84874 | زکوة کابیان | زکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان |
سوال
(1)۔۔۔ ایک ادارہ مریضوں کے لیے زکوۃ کی رقم جمع کرتا ہے، کیا وہ یہ رقم اسلامک بینک کے سیونگ اکاؤنٹ میں رکھ سکتا ہے؟
(2)۔۔۔ اگر رکھ سکتا ہے تو جو نفع آئے گا، وہ مستحقینِ زکوۃ مریضوں پر خرچ کیا جا سکتا ہے یا اس کا مصرف کیا ہے؟
تنقیح: یہ سوال جمال نور ہسپتال (کراچی) کے لیٹر ہیڈ پر دار الافتاء میں آیا تھا، اس لیے جمال نور ہسپتال کے نمبر پر اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ کے ایک ذمہ دار سے بات ہوئی، ان سے زکوۃ کی وصولی اور خرچ کے طریقۂ کار کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہم مریضوں کو ایک فارم دیتے ہیں جس کو وہ پر کرتے ہیں اور فارم کی یہ تصویر بھیجی۔
https://www.google.com/collections/s/list/DRwEhA8X6PC22sVI6vg9Iw7XRcC2ZQ/uaRP5vLL3f4
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
(1)۔۔۔ رفاہی اداروں کے لیے اصولی طور پر زکوۃ کی رقم تجارت میں لگانا جائز نہیں، یہ ادارے زکوۃ کی رقم مستحقین تک پہنچانے کے ہی مجاز ہوتے ہیں، کسی اور مقصد میں استعمال کرنے یا کاروبار میں لگانے کے نہیں، البتہ اگر خود مستحقین رفاہی ادارے کو مالِ زکوۃ تجارت میں لگانے کی اجازت دیں یا وہ اپنی طرف سے مالِ زکوۃ رفاہی ادارے کی ملکیت میں دیں تو پھر ادارہ فوری ضرورت سے زائد مالِ زکوۃ کسی نفع بخش تجارت میں لگاسکتا ہے۔ تاہم یہ حکم ان صورتوں سے متعلق ہے جن میں تجارتی سرگرمی میں زکوۃ کا مال ضائع ہونے کا عمومی امکان پایا جاتا ہو یا بوقتِ ضرورت زکوۃ کی رقم واپس لینے اور مستحقین پر خرچ کرنے میں دشواری ہوسکتی ہو۔
جہاں تک غیر سودی بینکوں کے ان سیونگ اکاؤنٹس کا تعلق ہے جن سے ہر وقت رقم نکلوائی جاسکتی ہے تو چونکہ بینک ایک منظم (Regulated) ادارہ ہے جو بحیثیتِ ادارہ عقد کا فریق بنتا ہے اور تمام حفاظتی تدابیر کا یقینی اہتمام کرتا ہے، غفلت اور لاپروائی یا حدود سے تجاوز کی صورت میں قانونی چارہ جوئی بھی کی جاسکتی ہے، اس لیے ان رقوم کے ضائع ہونے کا خدشہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، جبکہ دوسری طرف اس میں اصل مستحقین کا فائدہ بھی ہے، لہٰذا فوری ضرورت اور حاجت سے زائد مالِ زکوۃ ان اکاؤنٹس میں لگانا اور انویسٹ کرنا استحساناً درست معلوم ہوتا ہے، اگرچہ مستحقین سے صریح اجازت نہ لی گئی ہو، نہ ہی انہوں نے ادارے کو زکوۃ کا مالک بنایا ہو۔
(2)۔۔۔ ان اموال سے حاصل ہونے والے نفع کے مستحق اسی ادارے میں آنے والے مستحقِ زکوۃ فقراء ہوں گے، ان کی رضامندی اور اجازت کے بغیر اس کو کسی اور مصرف میں خرچ کرنا جائز نہیں ہوگا۔ نقصان کی صورت میں اگر نقصان رفاہی ادارے کی تعدی (زیادتی اور اپنی حدود سے تجاوز) یا تقصیر (غفلت و کوتاہی) کی وجہ سے ہوگا تو وہ اس کا ضامن ہوگا، ورنہ وہ ضامن نہیں ہوگا، بلکہ اس نقصان کو وہی مستحقینِ زکوۃ فقراء برداشت کریں گے جن کے فائدے کے لیے رقم بینک میں رکھی گئی ہو۔
حوالہ جات
مجمع الضمانات (1/ 339):
الباب العاشر في التصرف في مال الغير بلا إذن: لا يجوز التصرف في مال الغير بلا إذن.
الهداية (2/ 48):
وإن كان له مال في يد أجنبي فأنفق عليهما بغير إذن القاضي ضمن؛ لأنه تصرف في مال الغير بغير ولاية؛ لأنه نائب في الحفظ لا غير، بخلاف ما إذا أمره القاضي؛ لأن أمره ملزم لعموم ولايته.
الفتاوى الهندية (2/ 417):
متولي المسجد إذا اشترى بمال المسجد حانوتا أو دارا، ثم باعها جاز إذا كانت له ولاية الشراء.
رد المحتار (4/ 364):
وعن الأنصاري وكان من أصحاب زفر فيمن وقف الدراهم أو ما يكال أو ما يوزن أيجوز ذلك؟ قال: نعم! قيل: وكيف ؟ قال: يدفع الدراهم مضاربة، ثم يتصدق بها في الوجه الذي وقف عليه، وما يكال أو يوزن يباع ويدفع ثمنه لمضاربة أو بضاعة. ………. قوله ( ويدفع ثمنه مضاربة أو بضاعة ) وكذا يفعل في وقف الدراهم والدنانير وما خرج من الربح يتصدق به في جهة الوقف، وهذا هو المراد في قول الفتح عن الخلاصة: ثم يتصدق بها، فهو على تقدير مضاف أي بربحها، وعبارة الإسعاف: ثم يتصدق بالفضل.
المعاییر الشرعیة، معیار الزکاة (910-909):
أحکام تتعلق بصرف الزکاة:
10/2 الأصل دفع الزکاة فور وجوب أدائها، ویجوز تأخیر إخراجها – بما لا یزید لسنة – لغیبة المال، أو ربط توزیعها بجداول زمنیة، أو لمصلحة ظاهرة.
10/3 علی المؤسسات أن تفرد للزکاة صندوقا أو حسابا خاصا بها.
10/4 الأصل صرف الزکاة في مصارفها، وعند الحاجة یجوز توظیف أموال الزکاة في مشاریع استثماریة تنتهي بتملیك أصحاب الاستحقاق للزکاة، أو تکون تابعة للجهة الشرعیة المسئولة عن جمع الزکاة وتوزیعها، علی أن یکون ذلك بعد تلبیة الحاجة الماسة الفوریة للمستحقین وتوافر الضمانات الکافیة للبعد عن الخسائر.
الفتاویٰ التاتارخانیة، ط:فاروقیة (3/228):
وفیها: سئل عمر الحافظ عن رجل دفع إلی الآخر مالاً فقال له"هذا زکوٰة مالی فادفعها إلی فلان" فدفعها الوکیل إلی آخر،هل یضمن؟ قال:نعم، وله التعیین.
الإسعاف فی أحکام الأوقاف(122-56):
ویتحریٰ فی تصرفاته النظر للوقف و الغبطة؛ لأن الولایة مقیدة به ………….. وإن کان الوقف علی ساکنی مدرسة بعینها لایستحق إلا من جمع بین السکنیٰ والتفقه؛ لأن السکنیٰ مشروطة لفظاً والتفقه مشروطة دلالة وعرفاً،والسکنیٰ لایتحقق فیها إلا بأن یأوی إلی بیت من بیوتها مع أثاثه وآلات السکنیٰ، فإن کان یتفقه فیها نهاراً ویبیت خارجها للحراسة لایحرم؛ لأنه لایخل بالشرطین، وإن قصر فی التفقه نهاراً واشتغل بشغل آخر فإن کان بحال یعد من متفقه المدرسة رزق وإلاحرم.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
2/ربیع الثانی/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |