03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چچا کے بیٹے کا اپنے کزن سے والد کے حصے کا مطالبہ کرنا
84831میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے والد صاحب نے ایک مشترکہ زمین فروخت کی جس میں چچا بھی حصہ دار تھے،چچا کی رضامندی سے والد صاحب نے زمین فروخت کی تھی،زمین تقریبا چار کروڑ کی فروخت ہوئی تھی،چچا ہمارے ساتھ ہمارے ہی گھر میں رہتے تھے،ان کا اٹھنا بیٹھنا،کھانا پینا،رہنا سہنا سب ہمارے گھر میں ہوتا تھا.چچا کا ایک بیٹا ہے جو کہ امریکہ میں رہتا ہے جو کہ اپنے والد صاحب کو چھوڑ کر چلا گیا تھا،انتقال پر بھی نہیں آیا تھا اور اتنے عرصے تک اپنے والدصاحب سے کوئی تعلق نہیں رکھا تھا،پھر کچھ عرصہ کے بعد ہمارے چچا کا انتقال ہوا اورچچا کے انتقال کے چار پانچ سال کے بعد ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوا۔

اب سات آٹھ سال کے بعد چچا کا بیٹا کہہ رہا ہے کہ تمہارے والد صاحب نے جو زمین فروخت کی تھی چار کروڑ کی اس میں سے میرے والد کا حصہ مجھے دو۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا چچا کا بیٹا ہم سے تقاضہ کر سکتا ہے کہ تمہارے والد نے جو زمین فروخت کی تھی اس میں سے جومیرے والد کاحصہ بنتا ہے وہ مجھے دے دو۔

کیا ایسی صورت میں چچا کا بیٹا ہم سےاس زمین کی رقم کا مطالبہ کر سکتا ہے؟جبکہ اتنےعرصہ تک چچا کے بیٹے کا اپنے والد سےکوئی تعلق یا رابطہ نہیں تھا کہ اس کو معلوم ہو سکے کہ میرے تایا نے میرےوالد کو فروخت کی ہوئی زمین کے پیسے دیئے ہیں یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

والد کے ساتھ تعلق نہ رکھنے کی وجہ سے اولاد کا میراث میں سے حق ختم نہیں ہوتا،لہذا فروخت کی گئی زمین میں چچا کا جو حصہ بنتا ہے اگر آپ کے والد نے وہ چچا کو دے دیا تھا یا چچا نے اپنا حصہ آپ کے والد کو معاف کردیا تھا تو پھر اب اسے آپ لوگوں سے اپنے والد کے حصے کے مطالبے کا حق نہیں ہے،لیکن اگر نہ آپ کے والد نے آپ کے چچا کو ان کا حصہ حوالے کیا اور نہ انہوں نے آپ کے والد کو اپنا حصہ معاف کیا تو پھر چچا کے بیٹے کو آپ لوگوں سے اپنے والد کے حصے کے مطالبے کا حق حاصل ہوگا۔

حوالہ جات

"غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائرللحموي" (3/ 354):

" لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك، والحق يبطل به حتى لو أن أحدا من الغانمين قال قبل القسمة: تركت حقي بطل حقه، وكذا لو قال المرتهن: تركت حقي في حبس الرهن بطل،كذا في جامع الفصولين للعمادي، وفصول العمادي .

قوله: لو قال الوارث: تركت حقي إلخ. اعلم أن الإعراض عن الملك أو حق الملك ضابطه أنه إن كان ملكا لازما لم يبطل بذلك كما لو مات عن ابنين فقال أحدهما: تركت نصيبي من الميراث لم يبطل لأنه لازم لا يترك بالترك بل إن كان عينا فلا بد من التمليك وإن كان دينا فلا بد من الإبراء، وإن لم يكن كذلك بل ثبت له حق التملك صح كإعراض الغانم عن الغنيمة قبل القسمة كذا في قواعد الزركشي من الشافعية ولا يخالفنا إلا في الدين، فإنه يجوز تمليكه ممن هو عليه.

قوله: كذا في جامع الفصولين. يعني في الثامن والثلاثين وعبارته: قال أحد الورثة برئت من تركة أبي؛ يبرأ الغرماء عن الدين بقدر حقه لأن هذا إبراء عن الغرماء بقدر حقه فيصح ولو كانت التركة عينا لم يصح. ولو قبض أحدهم شيئا من بقية الورثة وبرئ من التركة وفيها ديون على الناس لو أراد البراءة من حصة الدين صح لا لو أراد تمليك حصته من الورثة لتمليك الدين ممن ليس عليه".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

30/صفر 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب