمل کرنا مستحب ہے، اگرچہ اس کے سچا ہونے میں شک ہوا اور اگر دو ثقہ عادل شخص کم بتاتے ہیں تو ان کے قول پر عمل کرنا واجب ہے، اگرچہ ان کے سچا ہونے میں شک ہو۔( الغنیة: ص: ۱۳۰،۱۳۱)

رکنِ سعی:

سعی کا صفا اور مروہ کے درمیان ہونا رکن ہے، اگر ان دونوں کے درمیان سعی نہیں کی، بلکہ اِدھر اُدھر کی تو سعی نہ ہوگی۔( الغنیة: ص: ۱۳۱)

اہم تنبیہ:

حالیہ تعمیر نو میں پرانے مسعی سے باہر کا کافی حصہ مسعی میں شامل کر لیا گیا ہے، اس سے بعض حضرات کو یہ شبہہ ہوتا ہے کہ توسیع شدہ حصے میں سعی کرنے سے شاید سعی نہ ہو۔ یہ شبہہ صحیح نہیں، اس لیے کہ صفا مروہ کی پہاڑیاں پہلے کافی وسیع تھیں، انہیں کاٹ کر برابر کیا گیا ہے، اس لیے توسیع شدہ حصہ بھی صفا مروہ کے درمیان ہی آتا ہے، اس میں سعی کرنا بھی صحیح ہے۔

شرائط ِ سعی:

سعی کی 6شرطیں ہیں(الغنیة: ص: ۱۳۱،۱۳۲)

پہلی شرط: خود سعی کرنا اگرچہ کسی کے کندھے یا کسی جانور یا سواری پر سوار ہو کر کرے، سعی میں نیابت جائز نہیں، مگر یہ کہ اِحرام سے پہلے کوئی شخص بے ہو ش ہو گیا تو اس کی طرف سے دوسرا شخص سعی کر سکتا ہے، بشرطیکہ سعی کے وقت تک ہوش نہ آیا ہو۔

دوسری شرط: سعی پورا طواف یا اکثر طواف کرنے کے بعد ہو، خواہ طواف نفل ہی ہو اور خواہ طواف طہارت کی حالت میں کیا ہو یا ناپاکی کی حالت میں، اگر کوئی شخص طواف سے پہلے یا چار چکر پورے کرنے سے قبل سعی کرے گا تو سعی نہ ہوگی اور اگر طواف کے چار چکر پورے کرنے کے بعد کرے گا تو صحیح ہو جائے گی۔

تیسری شرط: حج یا عمرہ کا اِحرام سعی پر مقدم ہونا۔ اگر کوئی شخص اِحرام سے پہلے سعی کرے گا تو صحیح نہ ہوگی اگر چہ طواف کے بعد ہو اور اِحرام کا باقی رہنا سعی تک ضروری نہیں بلکہ اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر حج کی سعی کررہا ہے (خواہ قارن ہو یا متمتع یا مفرد) اور وقوفِ عرفہ سے پہلے کرتا ہے تو اِحرام کا ہونا سعی کے وقت شرط ہے اور اگر وقوف کے بعد سعی کرتا ہے تو اِحرام کا باقی رہنا شرط نہیں، بلکہ اِحرام کا نہ ہونا مسنون ہے اور اگر سعی عمرہ کی ہے تو اِحرام کا باقی رہنا شرط نہیں مگر واجب ہے، اگر طواف کے بعد حلق کر کے سعی کرے تو دَم واجب ہو گا اور سعی صحیح ہو جائے گی۔

چوتھی شرط: صفا سے شروع کرنا اور مروہ پر ختم کرنا۔ اگر مروہ سے کسی نے ابتداء کی تو یہ چکر شمار نہ ہوگا بلکہ صفا سے لوٹ کر آئے گا تو سعی شروع ہو گی اور سات چکر اُس پھیرے کے علاوہ کرنے ہوں گے جو مروہ سے شروع کیا تھا۔

پانچویں شرط: سات چکروں میں سے اکثر چکر سعی کرنا۔ اگر اکثر حصہ نہیں کیا تو سعی نہ ہوگی۔

چھٹی شرط: سعی کے وقت میں سعی کرنا۔ حج کی سعی کا وقت حج کے مہینوں کا شروع ہو جانا ہے۔ یہ حج کی سعی کے لیے شرط ہے۔ صرف عمرہ کی سعی کے لیے یہ شرط نہیں، البتہ قارن یا متمتع کے عمرہ کی سعی کے لیے بھی یہ وقت شرط ہے، اس سے پہلے سعی نہ ہوگی، حج کے مہینے ختم ہونے سے پہلے پہلے سعی کرنا شرط نہیں مگر سعی کو حج کے مہینوں سے مؤخر کرنا مکروہ ہے۔

سعی میں نیت و تسلسل:

سعی کے صحیح ہونے کے لیے نیت شرط نہیں(الغنیة: ص: ۱۳۲) اور نہ سعی کے چکروں میں آپس میں اتصال اور پے در پے ہونا شرط ہے بلکہ سنت ہے۔

اگر کسی نے متفرق طور سے سعی کی مثلاً ایک چکر روز کر لیا اور سات روز میں سعی پوری کر لی تو سعی ہو جائے گی لیکن ترک ِ سنت کا مرتکب ہو گا، لہٰذا اگر بلا عذر ایسا کیا تو اَز سر نو کرنامستحب ہے۔( الغنیة: ص: ۱۳۲،۱۳۳)

واجبات ِ سعی:

واجبات ِ سعی چھ ہیں۔( الغنیة: ص: ۱۳۳،۱۳۴)

1:۔سعی کا ایسے طواف کے بعد ہونا جو جنابت اور حیض سے پاک ہونے کی حالت میں کیا ہو۔

2:۔سعی صفا سے شروع کرنا اور مروہ پر ختم کرنا۔

3:۔پیدل سعی کرنا اگر کوئی عذر نہ ہو، اگر بلا عذر کوئی شخص سوار ہو کر سعی کرے گا تو دَم واجب ہوگا۔

4:۔سات پھیرے پورے کرنا یعنی چار پھیرے تو فرض ہیں اور اس کے بعد تین پھیرے واجب ہیں، اگر کسی نے تین پھیرے چھوڑ دئیے تو سعی ہو جائے گی لیکن ہر پھیرے کے بدلے میں نصف صاع گیہوں یا اس کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہوگا۔

5:۔عمرہ کی سعی میں عمرہ کا اِحرام اخیر سعی تک باقی رہنا۔ اگر اِحرام کھولنے کے بعد سعی کرے گا تو ایک دَم لازم ہوگا۔

6:۔صفا اور مروہ کے درمیان پوری مسافت طے کرنا، یعنی صفا سے بالکل ایڑی ملا کر شروع کرنا اور مروہ پر جا کر پیر کی انگلیوں کو مروہ کے ساتھ ملا دینا۔

سعی میں حدث ِ اکبر سے پاک ہونا واجب نہیں:

سعی کے لیے جنابت اور حیض سے پاک ہونا شرط اور واجب نہیں ہے،( الغنیة: ص: ۱۳۴) خواہ حج کی سعی ہو یا عمرہ کی، البتہ مسنون ضرور ہے۔

بلا عذر سواری پر سعی کرنا:

آج کل اکثر امراء اور سہولت پسند لوگ سوار ہو کر بلا عذر سعی کرتے ہیں، ان پر دَم واجب ہوجاتا ہے اور قصداً بلا عذر ایسا کرنا گناہ ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے سعی کر نے والوں کو موٹر، وہیل چیئر وغیرہ سے سخت تکلیف ہوتی ہے، اس کا گناہ علیحدہ ہے۔( الغنیة: ص: ۱۳۳)

سنن سعی:

سعی کی نو سنتیں ہیں(الغنیة: ص: ۱۳۵)

1:۔حجرِ اَسود کا اِستلام کر کے سعی کے لیے مسجد سے نکلنا۔

2:۔طواف کے بعد فوراً سعی کرنا۔               3:۔صفا اور مروہ پر چڑھنا۔

4:۔صفا اور مروہ پر چڑھ کر قبلہ رُو ہونا۔           5:۔سعی کے پھیروں کو پے در پے کرنا۔

6:۔جنابت اور حیض سے پاک ہونا۔

7:۔سعی کا ایسے اکثر طواف کے بعد ہونا کہ جو پاکی کی حالت میں کیا ہو اور کپڑوں اور بدن اور طواف کی جگہ پر بھی کوئی نجاست نہ ہو اور باوضو بھی کیا ہو۔

8:۔میلین کے درمیان جھپٹ کر چلنا۔

9:۔سترِ عورت کا ہونا، گو ہر حال میں ستر ڈھانکنا فرض ہے، مگر سعی سترِ عورت کے بغیر کی تو ترکِ فرض کے گناہ کے ساتھ ساتھ خلاف ِ سنت سعی کرنے کا گناہ بھی ہوا، اس لیے سعی کے دوران سترِ عورت کا اور زیادہ اہتمام کرنے کی ضرورت ہے۔

مستحبات ِ سعی:

مستحبات ِ سعی پانچ ہیں(الغنیة: ص: ۱۳۵)

1:۔نیت کرنا۔

2:۔صفا اور مروہ پر دیر تک ٹھہرنا۔

3:۔خشوع اور خضوع سے ذکر اور دعائیں تین تین مرتبہ پڑھنا۔

          4:۔سعی کے پھیروں میں اگر بلا عذر زیادہ فاصلہ ہو جائے یا کسی پھیرے میں کچھ وقفہ ہو جائے تو اَز سر نو کرنا، لیکن اگر وقفہ عذر سے ہوا ہو تو سعی کو شروع سے کرنا اس وقت مستحب ہے جبکہ اکثر پھیرے نہ ہوئے ہوں۔

5:۔سعی سے فارغ ہونے کے بعد مسجد میں آ کر دو رکعت نفل پڑھنا۔

دورانِ سعی جماعت کھڑی ہو گئی:

اگر سعی کرتے ہوئے جماعت کھڑی ہو جائے یا نمازِ جنازہ ہونے لگے تو سعی کو چھوڑ کر نماز میں شریک ہو جائے اور پھر باقی پھیرے پورے کر لے، اسی طرح اگر کوئی اور عذر پیش آجائے تو باقی پھپیرے پھر پورے کر سکتا ہے۔( الغنیة: ص: ۱۳۵)

مباحاتِ سعی:

جائز کلام کرنا جو خشوع کے منافی اور مستحبات و سنن سعی میں مخل نہ ہو اور ایسا کھانا پینا جو سعی کے چکروں میں وقفہ کا باعث نہ ہو، مباح ہے۔ اسی طرح فرض نماز اور نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے لیے نکلنا بھی جائز و مباح ہے۔ (الغنیة: ص: ۱۳۵)

مکروہاتِ سعی:

خرید و فروخت اور بات چیت ایسے طور سے کرنا کہ حضورِ قلب نہ رہے اور دعاء وغیرہ نہ پڑھ سکے یا سعی کے پھیرے پے در پے نہ کر سکے، بلا عذر طواف کے بعد متصل نہ کرنا، ایامِ نحر سے تاخیر کرنا اور ستر کھولنا بھی مکروہ ہے۔ میلین کے درمیان جھپٹ کر نہ چلنا یا بلا عذر پھیروں میں بہت فاصلہ کرنا بھی مکروہ ہے۔ اسی طرح بلا عذر سواری پر سعی کرنا بھی مکروہ ہے۔( الغنیة: ص: ۱۳۶)

 

                                                                           مفتی محمد

                                                                   رئیس دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی