84377 | طلاق کے احکام | طلاق کے متفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسائل کے بارےمیں کہ
ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی کو کہیں جانے سے منع کیا اور کہاکہ " اگر تم گئی تو سب ختم ہو جائے گا"اس وقت اس کے والد صاحب بھی اس کے پاس موجود تھے اور میری بیوی نے موبائل ان کو دے دیا اور انھوں نے مجھ سے اسے لے جانے کی اجازت مانگی ،میں نے منع کیا،لیکن انہوں نے اٍٍصرار کیا کہ جانے دو، میرے ساتھ جائے گی تو ان کے اصرار پر میں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ لے جائیں۔اب اس بات کو میری بیوی نے طلاق کا مسئلہ بنا دیا ہے کہ نہیں تم نے کہا تھا کہ" اگر گئی تو سب ختم ہو گا"جب اس کے والد کو میں نے کہہ دیا ،اجازت دیدی تو پہلے والی بات تو ختم ہو گئی۔
اس کے بعد ایک اور واقعہ پیش آیا، ہمارے محلے میں ایک فوتگی ہو گئی اور اس وقت بھی میں نے اپنی بیوی کو جانے سے منع کیا،لیکن وہ نہ مانی ،چلی گئی،لیکن اس وقت کے الفاظ مجھے صحیح یاد نہیں، میری بیوی کے مطابق یہی ہیں کہ میں نے کہا کہ "اگر گئی تو اپنے ماں باپ کے پاس ہی رہنا ،واپس نہ آنا"۔
اس کے بعد ایک اور بات اس نے مجھ پر ڈال دی کہ تم نے تیسری دفعہ بھی ایسا کچھ کہا ،جبکہ وہ مجھے یادنہیں اور نہ ہی اس کا کوئی میسج موجود ہے،لیکن مجھ پر وہ ڈال رہی ہے،ہماری زیادہ باتیں میسج پر ہی ہوتی رہی ہیں، صرف اس وقت کال پر ہوئی جب اسکے والد نے مجھ سے اجازت مانگی تھی۔
یہ بھی پوچھنا تھا کہ کیا ضروری ہے کہ الفاظِ کنایہ سے ہی طلاق واقع ہواور نیت کا کوئی عمل دخل نہ ہو؟ بات دراصل یہ ہے کہ اگر میں نے ایک دو مرتبہ ایسے الفاظ استعمال کیے،لیکن اس وقت میری نیت یا ذہن میں یہ بات نہیں تھی کہ میں اسے طلاق کے طور پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھیج رہا ہوں،میں نے تو اسے روکنے کی نیت سے کہاتھا،یہ بھی بتا دیجئے کہ کیا مرد کا حکم عورت کے لیے کچھ اہمیت کا حامل نہیں؟کیا عورت ایسا کر سکتی ہے جبکہ وہ ہر بات پر اسلام اسلام کی رٹ لگاتی پھرتی ہے؟کیا اسلام عورت کو مرد کی نا فرمانی کا درس دیتا ہے؟کیا اسلام اسلام کرنے والی عورت جو یہ کہے کہ وہ بہت کچھ جانتی ہے مجھ سے زیادہ جانتی ہے اور ہوگا بھی مگرعمل نہیں کرتی،کیا اس کا یہ طرزِ عمل صحیح ہے؟کیا صرف جان لینا ہی کافی ہے ، اس پر عمل ضروری نہیں؟ اگر ایک عورت جو سب کچھ جانتی ہو پھر بھی اپنے شوہر کی بات نہ مانے تو کیا وہ صحیح کرتی ہے؟اگر حقیقتِ حال پوچھو تو میری بیوی کے اور میرے گھر والوں کے حالات کا مسئلہ تھاجس کی وجہ سے میرا بیوی کے ساتھ ہمیشہ یہ مسئلہ رہا کہ جہاں بھی جاؤ مجھ سے پوچھ کر جاؤ ،اس کےعلاوہ اور کوئی مسئلہ نہیں تھا، میرے 3 بچے ہیں،میں نے کبھی بھی طلاق کا لفظ استعمال نہیں کیا اورنہ ہی کبھی دل میں سوچا،کیا اسلام اتنا کمزور مذہب ہے کہ ایک انسان اپنی بیوی کو ڈرا بھی نہیں سکتا، وہ بھی ایسی بیویاں جو اپنے مردوں کو کچھ بھی نہیں سمجھتی ؟ یہ بھی راہنمائی فرما دیں کہ کیا الفاظِ کنایہ جیسے چلی جاؤ، واپس نہ آنا یا سب کچھ ختم کیا ،ان سے طلاقیں ہو جاتی ہیں؟ اگر ہو جاتی ہیں تو شاید ہی پاکستان میں کوئی ایسا گھر ہوگا جو بچا ہوا ہو گا،کیا واقعی اسلام ایسا ہے؟ اس قسم کے اسلام سے تو پھر مجھے خوف آ رہا ہےکیونکہ اسلام تو بہت نرم اور آسان دین ہے۔
مذکورہ حالات کی روشنی میں اب میرےسوالات درجِ ذیل ہیں :
1. خاوند اگراپنی بیوی کو یہ جملہ کہے کہ "اگر تم کہیں گئی تو سب ختم ہو جائے گا"اوراس کی نیت طلاق کی نہیں تھی کیابیوی کے جانے سے طلاق واقع ہوگی ؟
2. خاوند اگراپنی بیوی کو یہ جملہ کہے کہ "اگر گئی تو اپنے ماں باپ کے پاس ہی رہنا واپس نہ آنا"۔ اوراس کی نیت طلاق کی نہیں تھی، کیابیوی کے جانے سے طلاق واقع ہوگی ؟
3. بیوی اگرخاوند پر کنائی لفظ بولناڈال دے کہ تم نے تیسری دفعہ بھی ایسا کچھ کہا(جومذکورہوا) جبکہ وہ خاوندکو یادنہ ہو اور نہ ہی اس کا کوئی میسج موجود ہوجبکہ بات میسج پر ہورہی تھی ،کیااس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے؟
4. کیایہ ضروری ہے کہ الفاظ کنایہ سے ہی طلاق واقع ہواور نیت کا کوئی عمل دخل نہ ہو؟
5. کیا اسلام عورت کو مرد کی نا فرمانی کا درس دیتا ہے؟اورکیااسلام عورت کو مرد پر مختلف الزامات لگانے کا درس دیتاہے؟
6. اگر ایک عورت جو سب کچھ جانتی ہو مگر پھر بھی اپنے شوہر کی بات نہ مانے تو کیا وہ صحیح کرتی ہے؟اورکیاصرف جان لیناکافی ہے، عمل ضروری نہیں ہے؟
7. کیا الفاظِ کنایہ جیسے چلی جاؤ ،واپس نہ آنا یا، سب کچھ ختم کیا، ان الفاظ سے طلاقیں ہو جاتی ہیں؟جبکہ شوہر کی نیت نہ ہو؟
8. مذکورہ کنائی الفاظ(اگر تم کہیں گئی تو سب ختم ہو جائے گا، اگر گئی تو اپنے ماں باپ کے پاس ہی رہنا ،واپس نہ آنا) اگرخاوند صرف بیوی کو ڈرانے کےلیے بولے اورنیت طلاق کی نہ ہو کیاپھربھی ان سے طلاق واقع ہوجاتی ہے؟ کیا اسلام اتنا کمزور مذہب ہے کہ ایک انسان اپنی بیوی کو ڈرا بھی نہیں سکتا؟اگر ایساہےتو اس قسم کے اسلام سے تو پھر مجھے خوف آ رہا ہےکیونکہ اسلام تو بہت نرم اور آسان دین ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
1. اگراس جملے سے خاوند کی نیت طلا ق کی نہیں تھی جیسے کہ سوال میں لکھاگیاہےتو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
وفی الفتاوى الهندية (1 / 376):
"ولو قال لم يبق بيني وبينك شيء ونوى به الطلاق لا يقع وفي الفتاوى لم يبق بيني وبينك عمل ونوى يقع، كذا في العتابية."
2. اس جملے سے شخصِ مذکور کی بیوی پر کوئی طلاق نہیں ہوئی، بالخصوص جبکہ اس کی نیت طلاق دینے کی بھی نہیں تھی۔
وفی الدرّ المختار وردّ المحتار:
"(ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب.
3. جب خاوند کو یاد نہیں ،میسج پربات ہونے کے باوجود میسج محفوظ نہیں اورتھا بھی کنائی لفظ اورطلاق کی نیت بھی تھی توایس مشکوک صورتتِ حال میں کوئی طلاق واقع نہ ہوگی ۔
وفی الأشباہ والنظائر:
"ومنها: شك هل طلق أم لا؟ لم یقع. شك أنه طلق واحدةً أو أکثر؟ بنی علی الأقل، کما ذکر الإسبیجابي."(قاعدة: من شك هل فعل أم لا؟ص: 52،ط:العلمية)
4. نہیں ضروری نہیں،بلکہ عام طور پرصریح لفظ سے طلاق دی جاتی ہے اورکنائی سے تب واقع ہوتی ہے جبکہ نیت ہو یا بعض الفاظ میں دلالتِ حال جیسے کہ غصہ ،طلاق کا تذکرہ یعنی بیوی کی طرف سے طلاق کے مطالبہ کو بھی نیت کے قائم کرکے وقوع کا حکم لگایاجاتاہے ۔
وفی الاختيار لتعليل المختار (3/ 132):
وكنايات الطلاق لا يقع بها إلا بنية أو بدلالة الحال، ويقع بائنا إلا اعتدي واستبرئي رحمك وأنت واحدة فيقع بها واحدة رجعية.
5. اسلام عورت کو مرد کی نافرمانی کا حکم نہیں دیتا، بلکہ شریعتِ مطہر ہ نےتو بیوی پر شوہر کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے ،بیوی کا شوہر کی نافرمانی کرنا ،اس کو تکلیف پہنچانا ،اس پر الزامات لگانا شرعا ناجائز و حرام ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیث میں عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت کو لازم قراردیا ہے اور نافرمانی پر سخت وعیدات ارشاد فرمائیں ہیں، چنانچہ حدیث شریف میں ہے :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:"اگر میں کسی کو(خداوندتعالٰی کے علاوہ)کسی (اور)کے سامنے سجدہ کرنے کاحکم کرتا تو بیوی کو خاوند کے سامنے سجدہ کرنےکاحکم کرتا(مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 281 ط: قديمي)
ایک اورحدیث شریف میں ہے:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :میں نے جہنم کو دیکھا تو میں نے آج جیسا منظر کبھی نہیں دیکھا اور میں نے اس (جہنم) میں عورتوں کو مردوں کی نسبت زیادہ پایا۔ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ وہ کیوں؟ تو آپ ﷺ نے بتایا کہ ان کے کفر کی وجہ سے، کہا گیا کہ کیا وہ اللہ کا کفر کرتی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:وہ خاوند کی نافرمانی کرتی ہیں اور احسان فراموشی کرتی ہیں، اگر آپ ان میں سے کسی کے ساتھ زمانہ بھر احسان کریں , پھر وہ آپ میں کوئی ناگوار بات دیکھ لیں تو کہتی ہے میں نے تجھ میں کبھی خیر نہیں دیکھی۔ (صحیح البخاری، باب کفران العشیر،رقم الحدیث:29، ج:1، ص:15، ط:دارطوق النجاۃ)
6. عورت کےلیے شوہر کی جائزبات نہ ماننانافرمانی ہے اورناجائزہے،بالخصوص جبکہ اس کو شوہرکے حقوق اور اس کے حکم کے واجب الاطاعت ہونے کا علم بھی ہو،علم اپنی جگہ فضیلت کی چیز ہے، لیکن صرف علم کا ہونا کافی نہیں، اس پر عمل بھی ضروری ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے علم سے پناہ مانگی ہے جو نفع نہ دے یعنی اس پرعمل نہ کیاجائے ۔
وفی صحيح مسلم:
عن زيد بن أرقم قال: ((لا أقول لكم إلا كما كان رسول الله (- صلى الله عليه وسلم -) يقول، كان يقول: اللهم إني أعوذ بك من العجز والكسل، والجبن والبخل، والهرم وعذاب القبر، اللهم آت نفسي تقواها، وزكها أنت خير من زكاها، أنت وليها ومولاها، اللهم إني أعوذ بك من علم لا ينفع، ومن قلب لا يخشع، ومن نفس لا تشبع، ومن دعوة لا يستجاب لها)) . صحيح مسلم: كتاب الذكر والدعاء والاستغفار، 4/ 2088 رقم (2722) .
سورة القصص دراسة تحليلية (1/ 159، بترقيم الشاملة آليا):
تعوذ رسول الله (- صلى الله عليه وسلم -) من العلم الذي لا ينفع وهو عين ما قرره علماء الإرشاد التربوي اليوم. ونجد أن قوله تعالى: {قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ} ...... يدل على عدم جواز الاغترار بالعلم وحده، بل لا بد من تطبيق العلم والعمل.
7. ان الفاظ سے نیت کے بغیر طلاق نہیں ہوتی ۔
وفی العالمگیریة:
لوقال لھا اذھبی ای طریق شئت لا یقع بدون النیۃ وان کان فے حال مذاکرۃ الْطلاق (وقبیلہ) وفی الفتاوی لم یبق بینی وبینک عمل ونوی تقع (عالمگیری مصری باب الکنایات ج ۱ ص ۲۵۳) ظفیر.
وفی ’’البحر الرائق‘‘:
ان من الکنایات ثلاثۃ عشر لا یعتبر فیھا دلالۃ الحال ولا تقع الا بالنیۃ اخرجی اذھبی لا نکاح لی علیک (۳؍۳۰۳)
وفی الفتاوى الهندية (1 / 376):
"ولو قال لم يبق بيني وبينك شيء ونوى به الطلاق لا يقع وفي الفتاوى لم يبق بيني وبينك عمل ونوى يقع، كذا في العتابية."
وفی الدرّ المختار وردّ المحتار):
"(ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب.
8. ان الفاظ سے بغیرنیت کے طلاق نہیں ہوتی ،جیسےکہ پہلے جوابات میں لکھاگیاہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام بہت نرم اور آسان دین ہے،اسلام کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ حتی الامکان برقراررہے اورختم نہ ہو، تاہم اسلام کی تعلیمات میں سے یہ امر بھی ہے کہ زبان کو کنٹرول میں رکھا جائے اور بات بات پر طلاق کے الفاظ زبان پر نہ لائے جائیں،طلاق کوئی اچھی چیز نہیں ہے،مباح امورمیں سے سب سے مبغوض ترین چیز ہے، لہذا عام حالات اورلڑائی جھگڑوں میں طلاق کے صریح اورکنائی الفاظ کا استعمال بلاوجہ نہ کیاجائے، تاکہ اس سدابہاررشتہ کو زد نہ پہنچے۔
وفی مسند أحمد مخرجا (36/ 571):
عن أبي أمامة قال: قال عقبة بن عامر قلت: يا رسول الله، ما النجاة؟ قال: «أملك عليك لسانك، وليسعك بيتك، وابك على خطيئتك».
وفی السنن الكبرى للبيهقي (7/ 527) :
عن ابن عمر رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " أبغض الحلال إلى الله الطلاق "
وفی الدر المختار (3/ 227):
(وإيقاعه مباح) عند العامة لإطلاق الآيات أكمل (وقيل) قائله الكمال (الأصح حظره) (أي منعه) (إلا لحاجة) كريبة وكبروالمذهب الأول كما في البحر.
وفی حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 228):
قلت: لكن حاصل الجواب أن كونه مبغوضا لا ينافي كونه حلالا، فإن الحلال بهذا المعنى يشمل المكروه وهو مبغوض.
حوالہ جات
.
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
22/01/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |