84314 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
شاد محمد کا انتقال ہوا، اس کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔ شاد محمد کا ترکہ صرف اس کے تین بیٹوں (محمد، علی محمد، شمعون) میں تقسیم ہوا، بیٹیوں کو کچھ نہیں ملا۔ پھر شمعون کا انتقال ہوا تو اس کے تین بیٹوں (محترم، سعید، لقمان) نے اس کا ترکہ آپس میں تقسیم کیا، جبکہ اس کی سات بیٹیوں کو کچھ نہیں ملا۔ اب ان سات بیٹیوں میں سے ایک بیٹی (شوکتہ) اپنے تین بھائیوں سے والد کے ترکہ میں حصہ مانگ رہی ہے، بھائی اس کو حصہ دینے کے لیے تیار ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کو اس ترکہ میں سے حصہ دیں گے جو ہمارے والد (شمعون) کو اپنے والد سے ملا تھا، اس کو اپنی بہنوں کا جو حصہ ملا تھا، اس میں آپ کو حصہ نہیں دیں گے۔ شمعون کو والد سے سولہ (16) جریب زمین ملی تھی، جس میں سے آٹھ (8) جریب اس کے نام پر ہے، جبکہ باقی آٹھ (8) جریب اس کی بہنوں کے نام پر ہے۔
سوال یہ ہے کہ از روئے شریعت بہن اپنے بھائیوں سے والد کے سارے ترکہ میں حصہ مانگ سکتی ہے یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
والد کے انتقال کے بعد بھائیوں کا بہنوں کو میراث میں ان کے حصے بالکل نہ دینا یا ان میں کمی بیشی کرنا سخت ناجائز اور حرام ہے۔کسی وارث کو میراث سے بالکل محروم کرنا یا اس کا حصہ پورا پورا نہ دینا ظلم اور غصب ہے، جس پر قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:-
إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْما إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا [النساء: 10]
ترجمہ:یقین رکھو کہ جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں ،وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں، اور انہیں جلد ہی ایک دہکتی آگ میں داخل ہونا ہوگا۔ (آسان ترجمۂ قرآن:187)
حدیث شریف میں ہے:
"من قطع میراثاً فرضه الله ورسوله قطع الله میراثه من الجنة." (شعب الایمان للبیهقی: 224/6 )
ترجمہ:جس نے الله اور اور اس کے رسول(ﷺ) کی مقرر کردہ میراث کو ختم کیا،(یعنی کسی وارث کو اس حق سے محروم کیا )تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی میراث سے محروم کر دیں گے ۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں شاد محمد کے انتقال کے بعد اس کے بیٹوں کا سارا ترکہ آپس میں تقسیم کرنا اور اپنی بہنوں کو ان کا حصہ نہ دینا ناجائز اور سخت حرام تھا۔ اب شاد محمد کے تمام بیٹوں اور جن بیٹوں کا انتقال ہوا ہے، ان کے ورثا پر لازم ہے کہ جس جس کے پاس شاد محمد کی بیٹیوں کا جتنا جتنا حصہ ہے وہ جلد از جلد ان کو یا ان کے انتقال کی صورت میں ان کے ورثا کو واپس کردیں۔ شمعون کے پاس اپنی بہنوں کا جتنا حصہ ہے، اس میں نہ شمعون کی کوئی بیٹی حصے کا مطالبہ کرسکتی ہے، نہ ہی شمعون کے کسی بیٹے کے لیے اس کو لینا یا اپنے پاس رکھنا جائز ہے، ان سب پر لازم ہے کہ اپنی پھوپھیوں کا حصہ ان کو اور ان کے انتقال کی صورت میں ان کے ورثا کو دیدیں۔ باقی شمعون نے انتقال کے وقت اپنے والد سے ملنے والے حصے سمیت نقدی، سونا، چاندی، مالِ تجارت، زمینیں اوردیگر چھوٹا بڑا جو بھی ساز وسامان چھوڑا ہے، اس سب میں اس کے تمام بیٹے اور بیٹیاں شریک ہیں۔ شمعون کے بیٹوں پر لازم ہے کہ شوکتہ سمیت اپنی ساتوں بہنوں کو ان کے حصے جلد از جلد دیدیں، اس میں تاخیر کرنا یا ٹال مٹول سے کام لینا سخت ناجائز اور حرام ہے۔
واضح رہے کہ اگر شمعون اور اس کے بھائی اپنی بہنوں کو والد کی میراث میں ان کا حصہ پورا پورا دیدیتے اور پھر بہنیں اپنا اپنا حصہ دلی رضامندی سے اپنے بھائیوں کو واپس کرتیں تو ایسی صورت میں بہنوں کے حصے ان کی ملکیت میں آجاتے اور ان کے لیے حلال ہوتے۔ ایسی صورت میں پھر شمعون کو بہنوں سے ملنے والا حصہ اس کے دیگر مال کی طرح تقسیم ہوتا، یعنی اس میں شوکتہ سمیت شمعون کی ساتوں بیٹیوں کو ان کا پورا پورا حصہ ملتا، اس صورت میں شمعون کے بیٹوں کے لیے اپنی بہنوں کو اس میں حصے دینے سے انکار کرنا جائز نہ ہوتا۔
حوالہ جات
۔
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
16/محرم الحرام/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |