حج کے معنی:
لغت میں حج کے معنی کسی بڑے مقصد کا ارادہ کرنے کے ہیں اور شریعت کی زبان میں اس سے وہ خاص اعمال مراد ہیں جو مخصوص دنوں میں ایک خاص جگہ اور خاص طریقہ پر ادا کیے جاتے ہیں۔ (غنیۃ الناسک: صـ ۱)
حج کی فرضیت:
حج اِسلام کے پانچ اَرکان میں سے ایک اَہم اَور تکمیلی رُکن ہے،ہر مسلمان صاحب ِ اِستطاعت پر حج کرنا فرض ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَیہِ سَبِیلًا۔وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِینَ۔(آل عمران: ۹۷)
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ کی رضا کے واسطے بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے ان لوگوں پر جو اس گھر تک جانے کی اِستطاعت رکھتے ہوں اَور جو شخص اللہ تعالیٰ کا حکم نہ مانے (یعنی باوجود استطاعت کے حج نہ کرے) تو (وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے) اللہ تعالیٰ تو تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے۔‘‘
قدرت کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس اپنی روز مرہ کی ضروریات سے زائد اتنا سرمایہ ہو جس سے وہ بیت اللہ تک جانے آنے اور وہاں زمانۂ قیام کے اپنے مصارف پورے کر سکے اور جن اہل و عیال کا نفقہ اس کے ذمہ واجب ہے ان کے لیے اس کا بھی واپسی تک کے لیے انتظام کرسکے، جو شخص اس قدرت کے باوجود حج نہ کرے وہ تارکِ فرض اور سخت گنہگار ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
إن اﷲ قد فرض علیکم الحج فحجوا۔(رواہ مسلم عن أبی سعید)
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے پس تم حج کرو۔‘‘
علامہ کاسانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’حج کی فرضیت پر پوری اُمت کا اِجماع ہے۔‘‘ (بدائع الصنائع: ۱/ ۲۹۱)
اور ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’جس شخص میں حج کی شرائط پائی جاتی ہوں اس پر عمر بھر میں ایک بار بالاجماع حج فرض ہے۔‘‘(مناسک الملا علی القاری: ۱۶)
حج کب فرض ہوا؟
اس میں کئی اقوال ہیں، راجح یہ ہے کہ 9ہجری میں فرض ہوا۔ جبکہ جمہور کا قول 6ہجری کا ہے۔
اس کے علاوہ 5، 7، 8 ہجری اور ہجرت سے پہلے فرض ہونے کے اقوال بھی ہیں۔(معارف السنن: ۶/ ۳)
حج کس پر فرض ہے؟
اس عاقل بالغ مسلمان پر جس کے پاس کسی وقت بھی اس قدر سرمایہ جمع ہو گیا جو حج کے لیے اور حج سے واپسی تک اس کے اہل و عیال کے لیے کافی ہو اور حج کے زمانہ (یعنی جس وقت اس کے گائوں اور علاقے کے لوگ حج کے لئے جاتے ہوں یا شوال کے شروع ہونے) تک اس کی مِلک میں رہا تو اس پر حج فرض ہو گیا،( الغنیة ص: ۱۸،۲۲)) پھراگر اس نے بجائے حج کرنے کے کسی اورضرورت میں خرچ کر دیا تو چونکہ اس کے ذمہ حج فرض ہو چکا ہے، اس لیے اس کے ذمہ سے حج ساقط نہیں ہوگا، بلکہ اس پر لازم ہے کہ پھر کوشش کرکے اتنا سرمایہ جمع کرے جس سے اپنا فرض حج ادا کر سکے، اگر نہیں کر سکا تو مرتے وقت اس پر وصیت لازم ہے کہ اس کے ترکہ سے اس کی طرف سے حج بدل کرایا جائے۔ البتہ (مذکور بالا تفصیل کے مطابق) حج کا وقت آنے سے پہلے پہلے اس سرمایہ کو اپنی ضروریات میں خرچ کر سکتا ہے۔
ضرورت سے زائد زمین، مکان وغیرہ سے فرضیت ِ حج:
اگر کسی کے پاس اتنی زمین ہے کہ اگر اس کا کچھ حصہ فروخت کر کے حج کے مصارف کا انتظام ہو سکتا ہو اور فروخت کرنے کے بعد بقیہ زمین اتنی ہو کہ اس سے اس کی معاشی ضرورت بھی پوری ہو سکتی ہو تو ایسے شخص پر بھی حج فرض ہے، اسی طرح اگر کسی کے پاس ضرورت سے زائد گھر ہو (جس میں نہ خود رہتا ہو اور نہ ہی اس کا کرایہ اس کی معاش کا واحد ذریعہ ہو) یا دکانیں ہوں، یا مالِ تجارت ہو، یا جانور ہوں یا اور ضرورت سے زائد چیزیں ہوں کہ اگر انہیں فروخت کیا جائے تو حج کے مصارف کا انتظام ہو سکتا ہے اور باقی ماندہ چیزیں گزر اوقات کے لیے کافی ہو سکتی ہیں تو ایسے شخص پر بھی حج لازم ہے۔
البتہ جس گھر میں خود رہتا ہو (اگرچہ بہت بڑا کیوں نہ ہو) یا اپنے استعمال کے لیے بہت قیمتی سواری ہو(جس سے کم پر بھی اگرچہ گزارا ہو سکتا ہو) اس کی وجہ سے حج لازم نہیں ہوگا۔( الغنیة: صـ: ۲۰.۲۱)
معذور کے لیے حج کا حکم:
جس شخص کے پاس حج کے اخراجات تو ہوں لیکن جسمانی طور پر معذور ہو (نابینا یا مفلوج ہو یا ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے ہوں وغیرہ وغیرہ) تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسے شخص پر حج واجب ہی نہیں، البتہ صاحبین کے نزدیک اس پر حج فرض ہے، لیکن خود حج کرنا فرض نہیں، لہٰذا اگر کوئی خادم ساتھ لے جائے اور اس کی مدد سے حج کرے تو بھی درست ہے اور اگر حج بدل کرائے تو بھی درست ہے، فتویٰ کی رُو سے ان اقوال میں سے کسی پر بھی عمل کرنا درست ہے، لیکن صاحبین کے قول پر عمل کرنا ظاہر ہے کہ بہتر اور احتیاط کا تقاضا ہے۔( الغنیة: صـ: ۲۳.۲۴)
حرام کمائی سے حج:
حرام مال جتنا بھی ہو اس کی وجہ سے حج فرض نہیں ہوتا، بلکہ وہ سارا مال ہی صدقہ کرنا لازم ہے، تاہم اگر کسی نے فرض حج مالِ حرام خرچ کر کے اداء کیا تو فرض کی ادائیگی کی حد تک وہ بری الذمہ ہو جائے گا، لیکن اس حج پر کوئی ثواب نہیں ملے گا۔ (الغنیة: صـ: ۲۱)
عورت پر حج کی ادائیگی کب فرض ہے؟
جس خاتون کے پاس مذکور بالا تفصیل کے مطابق اتنا سرمایہ یا فاضل جائیداد ہو جس سے وہ حج کے اخراجات کر سکتی ہو تو اس پر حج تو فرض ہو چکا لیکن حج کی ادائیگی جب لازم ہوگی جب درج ذیل شرائط بھی پائی جائیں، اگر یہ شرائط نہ پائی جائیں تو پھر کسی خاتون کا حج کے لیے جانا جائز نہیں:
1:۔عورت (خواہ بوڑھی ہو یاجوان ہو یا قریب البلوغ ہو) کے لیے شوہر یا بالغ محرم(جس کی تفصیل آرہی ہے) کا ساتھ ہونا ضروری ہے، اس کے بغیر حج کے لیے جانا مکروہ تحریمی اور ناجائز ہے۔
ساتھ جانے والا محرم اگر نان نفقہ خود برداشت کرسکتا ہے اور اس پر آمادہ بھی ہے تو درست ہے، اگر وہ صاحب ِ استطاعت نہیں یا ہے مگر خرچ کرنے پر آمادہ نہیں تو پھر اس کے آنے جانے اور کھانے پینے وغیرہ کے ضروری اخراجات بھی حج پر جانے والی خاتون کے ذمہ ہوں گے، اگر خاتون کے پاس اپنے اخراجات کی رقم تو ہو لیکن ساتھ جانے والے محرم کا خرچہ نہیں برداشت کرسکتی تو اس پر حج کے لیے جانا لازم نہیں۔
اگر شوہر ساتھ جا رہا ہے تو شرعی ضابطہ کے تحت شوہر بیوی سے سفر خرچ کا مطالبہ نہیں کر سکتا، بلکہ بیوی کے نان نفقہ کے اخراجات بھی وہی برداشت کرے گا، لیکن اگر شوہر یہ اخراجات نہیں برداشت کر سکتا یا نہیں کرتا تو اس میں بھی مذکور بالا تفصیل ہے کہ اگر بیوی برداشت کر سکتی ہے تو پھر اس پر لازم ہے کہ اس کے اخراجات برداشت کر کے ساتھ حج پر لے جائے، اگر نہیں برداشت کر سکتی تو پھر حج پر جانا لازم نہیں۔
اگر مرتے دم تک یہی حالت رہے یعنی شوہر یا محرم اپنا خرچ برداشت نہیں کر سکتا یا کرنے کے لیے آمادہ نہیں اور بیوی کے پاس بھی اتنی گنجائش نہیں تو آخری وقت میں حج بدل کی وصیت کرنا لازم ہے۔
البتہ اگر کوئی خاتون شرائط پوری نہ ہونے کے باوجود ناجائز کا ارتکاب کرتے ہوئے حج پر چلی گئی تو اس کا فرض ادا ہو جائے گا، پھر وصیت ضروری نہیں۔( الغنیة: صـ: ۲۶،۲۷،۲۹)
2:۔خواتین کے لیے حج وغیرہ کے سفر کے جواز کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ عدت کے ایام میں نہ ہوں۔ عدت میں سفر حج کی مختلف صورتیں پیش آسکتی ہیں، ذیل میں ہر ایک کی تفصیل اور حکم لکھا جاتا ہے:
1:۔اگر سفر شروع کرنے سے قبل عورت کے شوہر کا انتقال ہو جائے تو سفر شروع کرنا جائز نہیں، کیونکہ شرعاً عورت کے لیے عدت کے دوران گھر سے باہر نکلنا ایسے ہی ممنوع ہے جیسے محرم کے بغیرحج کو جانا منع ہے۔
2:۔اگر سفر شروع کرنے کے بعد اِحرام باندھنے سے قبل ہی مثلاً اسلام آباد یا لاہور سے آتے ہوئے کراچی میں ہوتے ہوئے شوہر کا انتقال ہو جائے، ایسی صورت میں عورت کو واپس اپنے گھر لوٹ جانا چاہیے، کیونکہ ابھی اس نے اِحرام نہیں باندھا ہے اور اس کے حج یا عمرہ کا عمل شروع نہیں ہوا اور عدت شروع ہوجانے کی وجہ سے اس پر حج کی فرضیت نہیں رہی، لہٰذا اس کا وہی حکم ہے جو گھر سے نکلنے سے قبل شوہر کی وفات ہوجانے کی صورت میں ہے۔
3:۔اگر اِحرام باندھنے کے بعد جدہ کی طرف طیارہ کے پرواز کرنے کے بعد جہاز کے اندر یا جدہ یا مکہ پہنچ گئی، پھر شوہر کا انتقال ہوا تو ان سب صورتوں میں عورت اپنا حج عمرہ ادا کر سکتی ہے۔
4:۔اگر شوہر کا انتقال مدینہ میں ہوتے ہوئے حج سے پہلے ہو جائے تو امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس کے لیے مدینہ سے مکہ حج کے لیے جانا درست نہیں، خواہ محرم ساتھ ہو، کیونکہ مدینہ سے مکہ کی مسافت، سفر شرعی (24ء77کلو میٹر) کی مسافت سے زیادہ ہے، لہٰذا امام صاحب کے ہاں ایسی عورت مدینہ میں قیام کر کے عدت گزارے گی۔ صاحبین رحمہما اللہ (امام ابو یوسف اور امام محمد بن الحسن الشیبانی رحمہما اللہ) کے نزدیک اس صورت میں اگر محرم ہو تو وہ حج کے لیے مکہ جا سکتی ہے۔ یہی مفتی بہ قول ہے۔ لیکن اگر محرم نہ ہو تو بالاتفاق اس کے لیے مکہ کا سفر کرنا جائز نہیں۔
فتاویٰ تاتار خانیہ میں ہے:
وفی قولہما جاز أن تخرج إذا کان معہا محرم ولا تخرج بغیر محرم بالإجماع۔ (تاتارخانیة: ۲/ ۴۳۵)
’’صاحبین کے قول کے مطابق اگر ایسی عورت محرم کے ساتھ ہو تو نکلنا جائز ہے اور بغیر محرم کے نکلنا بالاجماع جائز نہیں۔‘‘
اگر مدینہ منورہ میں ایسی عورت ۔۔۔۔۔جس کے ساتھ محرم نہیں۔۔۔۔۔ کے کوئی رشتہ دار مستقل قیام پذیر ہوں، جہاں یہ خاتون عزت کی حفاظت کے ساتھ عدت پوری کر سکتی ہو تو عدت پوری کر کے واپس وطن لوٹے اور آیندہ سال پھر کسی محرم کے ساتھ حج کرے۔
اگر اسے وطن واپس لوٹنے کی صورت میں آیندہ حج کرنے کی استطاعت نہیں یا محرم ملنے کی امید نہیں اور اندیشہ ہے کہ فریضۂ حج ذمہ میں باقی رہ جائے گا تو اگر ممکن ہو تو وہیں رشتہ داروں کے ہاں ایک سال قیام کرے یا کسی سعودی تنظیم کی کفالت میں رہے اور آیندہ سال حج کر کے واپس لوٹے۔ اگر ان صورتوں میں سے کوئی بھی ممکن نہ ہو تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایسی خاتون کو کس قدر مشکلات اور دشواریوں کا سامنا ہوگا؟
اس عورت کے سامنے دو آزمائشیں ہیں:
اگر مدینہ سے حج کے لیے جائے تو عدت کے شرعی حکم کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، یہ بھی گناہ ہے اور اگر مدینہ میں رہتی ہے تو قانونی دشواری و پیچیدگی، وحشت و اجنبیت اور تنہائی جس سے فتنے میں مبتلا ہونے کا بھی اندیشہ ہے، اس کے علاوہ فريضۂ حج سے محرومی اور خرچ کی تنگی، بلکہ دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی ذلت کا اندیشہ، آیندہ حج کی استطاعت حاصل ہونے کا یقین نہیں، محرم کا میسر آنا، حج کا ویزا ملنا کوئی امر بھی یقینی نہیں۔
اور اگر واپس آتی ہے تو تنہا یا غیر محرم کے ساتھ سفر کرنا پڑے گا، جو جائز نہیں۔ اس میں فتنے کا اندیشہ غیر محرم کے ساتھ حج کرنے میں فتنے کے اندیشے سے زیادہ نہ ہو تو کم بھی نہیں۔
ایسی حالت میں اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے کہ یہ خاتون أہون البلیتین (دو آزمائشوں میں سے آسان تر آزمائش) کو اختیار کرتے ہوئے حج گروپ کے ساتھیوں کے ساتھ حج کے لیے چلی جائے اور حج کر کے وطن واپس آجائے۔ عدت کی حالت میں حج کرنے سے وہ شرعاً گنہگار تو قرار پائے گی جس پر استغفار لازم ہوگا، لیکن حج درست ہو جائے گا،( الغنیة: ص: ۲۹،۳۰)
چنانچہ مناسک ملا علی قاری رحمہ اللہ میں ہے:
وان حجت وہی فی العدة جاز حجہا وکانت عاصیة۔(ارشاد الساری الی مناسک علی القاری: صـ ۳۹)
محرم کون؟
محرم وہ مرد ہے جس سے نکاح کسی وقت بھی جائز نہ ہو، خواہ نسب کے اعتبار سے رشتہ دار ہو یا رضاعت کے اعتبار سے، جیسے رضاعی بھائی، بھتیجا وغیرہ یا سسرالی رشتہ کی وجہ سے جیسے داماد، خسر وغیرہ، البتہ رضاعی یا سسرالی رشتہ داروں پر اگر عورت کو مکمل اعتماد نہ ہو اور ان کے ساتھ سفر میں علیحدہ ہونا خدشہ سے خالی نہ ہو تو پھر ان کے ساتھ جانا بھی جائز نہیں۔
غیر مسلم محرم کے ساتھ جانا جائز نہیں کہ اس سے دین کے نقصان کا اندیشہ بہر حال ہے۔( الغنیة: صـ: ۲۶،۲۷)
فرض حج کے لیے شوہر کی اجازت ضروری نہیں:
جب عورت کو محرم ساتھ جانے کے لیے میسر ہو اور حج فرض بھی ہو چکا ہو تو فرض حج کے لیے شوہر کی اجازت کی ضرورت نہیں، اس کے بغیر بھی جا سکتی ہے۔(ردالمحتار: ۳/ ۵۳۳)
منہ بولے بیٹے یا بھائی کے ساتھ جانا جائز نہیں:
بعض خواتین محرم نہ ملنے کی صورت میں منہ بولے بیٹے یا بھائی کے ساتھ حج کے لیے جاتی ہیں، یہ جائز نہیں، بلکہ محرم یا شوہر ہی کے ساتھ جانا لازم ہے، اگر محرم نہیں ملتا تو حج بدل کرا دے یا اس کی وصیت کر دے۔
حج بدل کرالیا پھر محرم مل گیا:
محرم نہ ملنے کی وجہ سے کسی خاتون نے حج بدل کرالیا، بعد میں محرم ساتھ جانے کے لیے تیار ہو گیا یا اس نے نکاح کر لیا اور شوہر ساتھ جانے کے لیے تیار ہو گیا اور اخراجات کے لیے رقم بھی موجود ہو تو پھر اس پر دوبارہ حج کے لیے جانا فرض ہے، وہ حج بدل کافی نہیں۔
سوتیلا بیٹا محرم ہے:
سوتیلا بیٹا اگر قابل اعتماد ہو تو وہ بھی محرم ہے اور اس کے ساتھ حج پر جانا جائز ہے۔( الغنیة: صـ: ۲۸)
حج کی اہمیت وفضائل اَحادیث کی روشنی میں:
اَحادیث میں حج کے اتنے فضائل اور نہ کرنے پر ایسی شدید وعیدیں وَارد ہیں کہ وہ سننے کے بعد کوئی بھی مسلمان حج کی اَدائیگی میں تقصیر وتاخیر کی ہمت نہیں کر سکتا۔حج کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو مغفرت، دوزخ سے آزادی، رضائے الٰہی کا حصول، درجات کی بلندی اَور بے شمار اجر وثواب ملتا ہے،حج میں تقصیر وکوتاہی کرنے والے ایک فرض حکم میں کوتاہی کے گناہ کے ساتھ ساتھ ان بے شمار فضائل سے بھی محروم رہتے ہیں۔
عن أبی ھریرة رضی ﷲ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’من حج فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ أمہ۔‘‘
(معارف الحدیث: ۴/ ۱۴۰، بحوالہ بخاری ومسلم)
’’جس آدمی نے حج کیا اَور اِس میں نہ تو کسی شہوانی اَور فحش بات کا اِرتکاب کیااَور نہ اللہ کی کوئی نافرمانی کی تو وہ گناہوں سے اَیسا پاک و صاف ہو کر وَاپس ہو گا جیسا اُس دِن تھا جس دِن اُس کی ماں نے اُسے جنا تھا۔‘‘
عن أبی ھریرة رضـی اللّٰـہ عـنـہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’العمرة إلی العمرة کفارة لما بینہما والحج المبرور لیس لہ جزاء إلّا الجنة۔‘‘
(متفق علیہ، مشکوٰة: صـ ۲۲۱)
’’ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے اَور حج مبرور (گناہوں سے پاک اَور مخلصانہ حج) کا بدلہ تو بس جنت ہے۔‘‘
عن ابن مسعود رضی ﷲ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’تابعوا بین الحج والعمرة ؛ فإنہما ینفیان الفقر والذنوب کما ینفی الکیر خبث الحدید والذہب وا لفضة، ولیس للحج المبرور ثواب إلاالجنة۔‘‘
(معارف الحدیث: ۴/ ۱۴۱ بحوالہ ترمذی)
’’پے در پے کیا کرو حج اَور عمرہ کیونکہ یہ دونوں فقر اَور محتاجی اَور گناہوں کو اس طرح دور کر دیتے ہیں جس طرح سنار کی بھٹی لوہے،سونے اورچاندی کا میل کچیل دور کر دیتی ہے اَور حج مبرورکا صلہ تو بس جنت ہی ہے۔‘‘
عن أبی ھریرة رضی ﷲ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’الحاج والعمار وفد اللّٰہ، إن د عوہ أجا بہم وإن استغفروہ غفرلہم۔‘‘ (معارف: ۴/ ۱۴۳ بحوالہ ابن ماجہ)
’’حج اَور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں، اَگر وہ اللہ تعالیٰ سے دُعاء کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی دُعاء قبول فرماتے ہیں اَور اَگر مغفرت مانگیں تو ان کی مغفرت فرماتے ہیں۔‘‘
عن ابن عمر رضی ﷲ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’إذا لقیت الحاج فسلم علیہ وصافحہ ومرہ أن یستغفرلک قبل أن یدخل بیتہ فإنہ مغفورلہ۔‘‘
’’جب کسی حج کرنے والے سے تمہاری ملاقات ہو تواس کے اپنے گھر پہنچنے سے پہلے اس کو سلام کرو، مصافحہ کرو اَور اس سے مغفرت کی دُعاء کے لیے کہو، کیونکہ وہ اس حال میں ہے کہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا فیصلہ ہو چکا ہے۔‘‘ (اس لئے اس کی دُعاء قبول ہونے کی خاص توقع ہے)اس کے علاوہ اَور بھی بہت سی اَحادیث موجود ہیں، پھر حج کے ہر ہرجز کے متعلق علیحدہ علیحدہ فضائل ہیں۔
حج ترک کرنے پر وعیدیں:
عن علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’من ملک زاداً وّ راحلة تبلغہ إلی بیت ﷲ ولم یحج فلا علیہ أن یموت یہودیا أو نصرانیا وذلک أن ﷲ تبارک وتعالیٰ یقول: وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَیہِ سَبِیلًا۰ۭ
(معارف الحدیث: ۴/ ۱۳۹ بحوالہ ترمذی)
’’حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’جس کے پاس سفر حج کا ضرورِی سامان ہو اَور اس کو سواری میسر ہو جو بیت اللہ تک اس کو پہنچا سکے اَور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر اَور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج فرض ہے ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی اِستطاعت رکھتے ہوں۔‘‘
قرآن کریم میں نماز نہ پڑھنے کو مشرکوں والا عمل قرار دیا ہے۔
وَاَقِیمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِینَ)سورة الروم: ۳۱)
اسی
طرح اس حدیث میں حج نہ کرنے کو یہود ونصاریٰ کا عمل
قرار دیا ہے کیونکہ یہود ونصاریٰ حج نہیں کیا کرتے تھے۔(مناسک الملا علی القاری: صـ ۳۱)
ان سب اَحادیث کاتقاضا یہ ہے کہ جب حج فرض ہو جائے یعنی ایک آزاد، عاقل، بالغ اَور تندرست مسلمان کے پاس حوائج اصلیہ(یعنی رہنے کا گھر،لباس،نوکر، سواری، گھریلو سامان، زراعت کا سامان، اہل و عیال کے واپسی تک کے خرچ اَور قرض وغیرہ) کے علاوہ اتنا مال ہو کہ عادت اَور حیثیت کے مطابق زادِ راہ یعنی خانہ کعبہ آنے اَور جانے کے خرچ کے لیے کافی ہو، راستہ بھی پرامن ہو، اَگر عورت ہے تو محرم بھی ہو، اَگر اتنا خرچ نقد موجود نہ ہو لیکن ملکیت میں اتنا زیور ہو یا فوری ضرورت سے زائد اتنا سامان (مثلاً سامانِ تجارت) ہو کہ اس کی مالیت سے اخراجات پو رے ہو سکتے ہوں تو ان سب صورتوں میں حج فرض ہے، اس کے بعد تاخیر کرنا جائز نہیں، جو جتنی تاخیر کرے گا اتنا ہی گناہ گار ہو گا۔(شامیة: ۳/ ۵۲۱)
اِمام اعظم، اِمام مالک، اِمام احمد اَور اِمام ابو یوسف رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک اِستطاعت کے بعد حج فی الفور فرض ہو جاتا ہے،لہٰذا فرض ہونے کے بعد پہلے ہی سال اَدا کرنا ضرورِی ہے۔(ردالمحتار: ۳/ ۵۱۵ ۔ ۵۲۰)
کیونکہ حج کا وَقت متعین ہے اَور موت کا کوئی وَقت متعین نہیں، آیندہ سال حج کے موسم سے پہلے موت کا آنا بالکل ممکن ہے، بلکہ بسا اوقات موت واقع بھی ہو جاتی ہے، اس لیے باوجود قدرت کے تاخیر کرنا گویا حج کو ضائع کرنا ہے۔ )ردالمحتار: ۳/ ۵۲۰، ۵۲۱)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے: ’’جو حج کا ارادہ کرے اس کو جلدی کرنالازم ہے، اس لئے کہ کبھی آدمی بیمارہوجاتاہے یااورکوئی حاجت پیش آجاتی ہے۔‘‘) کنز العمال: ۵/ ۸، رقم الحدیث: ۱۱۸۸۷(
اِس بناء پر والدین اَگر اِجازت نہیں دیتے تو ان کی اِجازت کے بغیر بھی حج فرض کے لیے جانا ضرورِی ہے، الا ّیہ کہ وہ خدمت کے اَیسے محتاج ہوں کہ حج پر جانے کے بعد ان کے ناقابلِ تحمل مشقت میں پڑنے کا خطرہ ہو تو پھر ان کی اجازت کے بغیر جانا جائز نہیں۔) الشامیۃ: ۲/ ۴۵۶)
حج میں تاخیر کے بعض من گھڑت اعذار
بعض لوگ حج فرض ہونے کے باوجود حج اَدا کرنے سے غفلت برتتے ہیں اَور مختلف قسم کی غلط تأویلیں اَور لچر قسم کے بہانے پیش کرتے ہیں۔ ذیل میں اَیسے لوگوں کی کچھ تأویلیں پیش کی جا رہی ہیں جو اَحادیث بالا میں بیان کردہ وعیدوں کی روشنی میں بالکل غیر معتبر ہیں۔
پہلے نماز روزہ تو کرلیں:
کچھ لوگ یہ عذر پیش کر تے ہیں کہ حج پر تو بعد میں جائیں گے، پہلے نماز روزہ کے پابند تو ہو جائیں۔ حالانکہ یہ ایک من گھڑت عذر ہے، حج کا فرض ہونا نماز روزہ کی پابندی پر کہاں موقوف ہے؟ نیز نماز روزے کی پابندی بھی تو اپنے اِختیار میں ہے، جب چاہیں پابند ہو جائیں،کیا مشکل ہے؟ اَور سب سے اَہم بات یہ کہ حج سے آدمی کی روحانی تربیت ہو تی ہے، جب 40 سے 50 روز تک گھر سے باہر رہ کر صرف حرم ِپاک اَور مسجد ِنبوی میں وَقت گزرے گا اَور عبادت والا ایک خاص ماحول میسرہو گا تو یہی زندگی میں انقلاب کا ذریعہ بنے گا اَور اپنے مقام پر بھی نماز روزہ اَور دیگر فرائض و واجبات کی پابندی آسان ہو جائے گی، لہٰذا اَگر نماز روزہ کی پابندی نہیں تو فریضۂ حج کی اَدائیگی اس کا ایک مؤثر علاج ہے،لہٰذا اس میں تاخیر کی بجائے جلد اَز جلد اسے اَدا کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
دِیگر فرائض:
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک حج ہی اَدا کر نے کے لیے رہ گیا ہے؟ اَور بھی تو بہت سارے فرائض ہیں، والدین کی خدمت ہے، رشتہ داروں کے حقوق ہیں، بچوں کی تعلیم ہے، پہلے ان کو پورا کر لیں، پھر حج بھی کر لیں گے،اتنی جلدی کیا ہے؟
اَیسے لوگ درج ذیل اَحادیث پر غور کریں:
حضور ﷺکا ارشاد ہے:
1:۔’’جو حج کا ارادہ کرے اسے چاہیے کہ جلدی کرے۔‘‘(مشکوٰة: صـ ۲۲۲)
2:۔’’فرض حج میں جلدی کرو، نہ معلوم کیا بات پیش آ جائے۔‘‘(مختصر الترغیب والترہیب: صـ ۱۳۱، رقم الحدیث: ۳۵۸)
3:۔’’حج میں جلدی کرو، کسی کو بعد کی کیا خبر؟کوئی مرض پیش آجائے، کوئی اَورضرورت لاحق ہو جائے۔‘‘(کنز العمال: ۵/ ۸، رقم الحدیث: ۱۱۸۵۱)
گناہوں کے خوف یا حرص کی بناء پر حج میں تاخیر:
کچھ لوگ حج پر اس لئے نہیں جاتے کہ بھائی ابھی جوانی ہے، گناہوں سے بچنا مشکل ہے، ابھی حج کر لیا تو پھر گناہ ہوتے رہیں گے۔ اس لئے بس زندگی کے آخری اَیام میں حج کریں گے تاکہ بعد میں پھر کوئی گناہ نہ کریں۔
یہ بھی نفس و شیطان کا فریب ہے۔ در حقیقت گناہوں کی حرص اس تاخیر کا باعث ہے۔ ابھی گناہ چھوڑنا نہیں چاہتے، اس لئے حج نہیں کرتے،حالانکہ گناہوں کا چھوڑنا تو ہر حال میں فرض ہے، خواہ جوانی ہو یا بڑھاپا۔ اَگر گناہوں کی حرص اس کا سبب نہ ہو بلکہ حج کے بعد پھر گناہوں میں مبتلا ہونے کا خوف ہی اس کا سبب ہو تو بھی حج میں تاخیر کا کوئی جواز نہیں۔ کیونکہ:
اولاً :۔تو حج میں تاخیر خود گناہ ہے۔
ثانیاً :۔یہ تو معلوم نہیں کہ زندگی کتنی ہے؟ معلوم نہیں کب موت آجائے؟ اَگر زندگی کے آخری اَیام کے اِنتظار میں موت آگئی تو پھر کیا ہوگا؟
ثالثاً :۔سچی بات یہ ہے کہ حج کا اَصل لطف در حقیقت جوانی ہی میں ہے،اس لئے کہ حج میں جسمانی مشقت اَور محنت کی ضرورت ہوتی ہے اَور حج کے افعال اسی وَقت نشاط اَور ذوق وشوق کے ساتھ انجام دئیے جا سکتے ہیں جب انسان کے اعضاء مضبوط ہوں اَور وہ اطمینان کے ساتھ یہ محنت برداشت کر سکتا ہو۔ بڑھاپے میں انسان اَگر چہ جوں توں کر کے حج کر لیتا ہے، لیکن کتنے کام اَیسے ہیں جنہیں نشاط، چستی اَور حضورِ قلب کے ساتھ انجام دینے کی حسرت دِل میں ہی رہ جاتی ہے۔
رابعًا:۔حج اَگر اِخلاص اَور نیک نیتی کے ساتھ صحیح طور پرانجام دیا جائے تو تجربہ یہ ہے کہ وہ انسان کے دِل میں ضرور ایک انقلاب پیداکرتا ہے،اس سے انسان کے دِل میں نرمی، اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اَور آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے جو اسے گناہوں، جرائم اَور بدعنوانیوں سے روکتی ہے۔قلب وذہن کی اس تبدیلی کی سب سے زِیادہ ضرورت انسان کو جوانی میں ہوتی ہے، کیونکہ اس کے بغیر وہ جوانی کی رو میں غلطیاں کرتا چلا جاتا ہے۔
در جوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری است وَقت پیری گرگ ظالم می شود پرہیزگار
’’جوانی میں ظلم اَور گناہ سے توبہ پیغمبروں کا شیوہ ہے،بڑھاپے میں تو ظالم بھیڑیا بھی پرہیز گار بن جاتا ہے۔‘‘
بچوں کی شادیوں کا مسئلہ:
یہ غلط فہمی بھی بہت سے لوگوں کے ذہن میں پائی جاتی ہے کہ جب تک تمام اولاد کی شادیاں نہ ہو جائیں،اس وَقت تک حج نہیں کر نا چاہیے۔یہ خیال بھی سراسر غلط ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ حج کی فرضیت کا اولاد کی شادیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ جس شخص کو بھی مذکور بالا معیار کے مطابق اِستطاعت ہو اس کے ذِمے حج فرض ہو جاتا ہے، خواہ اولاد کی شادیاں ہوئی ہوں یا نہ ہوئی ہوں۔
نیز آج کل ناجائز رسم و رواج نے شادی کو متوسط اور غریب طبقہ کے لیے وبالِ جان بنا دیا ہے، اگر سنت طریقے کے مطابق شادی کی جائے تو حج کو ملتوی یا مؤخر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی، یہ کام تو ایک دن میں بھی ہو سکتا ہے کہ لڑکی کا نکاح کرایا، پھر سادگی سے اس کی رخصتی کرادی اور بس۔
رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’حج نکاح سے مقدم ہے۔‘‘(کنز العمال، رقم الحدیث: ۱۱۸۸۰)
جب تک گھر کا بڑا فرد حج نہ کر لے:
بعض گھرانوں میں یہ رواج بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ جب تک گھر کا بڑا فرد حج نہ کرلے، اس وَقت تک چھوٹے حج کرناضرورِی نہیں سمجھتے، بلکہ بعض گھرانوں میں اس کو ایک عیب سمجھا جاتا ہے کہ چھوٹا بڑے سے پہلے حج کر آئے، حالانکہ دوسری عبادتوں یعنی نماز، روزے اَور زکوٰة کی طرح حج بھی ایک اَیسا فریضہ ہے جو ہر شخص پر انفرادی طور پر عائد ہو تا ہے،خواہ کسی دوسرے نے حج کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ اَگر گھر کے کسی چھوٹے فرد کے پاس حج کی اِستطاعت ہے تو اس پر حج فرض ہے، اَگر بڑے کے پاس اِستطاعت نہ ہو یا اِستطاعت کے باوجود وہ حج نہ کر رہا ہو تو نہ اس سے چھوٹے کا فریضہ ساقط ہو تا ہے، نہ اسے مؤخر کرنے کا کوئی جواز پیدا ہو تا ہے۔
والدین نے حج نہیں کیا:
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جب تک اولاد اپنے ماں باپ کو حج نہ کرائے اَور ماں باپ حج نہ کر لیں اس وَقت تک اولاد حج نہیں کر سکتی،اس لئے پہلے وہ والدین کو حج کرانے کی فکر میں رہتے ہیں، والدین اگر غریب ہیں تو ان پر حج فرض نہیں ہوتا اوراولاد اگر مالدار ہے تو ان پر فرض ہوتا ہے۔ اولاد پر ماں باپ کو حج کرانا ہر گز فرض نہیں۔ اَگر اولاد پر حج فرض ہوجائے تو وہ اپنا حج کر یں، پھر اَگر اللہ تعالیٰ مزید اِستطاعت دیں تو والدین کو بھی حج کرادیں۔
بغیر بیوی کے حج نہ کرنا:
بعض لوگوں پر حج فرض ہوتا ہے اَور ان کے پاس اس قدر پیسے ہوتے ہیں جن سے وہ خود تو حج کر سکتے ہیں، مگر اپنی بیوی کو حج پر لے جانے کی اِستطاعت نہیں رکھتے، وہ بیوی کے اصرار کی وجہ سے یا اپنی مرضی سے اس اِنتظار میں رہتے ہیں کہ جب بیوی کو ساتھ لے جانے کے قابل ہو ں گے اس وَقت میاں بیوی دونوں ساتھ حج کر نے جائیں گے۔واضح رہے کہ بیوی کو ساتھ لے جانے کے اِنتظار میں حج کو مؤخر کرنا درست نہیں، خاوند کو چاہیے کہ اس وَقت وہ خود حج اَدا کر لے، پھر بعد میں اللہ تعالیٰ توفیق دیں تو بیوی کو بھی حج کرادے۔
ابھی بچے چھوٹے ہیں:
بعض لوگ عموماً عورتیں یہ بہانہ بناتی ہیں کہ ابھی بچے چھوٹے ہیں اَور ہم نے کبھی بچوں کو اکیلا نہیں چھوڑا، انہیں اکیلا چھوڑ کر کیسے جائیں؟ یہ بھی محض ایک بہانہ ہے، ان کو اَگر دوسری جگہ کا سفر در پیش ہو یا کسی مرض کی وجہ سے ہسپتال جا نا پڑے تو اس وَقت چھوٹے بچوں کا سب انتظام ہو جاتا ہے، جب وہاں انتظام ہو سکتا ہے تو حج کے لیے جانے کی صورت میں بھی انتظام ہو سکتا ہے، اس لئے بچوں کی حفاظت کا مناسب بندوبست کر کے حج اَدا کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔ اَلبتہ اَگر عورت حاملہ ہو اَور اَیام حج میں ولادت کا امکان ہو تو اسے حج مؤخر کرنے کی اِجازت ہے۔
ماحول نہیں:
اَگر کسی کو یاد دلائیں کہ بھائی آپ صاحب ِ اِستطاعت ہیں، آپ کے اوپر حج فرض ہے، اس کو اَدا کیجئے! تو جواب دیا جاتا ہے کہ ہمارے گھر میں ماحول نہیں، اس قسم کی باتیں ہمارے یہاں نہیں ہوتیں اَور والدین اِجازت نہیں دیتے اَور جب تک ماحول نہ ہو اَیسا کرنے کا کیا فائدہ؟ مگر شرعاً یہ کوئی عذر نہیں، والدین کی اِجازت یا اَیسا ماحول فریضۂ حج کی اَدائیگی کے لیے ضرورِی نہیں۔ یہ بہانہ آخرت میں بالکل نہ چل سکے گا۔
حج نہ کرنے کے حیلو ں کا جواب:
حج نہ کرنے کے مذکورہ تمام حیلوں اَور بہانوں کا ایک ہی جواب ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص کے لیے واقعةً کو ئی مجبوری حج کرنے میں حائل نہ ہو یا ظالم بادشاہ کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہ ہو یا اَیسی شدید بیماری لاحق نہ ہو جو حج کرنے سے روک دے، پھر بھی وہ بغیر حج کئے مر جائے تو اسے اِختیار ہے چاہے یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر مرے۔‘‘ (مشکوٰة: ۱/ ۲۲)1
ایک اَہم تنبیہ:
آخر میں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ جن حضرات کی درخواستیں منظور ہو جائیں، انہیں جانے سے پہلے حج کے مکمل احکام وآداب سیکھنے چاہئیں، اس کے لیے ہر زبان میں کتابیں بھی موجود ہیں اَور ملک کے مختلف حلقوں کی طرف سے حج کے تربیتی کورس بھی منعقد ہو تے ہیں، ان میں شرکت کر نی چاہیے، عموماً درخواست کی منظوری اَور حج کیلئے رَوانگی کے درمیان خاصا طویل وقفہ ہوتا ہے،جو حج کے احکام وآداب سیکھنے کیلئے بہت کافی ہے،بہت سے حضرات اس طرف توجہ دئیے بغیر حج کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں اَور اتنا خرچ اَور مشقت اٹھا کر بھی صحیح طریقے کے مطابق حج کرنے سے محروم رہتے ہیں۔ دنیا میں کھیلوں کے آداب وقواعد مستقل فن کی صورت اِختیار کر گئے ہیں، دِل مانے یا نہ مانے ان کی پابندی کرنا پڑتی ہے تو حج تو ایک عبادت ہے، بڑی مقدس اَور عظیم الشان عبادت، لہٰذا اس کے احکام وآداب سیکھنا اَور ان کی پابندی کرنا نہایت ضرورِی ہے۔ اَگر اپنی من مانی کرنی ہے تو حج کے تکلف کی ضرورت ہی کیا ہے؟
مفتی محمد
رئیس دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی