84387 | خرید و فروخت کے احکام | سلم اور آرڈر پر بنوانے کے مسائل |
سوال
تین سال پہلے ہمارا ایک ریئل اسٹیٹ کمپنی کے ساتھ ایگریمنٹ ہوا تھا کہ ہم نے ان سے اس شرط پر دو دکانیں لی کہ تین سال میں وہ ہمیں بنا کردیں گے، اگر تین سال میں بنا کر نہیں دی تو اس کا کرایہ شروع ہو جائے گا۔ کمپنی کی لاپرواہی کی وجہ سے وہ پلازہ نہیں بنا ،جس کی وجہ سے جو کرایا آنا شروع ہو ناتھا،وہ نہیں ہو سکا ۔جو کرائے کا ہمارا نقصان ہو رہا ہے ،کیا ہم اس کمپنی سے وصول کر سکتے ہیں ؟کیونکہ اگر انہوں نے بروقت کام کیا ہوتا ،تو ہمیں معاشی نقصان یا کرائے کا نقصان نہ اٹھانا پڑتا ۔
تنقیح : سائل نےزبانی بتایا کہ زمین کی جگہ متعین تھی ، دکان کی جگہ اور رقبہ کی تعیین بھی نقشہ میں کی گئی تھی ، مزید یہ کہ تین سال کے بعد جب تک کمپنی دکان بناکر نہیں دیتی اس وقت تک وہ اس کا مارکیٹ ریٹ کے مطابق کرایہ ادا کرتی رہے گی ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
نقشہ میں متعین کردہ دکان کی فائل خریدنا عقد استصناع ( آرڈر پر چیزبنوانے کا عقد) کہلاتا ہےجو کہ جائز ہے۔ عقد استصناع میں یہ شرط لگانا جائز ہے کہ اگر صانع ( بنانے والا) نے چیز بناکر دینے میں تاخیر کی تو وہ خریدار کو ہونےوالے نقصان کی تلافی کرے گا۔ صورت مسئولہ میں کمپنی کی لاپرواہی کی وجہ سے مقررہ وقت میں دکان نہ بنانےکی وجہ سے آپ کو متوقع کرایہ کا یقینی طورپر نقصان ہوا ہے، لہذا اگر اس تاخیر کی وجہ کمپنی کی لاپرواہی ہے جیسا کہ آ پ کا دعوی ہے تو آپ کےلیے دکان بننے تک کا کرایہ بطور ضمان کمپنی سے لینا جائز ہے، لیکن اگر اس کی وجہ کوئی ایسا امر یا حالات تھے جو کمپنی کے اختیار میں نہیں تھے اور کمپنی شرعی گواہوں کے ساتھ اس کو ثابت کرسکے تو اس صورت میں کمپنی سے دکان بننے تک کا کرایہ لینا جائز نہیں ۔
حوالہ جات
فقہ البیوع (/1604):
والصورۃ الثانیۃ : ان تکون الارض ملکا للصانع ، ویطلب منہ المستصنع ان یبنی علیھا بیتا، او مکتبا او دکانا ۔ ومنہ ما جری بہ العمل من ان صاحب الارض الخالیۃ یعمل خطۃ لبناء کبیر یحتوی علی شقق سکنیۃ ، او مکاتب او محلات ، ثم یدعو الناس للاکتتاب، فیدفعون الیہ مبالغ ، ثم یسلم الیھم الشقق بعد اکتمالھا، فھو مخرج علی الاستصناع ، فالمکتتبون یعقدون مع صاحب الارض استصناع الشقۃ او المکتب او محل تجاری بمواصفات معلومۃ حسب التصمیم۔ فیجوز ذلک بشروط الاستصناع۔ولکن ما یفعلہ بعض الناس من بیع الشقۃ او المکتب قبل اکتمال بناءہ، وقبل ان یقع التسلیم ، فانہ لا یجوز لما ذکرنا من ان المصنوع لیس ملکا للمستصنع قبل التسلیم، فھو بیع لما لا یملکہ الانسان، وھو ممنوع بنص الحدیث.
المعايير الشرعية( معیار رقم :۱۲):
يجوز الاستصناع في المباني لإقامتها على أرض معينة مملوكة للمستصنع أو للصانع، أو على الأرض التي ملك أحدهما منفعتها، وذلك على اعتبار أن المستصنع فيه هو المباني الموصوفة وليس المكان المعين.
عقـد الاسـتصناع ملـزم للطرفيـن إذا توافـرت فيـه شـروطه؛ وهـي: بيان جنس الشـيءالمسـتصنع ونوعه وقدره وأوصافه المطلوبـة ومعلومية الثمن وتحديد الأجل إن وجد. ويثبت للمسـتصنع الخيارإذا جاءالمصنوع مخالف للمواصفات المشروطة.َ
یجوز ان یتضمن عقد الاستصناع شرط جزائیا لتعویض المستصنع عن تاخیر التسلیم بمبلغ یتفق علیہ الطرفان اذا لم یکن التاخیر ننتیجۃ لظروف قاھرۃ او طارئۃ.
قرارات و توصیات مجمع الفقہ الاسلامی الدولی( ص: ۳۴۷):
الضرر الذی یجوز التعویض عنہ یشمل الضرر المالی الفعلی ومالحق المضرور من خسارۃ حقیقیۃ و ما فاتہ من کسب موکد و لایشمل الضرر المعنوی والأدبی .
لایعمل بالشرط الجزائی إ ذا أثبت من شرط علیہ أن إخلالہ بالعقد کا ن بسبب خارج عن إ رادتہ أ و أثبت أن من شرط لہ لم یلحقہ أی ضرر من الإخلال بالعقد .
نعمت اللہ
دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی
18 /محرم/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | نعمت اللہ بن نورزمان | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |