84424 | خرید و فروخت کے احکام | سلم اور آرڈر پر بنوانے کے مسائل |
سوال
تقریباً 90 فیصد مسلم ای کامرس ماہرین یہ کام کر رہے ہیں۔ آج کل "پرنٹ آن ڈیمانڈ" بہت آسان کاروبار ہو رہا ہے۔ اس میں صارف مثال کے طور پر esty،shopify یا یہاں تک کہ اپنی ویب سائٹ جیسے پلیٹ فارم کا استعمال کرتا ہے۔ سب سے پہلے میں فیکٹری کی ویب سائٹ پر جاتا ہوں اور میں مختلف قسم کی قمیضوں کو منتخب کرتا ہوں اور فیکٹری سے کوٹیشن حاصل کرتا ہوں پھر میں اس میں منافع کا مارجن شامل کرتا ہوں اور اسے آن لائن اسٹور پر رکھتا ہوں جو مجھ سے فی سیل اور ماہانہ فیس لیتا ہے۔ آن لائن سٹور پر کلائنٹس کو آپشن دیا جاتا ہے جیسے وہ اپنا نام شرٹ پر پرنٹ کریں، سائز اور رنگ اور قمیض کی قسم جس طرح چاہیں منتخب کریں۔ جب کلائنٹ آرڈر دیتا ہے، تو کلائنٹ کی طرف سے میرے اکاؤنٹ میں رقم کی منتقلی ہوتی ہے۔ یہ آرڈر فیکٹری کو بھیج دیا جاتا ہے۔ جو آرڈر تیار کرتا ہے اور پھر اسے کلائنٹ کو بھیج دیتا ہے۔ میں فیکٹری کو چارجز ادا کرتا ہوں اور باقی منافع حاصل کرتا ہوں۔
کیا ہوگا اگر میں اپنی ویب سائٹ بناتا ہوں اور کلائنٹس کو وہی آپشن دیتا ہوں، تو مسئلہ وہیں رہتا ہے کیونکہ کلائنٹ آرڈر کرتا ہے کہ اس کی رقم اس کی پروڈکٹ وصول کیے بغیر میرے اکاؤنٹ میں پہنچ جاتی ہے۔ اگر آرڈر دوسرے ملک سے ہو تو آئٹم ادائیگی کے 2,3,10 دن بعد پہنچ جاتی ہے۔ اگر میں آرڈر لیتا ہوں اور پھر فیکٹری سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ کلائنٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق پروڈکٹ بنائے اور پھر فیکٹری سے کہے کہ وہ اسے میرے کلائنٹ تک پہنچائے۔ کیا یہ حلال ہے؟ یا کوئی ایسا طریقہ ہے جس سے اسے حلال بنایا جا سکتا ہے۔ مجھے اس کا شریعت کے مطابق حل چاہیے۔
اضافہ از مجیب : گوگل پر دستیاب معلومات کے مطابق اکاؤنٹ میں پیسے آنے پر خرید و فرخت ہوجاتی ہے ، اس کے بعد اکاؤنٹ ہولڈر کمپنی کو پر وڈکٹ بنانے اور پہنچانے کا آرڈر دیتا ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صنعت میں تیار شدہ چیز کا نمونہ دکھا کر اس کو بیچنا جائز ہے ،چاہےبوقت بیع وہ بائع کی ملکیت میں ہو یا نہ ہو ، البتہ ڈیلیوری سے پہلے بائع کا قبضہ شرط ہے ، چاہے وہ خود کرے یا اس کا وکیل کرے ۔ صورت مسئولہ میں ڈیلیوری سے پہلے آپ کا قبضہ نہیں پایا جاتا، اس لیے یہ کاروبار جائز نہیں۔ اس کی متبادل جائز صورتیں درج ذیل ہیں:
پہلی صورت یہ ہےکہ آپ پروڈکٹ بنانے والی کمپنی کے ساتھ عقد وکالہ کرے ،جس کی صورت یہ ہے کہ آپ کمپنی کے وکیل کی حیثیت سے چیز بیچےاور اس کےبدلے میں کمپنی سے طے شدہ وکالہ فیس لیتا رہے ۔ فیس (کمیشن )یوں طے کی جا سکتی ہے کہ جتنے کی فروختگی ہوگی ،اس کا اتنے فی صد آپ کی فیس (کمیشن) ہوگی یا یوں بھی طے کی جاسکتی ہے کہ فلاں پروڈکٹ کی فروختگی پر اتنے روپے فیس ہوگی۔ اس صورت میں اگر چیز نمونہ کے مطابق نہ پائےجانے کی وجہ سے واپس ہوئی تو کمپنی اس کو قبول کرنے کی پابند ہوگی اورآپ سے سروس چارجز بھی نہیں لے سکے گی۔
دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کسٹمر کےساتھ وعدہ بیع کرلے یا اپنے آن لائن اسٹور پر تصاویر آپلوڈ کرتے وقت ساتھ میں یہ لکھ دیں کہ کسٹمر کا آرڈر قبول کرنا فی الحال چیز بیچنے کا محض وعدہ ہے ، حتمی بیع نہیں ۔اس کے بعد کمپنی کو مطلوبہ چیز بنوانےکا آرڈر دے کر چیز خریدے، پروڈکٹ کی تیاری کے بعد اس پر خود قبضہ کرکے یا مال لے جانےوالے ڈرائیور کو اس پر قبضہ کرنے کا وکیل بنا کر کسٹمر کو پہنچائے ،مال پہنچنے پر عملا بیع مکمل ہو جائے گی۔ واضح رہے کہ اس صورت میں مطلوبہ چیز نمونہ کے مطابق تھی تو کسٹمر اس کےموصول ہونےپر اس کو لینے کا پابند ہوگا ، اگرکسٹمر نےمبیع سیمپل میں طے شدہ اوصاف کےمطابق ہونے کےباوجود لینے سے انکار کیا تو آپ کو ہونےوالے نقصانات کی تلافی اس کےذمہ لازم ہوگی ۔ لیکن اگر کسٹمر نے مطلوبہ چیز نمونہ کے مطابق نہ پائے جانے کی وجہ سے اس کےلینے سے انکارکیا تو آپ واپس لینے کے پابند ہوں گے ،پھر اگر چیز پر قبضہ کرتے وقت آپ یا آپ کے وکیل کو مطلوبہ چیز میں درکار مواصفا ت کے نہ پائے جانے کا علم نہیں تھا تو کمپنی آپ سے واپس لینے کی پابند ہوگی ،ورنہ نہیں۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 2):
وأما جوازه، فالقياس: أن لا يجوز؛ لأنه بيع ما ليس عند الإنسان، لا على وجه السلم، وقد نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن بيع ما ليس عند الإنسان، ورخص في السلم، ويجوز استحسانا؛ لإجماع الناس على ذلك... ولأن الحاجة تدعو إليه؛ لأن الإنسان قد يحتاج إلى خف، أو نعل من جنس مخصوص، ونوع مخصوص، على قدر مخصوص وصفة مخصوصة، وقلما يتفق وجوده مصنوعا؛ فيحتاج إلى أن يستصنع، فلو لم يجز؛ لوقع الناس في الحرج.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 3):
وأما شرائط جوازه (فمنها) : بيان جنس المصنوع، ونوعه وقدره وصفته؛ لأنه لا يصير معلوما بدونه.(ومنها) : أن يكون مما يجري فيه التعامل بين الناس... (ومنها) : أن لا يكون فيه أجل ...ولا خيار لواحد منهما إذا سلم الصانع المصنوع على الوجه الذي شرط عليه في السلم (وهذا) قول أبي حنيفة - رحمه الله - وقال أبو يوسف ومحمد: هذا ليس بشرط.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 225):
(والمبيع هو العين لا عمله) خلافا للبردعي (فإن جاء) الصانع بمصنوع غيره أو بمصنوعه قبل العقد فأخذه (صح) ولو كان المبيع عمله لما صح.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 148):
والأصل أن كل عوض ملك بعقد ينفسخ بهلاكه قبل قبضه فالتصرف فيه غير جائز وما لا فجائز عيني ... ثم قال محمد كل تصرف لا يتم إلا بالقبض كالهبة والصدقة والرهن والقرض، فهو جائز؛ لأنه يكون نائبا عنه ثم يصير قابضا لنفسه...بخلاف التصرف الذي يتم قبل القبض كالبيع مثلا، فإنه لا يجوز؛ لأنه إذا قبضه المشتري الثاني لا يكون قابضا عن الأول لعدم توقف البيع على القبض فيلزم منه تمليك المبيع قبل قبضه، وهو لا يصح
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 84):
وفي جامع الفصولين: لو ذكرا البيع بلا شرط ثم ذكرا الشرط على وجه العدۃ جاز البيع ولزم الوفاء بالوعد، إذ المواعيد قد تكون لازمة فيجعل لازما لحاجة الناس ،تبايعا بلا ذكر شرط الوفاء ثم شرطاه يكون بيع الوفاء؛ إذ الشرط اللاحق يلتحق بأصل العقد عند أبي حنيفة ثم رمز أنه يلتحق عنده لا عندهما، وأن الصحيح أنه لا يشترط لالتحاقه مجلس العقد. اهـ وبه أفتى في الخيرية وقال: فقد صرح علماؤنا بأنهما لو ذكرا البيع بلا شرط ثم ذكرا الشرط على وجه العدة جاز البيع ولزم الوفاء بالوعد.
نعمت اللہ
دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی
27 /محرم/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | نعمت اللہ بن نورزمان | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |