84335 | طلاق کے احکام | عدت کا بیان |
سوال
میرے شوہر کی طلاق آج اکیس دن ہو چکےہیں، میں بہت دکھ اور تکلیف میں یہ تحریر لکھ رہی ہوں کہ میرے تین بچے ہیں، بڑے بچے کی عمر پانچ سال، اس سے چھوٹی بچی کی عمر تین سال اور تیسرے بچے کی عمر ایک سال ہے، میرا رہائشی گھر کرائے کا ہے، میرے شوہر کی وفات کے بعد میری اور میرے بچوں کی کفالت کرنے والا کوئی نہیں ہے، اس لیے میں جاب کرنا چاہتی ہوں، تاکہ میں اپنے بچوں کی خود کفالت کر سکوں۔اس سلسلے میں شریعت میں میری رہنمائی فرمائیں کہ کیا میں عدت کے دوران ملازمت وغیرہ کے لیے گھر سے باہر جا سکتی ہوں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسئولہ میں آپ کا عدت کے دوران ملازمت کے لیے دن کے وقت گھر سے باہر نکلنا جائز ہے، کیونکہ شریعت نے ایسی عورت (جس کا شوہر فوت ہو جائے اور اس کے پاس نان ونفقہ کا انتظام نہ ہو)کو کسبِ معاش کے لیے ضرورت کے پیشِ نظر دن کے وقت گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے، بشرطیکہ ملازمت کے اوقات کے علاوہ بقیہ دن اور رات بغیر کسی شرعی عذر کے گھر سے باہر نہ گزاری جائے۔
حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (2/ 279) دار احياء التراث العربي – بيروت:
ولا يجوز للمطلقة الرجعية والمبتوتة الخروج من بيتها ليلا ولا نهارا والمتوفى عنها زوجها تخرج نهارا وبعض الليل ولا تبيت في غير منزلها " أما المطلقة فلقوله تعالى: {لا تخرجوهن من بيوتهن ولا يخرجن إلا أن يأتين بفاحشة مبينة} [الطلاق: 1] قيل الفاحشة نفس الخروج وقيل الزنا ويخرجن لإقامة الحد. وأما المتوفى عنها زوجها فلأنه لا نفقة لها فتحتاج إلى الخروج نهارا لطلب المعاش وقد يمتد إلى أن يهجم الليل ولا كذلك المطلقة لأن النفقة دارة عليها من مال زوجها حتى لو اختلعت على نفقة عدتها قيل إنها تخرج نهارا وقيل لا تخرج لأنها أسقطت حقها فلا يبطل به حق عليها.
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
17/محرم الحرام 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |