03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ربیبہ کو شہوت کے ساتھ چھونے اور بدکاری کرنےسے حرمت مصاہرت کا حکم
84867نکاح کا بیانحرمت مصاہرت کے احکام

سوال

میرے پہلے شوہر سے ایک بچی ہے، میں نے دوسرے شخص سے نکاح کیا، اس شوہر سے میرے دو بچے ہیں، یہ بچی ربیبہ ہو کر میرے ساتھ رہتی ہے، دوسرے شوہر نے ایک دن اس بچی کو پانی کی بوتل لانے کے بہانے چھت پر بلایا اور اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کے سینے کو سختی سے دبایا اور اس کی شرمگاہ کو مسلا، پھر اس میں انگلی ڈال دی، اتنے میں میں بچی کو آواز دی تو اس نے چھوڑ دیا اور بچی سہمی ہوئی واپس لوٹی، دوسری مرتبہ اس نے بچی کی گردن کو زبان سے چاٹا، کان پر کاٹا اور اس کی شرگاہ کو سہلایا، بچی نے کہا بابا آپ غلط کر رہے ہیں، اللہ سے ڈریں تو اس نے کہا میں دیکھ لوں گا، اللہ کو جواب دے دوں گا۔ تیسری مرتبہ بچی اسکول سے آئی، میں گھرمیں نہیں تھی، بچے کی دوائی لینے گئی تھی، یہ بچی کے کمرے میں آیا اور طرح طرح سے پیار کرنے لگا، پھر بچی سے کہا میری شرمگاہ منہ میں لو، خبردار !بولنا نہیں، ورنہ تمہارا برا حشر کردوں گا، اسی وقت میں نے بل بجائی تو وہ فورا کمرے سے نکل گیا اور نارمل ہو گیا۔ اس کے بعد میرے اور بچی کے اوپر نگرانی کرنے لگا، تا کہ بچی مجھے بتا نہ سکے۔اس کو دھمکایا اور کہا کہ اگر تم نے اپنی امی کو بتایا تو میں تمہارا اور تمہاری والدہ کا برا حال کر دوں گا۔بچی سے یہ بھی کہا تھا کہ اگر بتایا تو میں تمہاری ماں کو طلاق دے دوں گا۔ گھر میں بچی کے سامنے شوہر مجھے کثرت سے مارتے ہیں،  اس کے بعدجب بچی اپنی خالہ کے گھر گئی تو اس نے سب کچھ بتایا، بچی نے تفصیل سے بتایا کہ ایک مرتبہ رات کو جب سب سو گئے تو اچانک میرے کمرے میں آئے، دروازہ بند کیا، میرا پاجامہ اتارا اور میرا ہاتھ پکڑ کرمنہ پر رکھ دیا کہ آواز نہیں نکالنا، ورنہ بہت برا کروں گا، پھر اپنی شرمگاہ اس کی شرمگاہ میں ڈالنے لگا، بچی کو بہت تکلیف ہو رہی تھی، بہرحال بچی بہت ذہنی دباؤ میں ہے۔اور میری پریشانی کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔بچی کی عمربارہ سال اور وہ قریب البلوغ ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا شریعت کی نظرمیں نکاح باقی ہے یا ختم ہو چکا؟ میرے شوہر سوشل میڈیا کے بعض فتووں کی وجہ سے دعوی کرتے ہیں کہ اس سےنکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا، برائے مہربانی مفصل ومدلل فتوی دے کر ممنون فرمائیں، تاکہ اس کو دکھایا جا سکے۔

وضاحت: سائلہ نے بتایا کہ اس شخص نے بچی کے ساتھ زنا بھی کیا ہے، میڈیکل رپورٹ میں بھی پردے کا پھٹنا معلوم ہوا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق شخصِ مذکور نے آپ کی بیٹی کو کئی مرتبہ شہوت کے ساتھ چھونے اور اس طرح کی قبیح حرکات کرنے کے علاوہ اس کے ساتھ بدکاری کا ارتکاب بھی کیا ہے، اس کے اس طرح کے گھناؤنےا فعال کی وجہ سے اسی وقت حرمتِ مصاہرت ثابت ہوچکی تھی جب اس نے پہلی مرتبہ بچی کو شہوت کے ساتھ چھواتھا، اس لیے اب آپ دونوں شرعاً ایک دوسرے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو چکے ہیں، دوبارہ نکاح کی بھی کوئی صورت اب ممکن نہیں، لہذا اب آپ دونوں پر ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرنا ضروری ہے، علیحدگی کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر اور بیوی میں سے کوئی ایک کہہ دے کہ میں نے تجھے چھوڑ دیا،(كذا في البحر والرد) اس طرح علیحدگی اختیار کرنے کے بعد عورت کی عدت شروع ہو جائے گی، عدت مکمل کرنے کے بعد عورت دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

حوالہ جات

درر الحكام شرح غرر الأحكام (2/ 71) دار إحياء الكتب العربية، بیروت:

ولو مس امرأة أو نظر إلى فرجها بشهوة فتزوج بنتها أو أمها ودخل بها لا يسقط إحصانه عند أبي حنيفة وعندهما يسقط لتأبيد الحرمة وله أن كثيرا من الفقهاء يصححون نكاحها وإنما قال بحرمتها احتياطا فهي حرمة ضعيفة لا ينتفي بها الإحصان الثابت بيقين بخلاف الحرمة الثابتة بزنا الأب فإنها ثابتة بظاهر قوله تعالى {ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم من النساء}

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (2/ 106) المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة:

قال - رحمه الله - (والزنا واللمس والنظر بشهوة يوجب حرمة المصاهرة) وقال الشافعي - رحمه الله -: الزنا لا يوجب حرمة المصاهرة لقوله - عليه الصلاة والسلام - «لا يحرم الحرام الحلال» ولأنها نعمة فلا تناط بالمحظور ولأنه لو كان مؤثرا لحلالها للمطلق ثلاثا، وقال الشافعي لمن ناظره: أنت جعلت الفرقة إلى المرأة بتقبيلها ابن زوجها والله - تعالى - لم يجعلها إليها ولنا قوله تعالى {ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم} [النساء: 22] والنكاح هو الوطء حقيقة؛ ولهذا حرم على الابن ما وطئ أبوه بملك اليمين وقال - عليه الصلاة والسلام - «ملعون من نظر إلى فرج امرأة وابنتها» وقال - عليه الصلاة والسلام - «من نظر إلى فرج امرأة لم تحل له أمها ولا ابنتها» وقال - عليه الصلاة والسلام - «من مس امرأة بشهوة»

حرمت عليه أمها وابنتها وهو مذهب عمر وعمران بن الحصين وجابر بن عبد الله وأبي بن كعب وعائشة وابن مسعود وابن عباس وجمهور التابعين۔

مطالب أولي النهى في شرح غاية المنتهى (5/ 89) المكتب الإسلامي،بيروت:

القسم (الثاني) من المحرمات على الأبد المحرمات (بالرضاع ولو حصل) الإرضاع (بإكراه) كمن أكره امرأة على إرضاع طفل فأرضعته؛ فتحرم عليه؛ لوجود سبب التحريم وهو الإرضاع، ولا يشترط في سبب التحريم كونه مباحا بدليل ثبوت تحريم المصاهرة بالزنا.

الفتاوى الهندية (1/ 277) دار الفكر،بيروت:

محمد - رحمه الله تعالى - في نكاح الأصل أن النكاح لا يرتفع بحرمة المصاهرة والرضاع بل يفسد حتى لو وطئها الزوج قبل التفريق لا يجب عليه الحد اشتبه عليه أم لم يشتبه، كذا في الذخيرة. وإذا فجر بامرأة ثم تاب يكون محرما لابنتها؛ لأنه حرم عليه نكاح ابنتها على التأبيد، وهذا دليل على أن المحرمية تثبت بالوطء الحرام وبما تثبت به حرمة المصاهرة، كذا في فتاوى قاضي خان.

 الدر مع  رد المحتار:کتاب النکاح ،فصل فی المحرمات ،ج:3،ص:37،ط:سعید:

وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة، والوطء بها لا يكون زنا.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 133) دار الفكر-بيروت:

وقال أيضا اذهبي وتزوجي كان متاركة والطلاق فيه متاركة لكن لا ينقص به عدد الطلاق، وعدم مجيء أحدهما إلى آخر بعد الدخول ليس متاركة لأنها لا تحصل إلا بالقول. وقال صاحب المحيط: وقبل الدخول أيضا لا يتحقق إلا بالقول. اهـ. وخص الشارح المتاركة بالزوج كما فعل الزيلعي لأن ظاهر كلامهم أنها لا تكون من المرأة أصلا مع أن فسخ هذا النكاح يصح من كل منهما بمحضر الآخر اتفاقا. والفرق بين المتاركة والفسخ بعيد كذا في البحر.

البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 185) دار الفكر، بيروت:

وظاهر كلامهم أن المتاركة لا تكون من المرأة أصلا كما قيده الزيلعي بالزوج لكن في القنية أن لكل واحد منهما أن يستبد بفسخه قبل الدخول بالإجماع وبعد الدخول مختلف فيه وفي الذخيرة ولكل واحد من الزوجين فسخ هذا النكاح بغير محضر من صاحبه عند بعض المشايخ وعند بعضهم إن لم يدخل بها فكذلك وإن دخل بها فليس لواحد منهما حق الفسخ إلا بمحضر من صاحبه اهـ.

وهكذا في الخلاصة، وهذا يدل على أن للمرأة فسخه بمحضر الزوج اتفاقا ولا شك أن الفسخ متاركة إلا أن يفرق بينهما وهو بعيد والله سبحانه وتعالى أعلم.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

 یکم ربیع الثانی 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب