03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خلع کے بعد عدت کا نفقہ شوہر پر لازم ہوگا یا نہیں؟
84647نان نفقہ کے مسائلعدت والی عورت کے نان نفقہ اور رہائش کے مسائل

سوال

میری شادی کا یہ تیسرا سال ہے، پہلے دو سال صحیح گزرے، اب تیسرے سال میں مسائل شروع ہوگئے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ میری بیوی نے دو ماہ کا حمل قصدا ضائع کیا، میں اس کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا، ڈاکٹر نے دوائیں دیں اور کہا کہ اس کے ٹھیک ہونے میں تین چار ماہ لگیں گے، جب دوبارہ ماہواری آئے گی تو کچھ تکلیف ہوگی، برداشت سے کام لینا ہوگا، چنانچہ جب میری بیوی کو ماہواری آئی تو اس نے کہا مجھے گولی دیدیں، میں نے کہا ابھی گولی استعمال نہ کریں، ایسا نہ ہو کوئی اور مسئلہ بن جائے، ڈاکٹر کے پاس چلے جائیں گے، اس نے اس بات پر ضد پکڑ لی اور والد کو فون کیا کہ یہ لوگ میرا علاج نہیں کر رہے ہیں، میں یہاں نہیں رہ سکتی، اس کے والد ہمارے گھر آئے اور لڑائی جھگڑا کر کے اپنی بیٹی کو لے گیا۔ ہم نے اس کے بعد ان سے کئی دفعہ معافی بھی مانگی، جرگے کیے، لیکن وہ اپنی بیٹی کو ہمارے گھر بھیجنے پر راضی نہیں ہوئے، اس لیے میں نے مجبورا عدالت سے رجوع کیا، عدالت نے ان کو بھی بلایا، مجھے سے پوچھا آپ اپنی بیوی کو چھوڑنا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا نہیں، میں اپنا گھر بسانا چاہتا ہوں، لیکن لڑکی نے کہا میں اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، اس پر عدالت نے کہا ٹھیک ہے، آپ ان کا مہر واپس کر کے خلع لے لیں، انہوں نے کہا ٹھیک ہے، پھر لڑکی کے وکیل نے کہا کہ خلع کے بعد عدت کا نان نفقہ بھی یہ لوگ دیں گے، چنانچہ عدالت نے مجھ سے کہا کہ آپ تین ماہ کے ایک لاکھ بیس ہزار روپے جمع کرادیں، ہم خلع کا فیصلہ کر لیتے ہیں، میں نے کہا میں چھ سات ماہ سے بے روزگار ہوں، میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں تو جج نے کہا کہ آپ کسی دار الافتاء سے فتویٰ لے کر آجائے کہ عدت کا نان نفقہ آپ پر لازم ہوگا یا نہیں؟

میں خلع پر دل سے راضی نہیں ہوں، گھر بسانا چاہتا ہوں، لیکن اگر لڑکی میرے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں ہوتی اور عدالت خلع کا فیصلہ کرتی ہے اور میں بھی بادلِ ناخواستہ اس پر راضی ہوجاتا ہوں تو سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح خلع کے بعد عدت کا نفقہ میرے اوپر لازم ہوگا؟ ہمارے بچے نہیں ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیل درست ہے اور آپ کی طرف سے ایسا کوئی غیر معمولی مسئلہ نہیں ہے جس کی وجہ سے لڑکی آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور خلع لینا چاہتی ہے تو اس کے لیے ایسا کرنا ٹھیک نہیں ہے، آپ دونوں کو چاہیے کہ اپنے دل صاف کرلیں اور خوش اسلوبی سے اپنا گھر بسائیں۔ تاہم اگر ایسا نہیں ہوتا اور آپ اس کو خلع دیتے ہیں تو عدت کا نفقہ آپ پر لازم ہوگا، بشرطیکہ وہ عدت آپ کے گھر میں گزارے، اگر وہ بلاوجہ (یعنی کہ آپ کے گھر میں عدت گزارنے میں اس کو آپ اور آپ کے گھر والوں کی طرف سےکوئی رکاوٹ اور تکلیف نہ ہو) آپ کے گھر میں عدت نہیں گزارتی تو پھر اس کا نفقہ آپ پر لازم نہیں ہوگا۔  اسی طرح اگر آپ عدت کا نفقہ چھوڑنے کی شرط پر اس کو خلع دیں اور وہ اس خلع کو قبول کریں تو پھر بھی عدت کا نفقہ آپ پر لازم نہیں ہوگا۔  

واضح رہے کہ نفقہ کی کوئی خاص مقدار شریعت میں مقرر نہیں ہے، اس میں شوہر اور بیوی دونوں کی حیثیت کا اعتبار ہوتا ہے، لہٰذا عدالت کو چاہیے کہ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق جس صورت میں نفقہ لازم ہوتا ہے، اس میں میاں بیوی کی مالی حیثیت ملحوظ رکھ کر نفقہ کی مقدار مقرر کرے۔ اگر ان دونوں کی مالی حیثیت ایک جیسی ہو تو اسی حیثیت کے مطابق نان نفقہ لازم کرے اور اگر ان کی حیثیت مختلف ہو مثلا ایک مال دار اور دوسرا متوسط الحال یا غریب ہو تو پھر درمیانی حالت کا اعتبار کیا جائے گا، یعنی مال داروں سے کم اور متوسط الحال یا غریب سے زیادہ حیثیت کا نان نفقہ مقرر کرے۔  

حوالہ جات

الفتاوى الهندية (1/ 557):

 المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى، كان الطلاق رجعيا أو بائنا أو ثلاثا، حاملا كانت المرأة أو لم تكن، كذا في فتاوى قاضي خان.  الأصل أن الفرقة متى كانت من جهة الزوج فلها النفقة، وإن كانت من جهة المرأة: إن كانت بحق لها النفقة، وإن كانت بمعصية لا نفقة لها، وإن كانت بمعنى من جهة غيرها فلها النفقة. فللملاعنة النفقة والسكنى، والمبانة بالخلع والإيلاء وردة الزوج ومجامعة الزوج أمها تستحق النفقة، وكذا امرأة العنين إذا اختارت الفرقة، وكذا أم الولد والمدبر إذا أعتقا وهما عند زوجيهما وقد بوأهما المولى بيتا واختارتا الفرقة، وكذا الصغيرة إذا أدركت اختارت نفسها، وكذا الفرقة لعدم الكفاءة بعد الدخول، كذا في الخلاصة.  وإن ارتدت أو طاوعت ابن زوجها أو أباه أو لمسته بشهوة فلا نفقة لها استحسانا، ولها السکنی، وإن کانت مستکرهة فلاتسقط نفقتها، کذا في البدائع..

رد المحتار (3/ 609):

قوله ( وتجب لمطلقة الرجعي والبائن ) كان عليه إبدال المطلقة بالمعتدة؛ لأن النفقة تابعة للعدة، ………. وفي الذخيرة: وتسقط بالنشوز، وتعود بالعود. وأطلق فشمل الحامل وغيرها والبائن بثلاث أو أقل كما في الخانية …..  قوله ( والفرقة بلا معصية ) أي من قبلها، فلو كانت بمعصيتهما فليس لها سوى السكنى كما يأتي.

 قال في البحر: فالحاصل أن الفرقة إما من قبله أو من قبلها، فلو من قبله فلها النفقة مطلقا سواء كانت بمعصية أو لا، طلاقا أو فسخا، وإن كانت من قبلها، فإن كانت بمعصية فلا نفقة لها، ولها السكنى في جميع الصور ا هـ ملخصا.

فتح القدير (4/ 233):

قوله "يسقطان كل حق، إلى آخره" مقيد بالمهر والنفقة الماضية إذا كانت مفروضة، بخلاف نفقة العدة والسكنى في العدة، لا تقع البراءة منهما وإن كانا من حقوق النكاح، بل للمختلعة النفقة والسكنى؛ إلا أن اختلعت على نفقة العدة فتسقط دون السكنى؛ لأنها حق الشرع. 

المبسوط للسرخسي (6/ 328): 

ثم الأصل في الخلع أن النشوز إذا كان من الزوج فلا يحل له أن يأخذ منها شيئا بإزاء الطلاق؛ لقوله تعالى {وإن أردتم استبدال زوج مكان زوج} [النساء: 20] إلى أن قال {فلا تأخذوا منه شيئا} [النساء: 20].  وإن كان النشوز من قبلها فله أن يأخذ منها بالخلع مقدار ما ساق إليها من الصداق؛ لقوله تعالى: {فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229].  ولو أراد أن يأخذ منها زيادة على ما ساق إليها فذلك مكروه في رواية الطلاق، وفي الجامع الصغير يقول لا بأس بذلك.  

الدر المختار (3/ 574-571):

باب النفقة:  هي لغةً ما ينفقه الإنسان على عياله، وشرعا ( هي الطعام والكسوة والسكنى ) وعرفا هي الطعام ( ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة زوجية وقرابة وملك ) بدأ بالأول لمناسبة ما مر أو لأنها أصل الولد ( فتجب للزوجة ) بنكاح صحيح، فلو بان فساده أو بطلانه رجع بما أخذته من النفقة، بحر ( على زوجها ) لأنها جزاء الاحتباس، وكل محبوس لمنفعة غيره يلزمه نفقته……..….. ( بقدر حالهما ) به يفتى، ويخاطب بقدر وسعه، والباقي دين إلى الميسرة، ولو موسرا وهي فقيرة لا يلزمه أن يطعمها مما يأكل، بل يندب.

رد المحتار (3/ 575-571):

قوله (به يفتى) كذا في الهداية، وهو قول الخصاف، وفي الولوالجية: وهو الصحيح وعليه الفتویوظاهر الروایة اعتبار حاله فقط، وبه قال جمع کثیر من المشایخ، ونص علیه محمد، وفي التحفة والبدائع أنه الصحيح، بحر. لكن المتون والشروح على الأول. وفي الخانية: وقال بعض الناس: يعتبر حال المرأة. قال في البحر: واتفقوا على وجوب نفقة الموسرين إذا كانا موسرين، وعلى نفقة المعسرين إذا كانا معسرين، وإنما الاختلاف فيما إذا كان أحدهما موسرا والآخر معسرا، فعلى ظاهر الرواية الاعتبار لحال الرجل، فإن كان موسرا وهي معسرة فعليه نفقة الموسرين، وفي عكسه نفقة المعسرين، وأما على المفتى به فتجب نفقة الوسط في المسألتين، وهو فوق نفقة المعسرة ودون نفقة الموسرة اه.

تنبيه: صرحوا ببيان اليسار والإعسار في نفقة الأقارب، ولم أر من عرفهما في نفقة الزوجة، ولعلهم وكلوا ذلك إلى العرف والنظر إلى الحال من التوسع في الإنفاق وعدمه، ويؤيده قول البدائع: حتى لو كان الرجل مفرطا في اليسار يأكل خبز الحواري ولحم الدجاج المرأة مفرطة في الفقر تأكل في بيت أهلها خبز الشعير يطعمها خبز الحنطة ولحم الشاة.

فتاوى قاضي خان (1/ 208):

ولا تقدير في النفقة عندنا، وإنما يجب عليها كفايتها بالمعروف، وذلك يختلف باختلاف الأوقات والأماكن، وكما يجب لها قدر الكفاية من الخبز، فكذلك الإدام؛ لأن الخبز لا يؤكل عادة إلا مأدوماً، وقالوا في تأويل قوله تعالى: (من أوسط ماتطعمون أهليكم) أن أعلى ما يطعم الرجل أهله الخبز واللحم وأوسط ما يطعم الرجل أهله الخبز والزيت وأدنى ما يطعم أهله الخبز واللبن، أما الدهن فلا بد منه خصوصاً في ديار الحر. و هذا كله في عرفهم، أما في عرفنا نفقة المرأة تختلف باختلاف الناس والأوقات، ولا تقدر النفقة بالدراهم.

بدائع الصنائع (4/ 18):

 ويستوي في نفقة المعتدة عدة الأقراء وعدة الأشهر وعدة الحمل؛ لاستواء الكل في سبب الاستحقاق، فينفق عليها ما دامت في العدة.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

       14/صفر المظفر/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب