03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زکو ۃکا لغوی ،شرعی معنی ،فرضیت ،شرائط

زکو ۃکا لغوی معنی

لفظ زکو ۃ کا لغوی معنیٰ ’’طہا رت اور پا کیزگی‘‘ ہے اور وجہ تسمیہ یہ ہے کہ زکو ۃ نکا لنے سے بقیہ مال کی تطہیر ہو جا تی ہے ۔

زکو ۃ کا اصطلا حی اور شرعی معنی :

تملیک جزء مخصوص من مال مخصوص لشخص مخصوص للہ تعالیٰ ۔ (اللباب :ج۱ص۱۳۹)
زکوۃ کی فرضیت کب ہو ئی؟

اس با رے میں متعدد اقوال ہیں سب سے صحیح قول یہ ہے کہ فرضیت زکو ۃ ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں ہو گئی تھی لیکن اس کا مفصل نصاب مقرر نہیں ہو ا تھا ۔اسی طرح اموال ظاہر ہ کی زکو ۃ حکومت کی طرف سے وصول کرنے کا کو ئی انتظام نہیں تھا ، کیونکہ حکومت ہی قائم نہیںہو ئی تھی ، البتہ مدینہ طبیہ میں فرضیت زکو ۃ کے لئے نصاب مقرر کیا گیا اور اس کی تفصیلی مقادیر مقرر کی گئیں ، اس کی دلیل سورہ مزمل کی آیت ’’واقیموا الصلوۃ وآتوالزکو ۃ‘‘ ہے حا لانکہ سورہ مزمل مکہ مکرمہ کی بالکل ابتدا ئی آیات میں سے ہے ، اسی طرح بعض دوسری مکی سورتوں میں انفاق کا حکم اور ترک انفاق پر وعید مو جو د ہے مثلا ً ’’ وفی اموالھم حق للسا ئل والمحروم ‘‘ اور’’ الذین ھم یرآءون ویمنعون الماعون ‘‘ ۔البتہ مدینہ طیبہ میں یہ آیت نا زل ہو ئی : ’’خذ من أموالھم صدقۃ تطھرھم وتزکّیھم بھا ‘‘ ۔

پھر اس میں اختلا ف ہے کہ نصاب وغیرہ کی تحدید کس سن میں ہو ئی ؟

 پہلا قول علا مہ نووی رحمہ اللہ کا ہے وہ فرماتے ہیں کہ سن ۲ ہجری میں صوم رمضان سے پہلے ہو ئی ،لیکن حا فظ ابن حجر ؒ نے اس کی تردید کی ہے وہ فرماتے ہیں حضرت قیس بن سعد بن عبادہ ؓ کی روایت میں ہےکہ

’’ امرنا رسول اللہ ﷺ بصدقۃ الفطر قبل ان تنزل الزکا ۃ ثم نزلت فریضۃ الزکا ۃ فلم یا مرنا ولم ینھنا ونحن نفعلہ‘‘
۔نسائی :۱؍۳۷۴،کتاب الزکو ۃ ،با ب فرض صدقۃ الفطر قبل نزول الزکا ۃ )
اس سے معلو م ہو تاہے کہ صدقۃ الفطر کی فرضیت زکو ۃ سے پہلے ہو ئی ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتاہے کہ رمضان کے روزے بھی زکو ۃ سے پہلے فرض ہو چکے تھے کیونکہ صدقۃ الفطر کا تعلق صیام رمضان ہی سے ہے۔لہذا یہ کہنا کہ ۲ھ میں صوم رمضان سے پہلے زکو ۃ اور اس کے نصاب وغیرہ کی فرضیت ہو گئی تھی، درست نہیں ۔

دوسرا قول علامہ ابن الاثیر ؒ کا ہے وہ فرما تےہیں زکو ۃ کی فرضیت ۹ھ میں ہو ئی ، لیکن حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی بھی تردید کی ہے کیونکہ بخا ری ؒ میں ضمام بن ثعلبہ کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں :

’’ انشد ک با للہ آللہ امرک ان تاخذ ھذہ الصدقۃ من اغنیا ئنا فتقسمھا علیٰ فقرائنا ‘‘

اور حضرت ضمام بن ثعلبہ ؓ ۵ھ میں مدینہ طیبہ آئے تھے جس سے معلو م ہو تا ہے کہ زکو ۃ کی تحصیل وتقسیم کا انتظام ۵ھ سے پہلے ہوچکا تھا ۔ لہذا دلا ئل سے یہی ثابت ہے کہ زکو ۃ کے نصاب وغیرہ کی فرضیت ۲ھ سے پہلے ہو گئی تھی ۔

شرائط وجوبِ زکوٰۃ… چند غلط فہمیوں کا ازالہ

زکوٰۃ کس پر فرض ہے؟

سوال:کسی کے پاس سونا ساڑھے سات تولے اور چاندی ساڑھے باون تولے سے کم ہو تو اس پرزکوٰۃ فرض ہے یا نہیں؟(عمیر۔کراچی)

جواب:سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ= 87.479 گرام اس شخص کے لیے ہے جس کے پاس صرف سونا ہو، چاندی، مالِ تجارت اور نقدی میں سے ذرا سی مقداربھی نہ ہو۔اسی طرح چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولہ= 612.35گرام اس صورت میں ہے کہ صرف چاندی ہو، سونا، مالِ تجارت اور نقدی بالکل نہ ہو۔اگر سونے یا چاندی کے ساتھ کوئی دوسرا مال زکوٰۃ بھی ہے مثلاً مالِ تجارت ہے خواہ ایک روپے کی مالیت کا ہو یا نقدی ہے، خواہ چار آنے ہی ہو تو سب اموال زکوٰۃ کی قیمت لگائی جائے گی۔ اگر سب کی مالیت 612.35گرام چاندی کی قیمت کے برابر یا زائد ہو تو زکوٰۃ فرض ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ سونا ساڑھے سات تولہ= 87.479 گرام،چاندی ساڑھے باون تولہ= 612.35 گرام کسی کی ملکیت میں ہویامالِ تجارت یا نقدی یا ان چاروں اشیاء  یا ان میں سے بعض کا مجموعہ چاندی کے وزن مذکور کی قیمت کے برابر کسی شخص کے پاس ہو تو وہ صاحب ِ نصاب ہے اور اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔

عموماً جن خواتین کے پا س سونے چاندی کا زیور مذکورہ وزن سے کم ہوتا ہے وہ اس کی زکوٰۃ اداء نہیں کرتیں، حالانکہ عموماً ان کے پاس کچھ نہ کچھ نقدی ضرور ہوتی ہے، جس کی وجہ سے مذکور تفصیل کے مطابق ان پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے، ہاں اگر کسی خاتون کے پاس صرف سونا یا صرف چاندی کا زیور ہو جو وزن مذکور سے کم ہو اور نقدی یا مالِ تجارت بالکل نہ ہو تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں۔

’’ إذا کان لہ الصنفان جمیعاً، فإن لم یکن کل واحد منھما نصابا بأن کان لہ عشرۃ مثاقیل ومائۃ درھم، فإنہ یضم أحدھما إلی الآخر فيحق تکمیل النصاب۔‘‘ (بدائع: ۲/۴۱۱)

البتہ بعض اوقات خواتین کی کفالت کرنے والا کو ئی نہیںہو تا ، وہ خو د ہی اپنے اور اپنے بچوں کے اخراجا ت برداشت کر رہی ہو تی ہیں ، خاوند کی محدود پنشن یا اور کو ئی چھو ٹا مو ٹا ذریعۂ آمدن ہو تا ہے ، ایسی صورت میں اگر ان کے پاس سونے یا چاندی کا تھوڑا سا زیور بھی ہو تو مذکو رہ بالا تفصیل کے مطابق ان پر زکو ۃ فرض ہو گی ،مگر ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں ان کے لئے زکوۃاداء کرنا کافی مشکل ہے ، انہیں حرج لا حق ہوگا ،’’ والحرج مدفو ع‘‘۔ایسی مشکل صورت حال میں عرب علما ء  کی ایک بڑی تعداد کے قول’’ کہ اس زمانے میں سونے اور چاندی کی قیمتوں میں بہت زیا دہ تفاوت ہو گیا ے ، چاندی کے نصاب کو معیا ر بنا نے میں چھوٹی آمدن والو ں کے لئے مشکلا ت ہیں ، اس لئے چاندی کے نصاب کی بجا ئے سونے کے نصاب کومعیا ر بنایا جا ئے ‘‘۔کی روشنی میں مطلقاً نہ سہی ،ایسی مشکل صورت حال میں ،خواہ وہ مشکل کسی مرد کو درپیش ہو یا کسی خاتون کو ، اس کی گنجا ئش دی جا سکتی ہے یا نہیں کہ وہ سونے کے نصاب کو معیا ر بنا ئے ؟

یہ مسئلہ کئی سالو ں سے اہل افتاء کے ہا ں زیر بحث ہے ، حنفیہ کے اصل مذہب میں مزکی کو اختیار ہے کہ وہ سونے کو معیا ر بنا ئےیا چاندی کو ،بعض اہل علم نے اس پر تحریرں بھی لکھی ہیں جن میں اس کے علا وہ دوسرے اقوال کی بھی نشاندہی کی گئی ہے ،تاہم ابھی تک اس سلسلے میں بندہ کے علم کے مطابق کسی مستند دا رالافتاء سے باقاعدہ فتوی جا ری نہیں ہو ا۔

بندہ کی نا قص رائے میں اس مشکل کے حل کی اس زمانہ میں شدید ضرورت ہے ،اہل علم کو اس پر جلد کو ئی اجتما عی مجلس بلا کر فیصلہ کر نا چاہیے۔

زکوٰۃ کن اموال پر فرض ہے؟

سوال:زکوٰۃ کس قسم کے اموال پر فرض ہوتی ہے؟ ٹریکٹر اور ٹیوب ویل جو کاشتکاری کے لیے استعمال ہوتے ہوں ان کی مالیت پر زکوٰۃ فرض ہے یا نہیں؟ (فیصل حیات۔ فیصل آباد)

جواب:زکوٰۃ چار قسم کے اموال پر فرض ہوتی ہے:

(۱)سونا…(۲)چاندی…(۳) نقدی…(۴)مال تجارت یعنی وہ چیز جو مبادلہ، اُجرت یا قرض میں ملی ہو اور ملتے وقت فروخت کرنے کی نیت ہو اور یہ نیت تاحال باقی ہو۔

ان چار قسم کے اموال کے سوا کسی مال پر زکوٰۃ فرض نہیں، لہٰذا کارخانوں کا منجمد اثاثہ (مشینری وغیرہ) ٹریکٹر، ٹیوب ویل، استعمال کی گاڑی، کرایہ پر چلانے کی نیت سے خریدی گئی گاڑی، رہنے یاکرایہ پردینے کے لیے مکان، اپنے ذاتی استعمال(مکان، دکان، نرسری وغیرہ بنانے) کی نیت سے خریدے گئے پلاٹ، فریج اور دوسرے گھریلو استعمال کے سامان پر زکوٰۃ فرض نہیں۔

اس قاعدہ کو یاد رکھا جائے تو اس سلسلے میں کبھی پریشانی نہ ہو۔ بس یہ دیکھ لیا جائے کہ یہ چیز مذکورہ بالا چار قسم کے اموال میں سے کسی قسم میں داخل ہے یا نہیں؟ اگر داخل ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے، ورنہ نہیں۔

في الھندیۃ: ’’ ومنھاکون النصاب نامیا حقیقۃً أوتقدیراً، وینقسم کل منھا إلی خلقي وفعلي، فالخلقي الذھب والفضۃ، فتجب الزکوۃ فیھما نوی التجارۃ أولم ینوأصلا، والفعلي ما سواہ، ویکون الاستنماء فیہ بنیۃ التجارۃ أو الإسامۃ، ونیۃ التجارۃ والإسامۃ لا تعتبرمالم تتصل بفعل التجارۃ أوالإسامۃ…‘‘  (۱/۱۷۴)

تنبیہ:مذکورہ چار قسم کے اموال کے علاوہ جانوروں میں بھی زکوٰۃ فرض ہوتی ہے، جس کا نصاب اور زکوٰۃ کی مقدار کا ضابطہ الگ ہے۔

مالِ تجارت کی تعریف:

مالِ تجارت سے مراد وہ چیز ہے جس میں مال کا مال کے ساتھ مبادلہ ہو اور اس میں تجارت کی نیت کی گئی ہو،خواہ کوئی چیز تجارت کی نیت سے خریدی جائے یا کوئی چیز اجرت میں وصول کرتے وقت تجارت کی نیت کی جائے یا کوئی چیز مثلاً گندم قرض لیتے وقت تجارت کی نیت کی جائے اور یہی نیت تاحال باقی ہو، لہٰذا مندرجہ ذیل صورتوں میں سے کوئی صورت ہو تو وہ مال تجارت نہ ہوگا اور اس پر زکوٰۃ فرض نہ ہوگی۔

۱۔بوقت ِمباد  لہ تجارت کی نیت نہ تھی، بعد میں اگرچہ تجارت کی نیت کرلی ہو۔

۲۔بوقت ِمبادلہ تجارت کی نیت تھی مگر بعد میں تجارت کی نیت نہیں رہی یا اس میں تسلسل نہیں رہا،مثلاً درمیان میںیہ نیت کرلی کہ اس چیز کو فروخت نہیں کرے گا،مگر بعد میں پھر فروخت کرنے کی نیت ہوگئی۔

البتہ اگر مال تجارت کو ویسے گھریلو یا کسی اور استعمال میں لاتا رہا، لیکن تجارت کی نیت مسلسل برقرار رہی تو یہ مالِ تجارت ہو گا اور اس میں زکوٰۃ لازم ہو گی۔

۳۔مبادلہ یا قرض کی بجائے کسی دوسرے ذریعہ مثلاً ہبہ، تحفہ، میراث وغیرہ سے کوئی چیز ملی، اگرچہ ان ذرائع سے ملنے والی چیز کو وصول کرتے وقت تجارت کی نیت ہو۔

’’لا یبقی للتجارۃ ما اشتراہ لھا، فنوی بعد ذلک خدمتہ، ثم ما نواہ للخدمۃ لا یصیر للتجارۃ وإن نواہ لھا ما لم یبعہ بجنس ما فیہ الزکاۃ، والتجارۃ عمل،فلا یتم بمجرد النیۃ، وما اشتراہ للتجارۃ کان لھا، لمقارنہ النیۃ لعقد التجارۃ، لا ما ورثہ ونواہ لھا إلا إذا تصرف فیہ ناویا، فتجب الزکاۃ لاقتران النیۃ بالعمل۔‘‘ (التنویر مع شرحہ: ۲/۲۷۲،۲۷۳)
وفي الحاشیۃ: ’’ في الخانیۃ: عبد التجارۃ إذا أراد أن یستخدمہ سنتین، فاستخدمہ، فھو للتجارۃ علی حالہ إلا أن ینوي أن یخرجہ من التجارۃ ویجعلہ للخدمۃ۔‘‘ (شامیۃ:۲/۲۷۲)
في الدر: لا ماورثہ ونواہ لھا…وما ملکہ بصنعۃ کھبۃ أووصیۃ أونکاح، ونواہ لھا کان لھا عند الثاني، والأصح أنہ لا یکون لھا، عن البدائع۔ وفي أول الأشباہ: ولو قارنت النیۃ ما لیس بدل مال بمال لا تصح علی الصحیح۔‘‘(۲/۲۷۳)
وفیہ: ’’ شرط مقارنتھا لعقد التجارۃ، وھو کسب المال بالمال بعقد شراء أوإجارۃ أو استقراض۔‘‘

نصاب ِزکوٰۃ پر سال گذرنے کا مطلب:

سوال:میں شوال کی پہلی تاریخ کو زکوٰۃ نکالتا ہوں، اگر رمضان کے آخر میںکچھ رقم آجائے تو کیا اس پر بھی زکوٰۃ فرض ہے؟ (شبیر۔ لاہور)

جواب:آپ قمری ماہ کی جس تاریخ کو صاحب نصاب ہوئے تھے، ہمیشہ وہی تاریخ آپ کی زکوٰۃ کے حساب کے لیے متعین رہے گی۔ اگر آیندہ سال اس تاریخ میں آپ کے پاس سونا، چاندی، مال تجارت اور نقدی جو کچھ بھی ہواور جتنی مقدار میں ہو، بشرطیکہ نصاب سے کم نہ ہو، نصاب کے بقدر ہو یا زیادہ ہو، خواہ ایک ہی روز قبل ملا ہو، سب کی زکوٰۃ فرض ہوگی، خواہ درمیان سال میں کمی بیشی ہوتی رہی ہو، گویا سال کے اول و آخر میں نصاب کا مل ہو تو تمام موجود مال کی زکوٰۃ فرض ہو گی، مال کے ہر ہر جزء پر سال گزرنا ضروری نہیں۔ زکوٰۃ کا حساب ہمیشہ اسی تاریخ میںکرنا فرض ہے، البتہ اگر درمیان میں مذکورہ چاروں اشیا ء میں سے کسی بھی چیز کی تھوڑی سی مقدار بھی نہ رہی، سب چیزیں بالکل ختم ہوگئیں تو اب جس تاریخ میں آپ دوبارہ صاحب نصاب ہوں گے وہ متعین ہوگی۔

اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ صاحب نصاب بننے کی تاریخ کا یاد رکھنا لازم ہے۔ اگر غفلت سے وہ تاریخ یاد رکھنے کا اہتمام نہیں کیا یا بھول گئے تو غور و فکر کے بعد جس تاریخ کا ظن غالب ہو وہ متعین ہوگی، اگر کسی تاریخ کا بھی ظن غالب نہ ہو تو خود کوئی قمری تاریخ معین کرلی جائے، اس صورت میں اگر کوئی زیادہ ثواب حاصل کرنے کی غرض سے رمضان کی کوئی تاریخ معین کرے تو کوئی مضایقہ نہیں، بلکہ کثرتِ ثواب کی وجہ سے مناسب ہے، آیندہ ہمیشہ اسی معین کردہ تاریخ میں حساب کیا جائے اور ان دونوں صورتوں میں احتیاطاً کچھ زیادہ اداء کر لیں تو بہتر ہے، تاکہ تاریخ آگے پیچھے ہونے کی وجہ سے جو فرق ہو گیا ہو وہ فرق بھی پورا ہو جائے۔

’’ومنھا حولان الحول علی المال، والعبرۃ فيالزکاۃ للحول القمری، وإذا کان النصاب کاملا فيطرفيالحول فنقصانہ فیما بین ذلک لا یسقط الزکاۃ، ومن کان لہ نصاب فاستفاد أثناء الحول مالا عن جنسہ، ضم إلی مالہ، وزکاہ، سوا ء کان المستفاد من نمائہ أولا، وبأی وجہ استفاد ضمہ،سواء کان بمیراث أوہبۃ أوغیر ذلک۔‘‘(ھندیۃ:۱/۱۷۵)

شمسی تاریخ سے قمری تاریخ کی طرف تبدیلی کس طرح ہو:

اگر کوئی شخص شمسی تاریخ کے مطابق زکوٰۃ اداء کرتا رہا تو اس پر لازم ہے کہ شمسی حساب کو چھوڑ کر کوئی قمری تاریخ زکوٰۃ نکالنے کے لیے مقرر کرے اور آیندہ اس کے مطابق زکوٰۃ اداء کرتا رہے۔لیکن گزشتہ کئی سالوں میںاگر شمسی تاریخ کے حساب سے زکوٰۃ دی ہے تو شمسی و قمری سال کے درمیان چند دنوں کا فرق معلوم کر کے قمری سال کے حساب سے زکوٰۃ میں اگر کمی آتی ہے مثلاً قمری سال پورا ہوتے وقت رقم زیادہ تھی اور شمسی سال پورا ہونے پر اس میں کمی آئی تو قمری سال کی اس اضافی رقم کی مزید زکوٰۃ اداء کرے۔(فقہی مقالات:۳/۱۷۰)

ایک غلط دستور کی اصلاح:

سوال:عموماً لوگ زیادہ ثواب حاصل کرنے کی غرض سے زکوٰۃ صرف رمضان ہی میں اداء کرتے ہیں اور بعض لوگ رجب کو زکوٰۃ کا مہینہ سمجھتے ہیں اور اسی میں زکوٰۃ نکالتے ہیں، اگرچہ مال زکوٰۃ پر سال رجب یا رمضان سے پہلے گذرچکا ہو، کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟ (عبداللہ۔ کراچی)

جواب:جس اسلامی مہینہ کی جس تاریخ کو کوئی شخص صاحب نصاب ہوا وہ تاریخ یاد رکھنا فرض ہے، ایک سال گزرنے کے بعد اسی ماہ کی اسی تاریخ کو زکوٰۃ واجب ہوگی، اس لیے اسی تاریخ کو زکوٰۃ کا حساب لگانا فرض ہے، ورنہ لاکھوں روپے ذمہ میں واجب رہ سکتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص پر یکم جمادی الثانیہ یا یکم شعبان کو زکوٰۃ فرض ہوگئی تھی، یکم جمادی الثانیہ یا یکم شعبان کو اس کے پاس کل مال زکوٰۃ دس لاکھ مالیت کے برابر تھا، جمادی الثانیہ یا شعبان میںآدھا مال خرچ ہوگیایا کسی کو ہبہ کر دیا اوریکم رجب یا یکم رمضان کو صرف پانچ لاکھ سرمایہ رہ گیا، ظاہر ہے یہ شخص اگر رمضان یا رجب میں زکوٰۃ کا حساب لگائے گا تو صرف پانچ لاکھ کی زکوٰۃ کا حساب لگائے گا، جبکہ اس پر دس لاکھ کی زکوٰۃ اداء کرنا فرض ہے۔ اس لیے یہ جو دستور ہوگیا ہے کہ زکوٰۃ کا حساب صرف رمضان یا رجب میں کرتے ہیں بالکل غلط ہے، اس کی اصلاح ضروری ہے۔

 البتہ اگر کوئی شخص حساب تو اپنے وقت پر لگا لیتا ہے مگر اداء کرنے کے لیے رمضان کا انتظار کرتا ہے تو اگرچہ مذکورہ بالا قباحت سے بچ جاتا ہے، مگر اس میں بھی یہ خرابی ضرور ہے کہ اداء فرض میں بلا عذر تاخیر کرنے میںگناہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اندیشہ ہے کہ موت کا پیغام آجائے اور وہ فرض ذمہ میں باقی رہ جائے، بسا اوقات وصیت کرنے کا موقع بھی نہیں ملتا یا موقع ملنے کے باوجود اس میں عموماً غفلت ہوتی ہے، بلکہ وصیت کے باوجود بسا اوقات ورثہ زکوٰۃ اداء نہیں کرتے، ایسی صورت میں موت کے بعد بھی اس فرض کا اداء ہونا ممکن نہیں ہوتا، اس لیے جب زکوٰۃ فرض ہوجائے تو اسے جلد از جلد اداء کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، اس میں تاخیر صحیح نہیں۔

في شرح شرعۃ الإسلام: ’’ یعین صاحب المال لزکوتہ شھرا، لایجاوزہ لما فیہ من التأخیر، ومن أخر الزکوۃ بعد وجوبھا علیہ من غیر عذریأثم۔‘‘ (ص:۱۵۸)
في الشامیۃ: قال في الفتح:فتکون الزکاۃ فریضۃ، وفوریتھا واجبۃ، فیلزم بتأخیرہ من غیر ضرورۃ الإثم کما صرح بہ الکرخی والحاکم الشھید في الملتقی، وھو عین ما ذکرہ الإمام ابو جعفر عن أبي حنیفۃ أنہ یکرہ، فإن کراھۃ التحریم ھي المحمل عند إطلاق اسمھا، فقد ثبت عن أئمتنا الثلاثۃ وجوب فوریتھا۔‘‘ (۲/۲۷۲)

نابالغ کے مال پر زکوٰۃ نہیں:

سوال: اگر نابالغ کو میراث یا ہبہ میں بقدر نصاب مال ملا تو اس کے مال میں سے زکوٰۃ اداء کرنا فرض ہے یا نہیں؟ (فرحان۔ کراچی)

جواب: نابالغ کے مال میں زکوٰۃ فرض نہیں، کیونکہ وہ مکلف نہیں۔

’’فلیس الزکاۃ علی صبي ومجنون إذا وجد منہ الجنون في السنۃ کلھا، ھکذا في الجوھرۃ النیرۃ۔‘‘(ھندیۃ:۱/۱۷۳)

مجنون اور معتوہ پر زکوٰۃ واجب ہونے میں تفصیل:

جو شخص مکمل طور پر مسلوب العقل اور پاگل ہو اور ایک پورا قمری سال اسی حالت میں گزر جائے، اس کے مال میں زکوٰۃ لازم نہیں،البتہ اگر وہ ٹھیک ہو جائے اور اس وقت وہ صاحب ِ نصاب ہواور ٹھیک ہونے کی حالت میں اس پر مکمل سال (قمری مہینوں کے حساب سے) گزر جائے تو پھر اس سال کی زکوٰۃ لازم ہے۔

جو شخص سال کے دوران کبھی مسلوب العقل ہو، کبھی درست، اسی طرح کبھی معتو ہ (ناقص العقل ہو جس کے اقوال و افعال، حرکات و سکنات، بات کرنے اور سمجھنے کی صلاحیت ایک عقلمند انسان کی طرح نہ ہو) ہو اور کبھی درست، اس کے مال میں زکوٰۃ لازم ہے۔

’’ ولا خلاف في أنہ في المجنون الأصلی یعتبر ابتداء الحول من وقت افاقتہ کو قت بلوغہ، أما العارض فإن استوعب کل الحول فکذلک في ظاھر الروایۃ، وھو قول محمد وروایۃ عن الثانی، وھو الأ صح، وإن لم یستوعبہ لغا … ولم یذکر المعتوہ ھنا، والظاھر أنہ علی ھذا التفصیل وأنہ لا تجب علیہ في حال العتہ … إلا إذا لم یستوعب الحول، لأن الجنون یلغومعہ، فالعتہ أولی۔‘‘ (ردالمحتار:۲/۲۵۸)

زکوٰۃ گاڑی کی مالیت پر ہے یا آمدن پر؟

سوال: ایک شخص نے تیس لاکھ روپے کی گاڑی خریدی جس کی سالانہ آمدن تقریباً تین لاکھ روپے ہے، پوچھنا یہ ہے کہ زکوٰۃ گاڑی کی کل قیمت پر فرض ہے یا صرف آمدن پر؟

                                                (فتح محمد توحیدی۔ سریاب، کوئٹہ)

جواب: گاڑی یا مشینری وغیرہ جو فروخت کرنے کی نیت سے نہ خریدی ہو اس کی قیمت پر زکوٰۃ نہیں بلکہ آمدن پر ہے، اگر یہ شخص پہلے سے صاحب نصاب ہے تو صاحب نصاب بننے کی قمری تاریخ کے دن ہر سال سونا، چاندی، نقدی اور مال تجارت کے مجموعہ کا چالیسواں حصہ یعنی اڑھائی فیصد زکوٰۃ فرض ہے۔ ہر چیز کا الگ حساب کرنے کی ضرورت نہیں۔

’’ولو اشتری جوالق، لیوا جرھا من الناس، فلا زکاۃ فیھا، لأنہ اشتراھا للغلۃ لا للمبایعۃ، کذا في محیط السرخسي۔‘‘ (ھندیۃ:۱/۱۸۰)


مفتی محمد 

رئیس دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی