84583 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
میرے والدکاانتقال ہوگیاہے،میرے والدکے5 بچے ہیں،چاربیٹیاں اورایک بیٹاہے،جس میں سے3بیٹیوں کاانتقال ہوگیاہے،ایک بیٹااورایک بیٹی زندہ ہیں۔
فوت ہونے والی بیٹیوں میں ایک کنواری اوردوشادی شدہ تھیں،ایک کے چھ بچے، دوسری کے تین بچے ہیں،ساری بیٹیاں اپنی زندگی میں والدکے گھرسے دستبردارہوچکی ہیں،میں نے والدکاگھردوبارہ تعمیرکرایاہے اوراپنی زندگی کی ساری جمع پونچی اس پرلگادی ہے،اب میں وہ گھراپنے نام کرواناچاہتاہوں ،مرحومہ بہنوں کے بچوں(نواسااورنواسیوں) نے حصہ کامطالبہ شروع کردیاہے،میں اپنی اس بہن کوجوزندہ ہیں حصہ دینے کوتیارہوں،اس تفصیل کی روشنی میں درج ذیل سوالات ہیں:
1.نواسے اورنواسیوں کاحصہ ہوگایانہیں؟
2.بہن کاحصہ کیسے نکالاجائے گا؟جبکہ شادی کے سارے اخراجات میں نے کئےتھے اوروالدہ نے کہاتھااب یہ گھرمیرے بیٹے کاہے اوربہن بھی راضی تھی،لیکن میں پھربھی اس کوحصہ دینے کے لئے تیارہوں،پوراگھرمیں نے بنایاہے،بہن کواس میں سے کیسے حصہ ملے گا؟
3.جوبہن کنواری تھی اس کاحصہ کتناہوگا اورکس کوملے گا؟
واضح رہے کہ پہلے والدکاانتقال ہوا پھروالدہ کا،اس کے بعدبہنوں کاانتقال ہواہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
تقسیمِ میراث سے پہلےکسی وارث کابغیرعوض اپنے شرعی حصہ سے دست بردار ہوجانا شرعاً معتبر نہیں ہے، البتہ ترکہ تقسیم ہوجانے کے بعدوارث کواختیارہے کہ وہ اپناحصہ کسی کودیناچاہے توہبہ کے طورپردے سکتاہے،صورت مسؤلہ میں ترکہ تقسیم ہونے سےپہلے بہنیں اپنے حصہ سے دستبردارہوئی ہیں توان کادستبردارہوناشرعامعتبر نہیں،اس لئے زندہ بہن اورفوت شدہ بہنوں کی اولاد(نواسے اورنواسیوں)کااپنی والدہ کے حصہ کا مطالبہ کرنادرست ہے۔
والدکے انتقال کے وقت تک مکان جس حالت میں تھا،صرف اس تعمیرکو ورثہ میں تقسیم کریں گے،باقی تعمیر چونکہ آپ نے اپنے لئے کی ہے تواس لئے اصولی طورپرباقی تعمیرکے مالک آپ ہیں اوراپنی تعمیراکھاڑنےکا حق رکھتے ہیں،چونکہ اس طرح کرنے میں فریقین کاغیرمعمولی نقصان ہے،اس لئے مناسب یہ ہے کہ باہمی رضامندی سے ان تعمیرات کی مناسب قیمت لگاکر آپ وصول کرلیں اوراس کے بعدمذکورہ تعمیرات کوشرعی حصوں کے مطابق تقسیم کرلیاجائے۔
بہن کی شادی پراخراجات کرتے وقت بہن کویہ بتادیاگیاتھاکہ ترکہ میں جوحصہ بنتاہے اس کے دستبردارہونے کے بدلہ میں ہے اوربہن اس پراضی تھی(جیساکہ سوال میں درج ہے) تواس صورت میں اس بہن کاحصہ ختم ہوگیاہے اوراس کے حصہ کے مالک آپ ہیں۔
جس کنواری بہن کاانتقال ہواہے تواس کاترکہ اس وقت موجودزندہ بہنوں اورآپ(بھائی) کے درمیان تقسیم ہوگا،آپ کوبہن کادوگناملے گا۔
حوالہ جات
فی رد المحتار (ج 2 / ص 208):
ولو قال: تركت حقي من الميراث أو برئت منها ومن حصتي لا يصح وهو على حقه، لان الارث جبري لا يصح تركه۔
وفی درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (ج 8 / ص 393):
إذا رفع البناء في هذا الحال قبل القسمة يبطل حق الباني بالكلية، أما إذا قسم فيكون قد حوفظ على حقه في المقدار الذي أصاب حصته۔
وفی درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (ج 9 / ص 170):
الاحتمال الثاني : إذا عمر أحد الشريكين المال المشترك للشركة بدون إذن الشريك كان متبرعا كما سيبين في المادة ( 1131 ) .
الاحتمال الثالث :إذا عمر أحد الشريكين المال المشترك بإذن الشريك الآخر أي أن تكون التعميرات الواقعة للمعمر وملكا له فتكون التعميرات المذكورة ملكا للمعمر ويكون الشريك الآخر قد أعار حصته لشريكه .انظر المادة ( 831 ) وشرح المادة ( 906 )
الاحتمال الرابع : إذا عمر أحد الشريكين المال المشترك بدون إذن شريكه على أن يكون ما عمره لنفسه فتكون التعميرات المذكورة ملكا له وللشريك الذي بنى وأنشأ أن يرفع ما عمره من المرمة الغير المستهلكة .
وفی تنقيح الفتاوى الحامدية (ج 6 / ص 1):
المستأجر إذا عمر في الدار المستأجرة عمارات بإذن الآجر يرجع بما أنفق وإن لم يشترط الرجوع صريحا۔
وفی تنقيح الفتاوى الحامدية (ج 3 / ص 154):
إذا عمر المستأجر بإذن القيم يرجع عليه مطلقا إلا إذا كانت العمارة يرجع معظم منفعتها على المستأجر فلا يرجع إلا إذا شرط الرجوع۔
وفی رد المحتار (ج 23 / ص 327):
( أخرجت الورثة أحدهم عن ) التركة وهي ( عرض أو ) هي ( عقار بمال ) أعطاه له ( أو ) أخرجوه ( عن ) تركة هي ( ذهب بفضة ) دفعوها له ( أو ) على العكس أو عن نقدين بهما ( صح ) في الكل صرفا للجنس بخلاف جنسه ( قل ) ما أعطوه ( أو كثر ) لكن بشرط التقابض فيما هو صرف ( وفي ) إخراجه عن ( نقدين ) وغيرها بأحد النقدين لا يصح ( إلا أن يكون ما أعطي له أكثر من حصته من ذلك الجنس ) تحرزا عن الربا ، ولا بد من حضور النقدين عند الصلح وعلمه بقدر نصيبه شرنبلالية وجلالية ولو بعرض جاز مطلقا لعدم الربا۔
محمد اویس
دارالافتاء جامعة الرشید کراچی
۱۱/صفر۱۴۴۶ ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |