84506 | زکوة کابیان | مستحقین زکوة کا بیان |
سوال
زکوۃ مستحقین تک پہنچاتے ہوئے درمیان میں کئی مقامات پر جبری طور پر سامان لے لیا جائے، یا رقم لے لی جائے،یا مجبوراً رشوت دینی پڑجائے تو زکوة کی رقم میں کتنے فیصد تک اس کی کٹوتی کی گنجائش دی جاسکتی ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
چونکہ زکوة کی ادائیگی صحیح ہونے کے لئے اس کا کسی مستحق کو مالک بنانا شرط ہے،اس لئے زکوة کی مد میں دیا گیا جو سامان یا رقم چھن جائے،یا مجبوراً بطورِ رشوت دینا پڑجائے اس کے بقدر زکوة ادا نہیں ہوگی،پھر اگر اس رقم یا سامان کے مستحق تک پہنچنے سے پہلے ضائع ہونے میں وکیل کا قصور ہو اس طور پر کہ اس نے غیر محفوظ راستے کا انتخاب کیا ہو،یا گاڑی وغیرہ کے قانونی دستاویز مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اسے رشوت دینا پڑی ہو تو اس پر اس کا ضمان آئے گا اور اگر اس ضیاع میں وکیل کی جانب سے کسی قسم کی غفلت اور کوتاہی کا عمل دخل نہ ہو تو پھر وکیل اس نقصان کا ضامن نہیں ہوگا،لزوم ضمان کی صورت میں وکیل کے ذمے زکوة کے مالک کو نقصان کے بقدر رقم لوٹانا لازم ہے،جبکہ ضمان لازم نہ ہونے کی صورت میں فقط اطلاع دینا لازم ہے،تاکہ مؤکل اس کے بقدر زکوة دوبارہ ادا کردے۔
نیز اگر وکیل نقصان کے بقدرمؤکل کی زکوۃ اپنی طرف سے ادا کرنا چاہے تو بھی مؤکل سے اجازت لینا ضروری ہے،تجدیدِ اذن کے بغیر زکوة ادا نہیں ہوگی۔
حوالہ جات
"رد المحتار" (2/ 270):
"(قوله: ولا يخرج عن العهدة بالعزل) فلو ضاعت لا تسقط عنه الزكاة ولو مات كانت ميراثا عنه".
"الدر المختار"(2/ 269):
"ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعا إلا إذا وكله الفقراء".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اﷲ:" (قوله ضمن وكان متبرعا) لأنه ملكه بالخلط وصار مؤديا مال نفسه. قال في التتارخانية: إلا إذا وجد الإذن أو أجاز المالكان اهـ أي أجاز قبل الدفع إلى الفقير، لما في البحر: لو أدى زكاة غيره بغير أمره فبلغه فأجاز لم يجز لأنها وجدت نفاذا على المتصدق لأنها ملكه ولم يصر تائبا عن غيره فنفذت عليه اه".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
30/محرم الحرام1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |