85100 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
محترم مفتی صاحب ایک شخص بنام محمد حفیظ ولد محمد صدیق نے پہلی شادی 1987ء میں کی اور اس سے ایک بیٹا بنام محمد عظیم ہے ۔ اس کے بعد محمد حفیظ نے اپنی پہلی منکوحہ کو طلاق 2003ء میں دے دی۔ پھر محمد حفیظ نے دوسری شادی کی اور اس سے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ محمد حفیظ کا 2020ء میں انتقال ہو گیا ۔ اب محمد حفیظ کے بھائیوں کا کہنا ہے کہ محمد عظیم( جو کہ پہلی بیوی سے ہے) اس کا محمد حفیظ کی (یعنی والد)کی وراثت میں کوئی حق اور حصہ نہیں ہے۔ کیونکہ محمد عظیم کے نانا (بنام دین محمد) نے یہ کہہ دیا تھا کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے اور اس وقت محمد عظیم نا بالغ تھا ۔ اس کے علاوہ محمد حفیظ ولد محمد صدیق نے اپنی وفات سے تقریبا 17 سال پہلے یہ لکھ کر دیا تھا کہ میرے بیٹے محمد عظیم کا میری جائیداد میں مکمل حق ہے جس کی تحریر محمد عظیم کے پاس موجود ہے ۔ محمد عظیم کی شادی کے موقع پر محمد حفیظ (والد ) نے 2016ء میں کچھ سونے کا زیور اور نقد رقم اپنے بیٹے محمد عظیم کو دی تھی تو کیا وہ زیور اور رقم وراثت میں شمار ہوگی یا نہیں۔؟
(نمبر 2) کیا پہلی بیوی (مطلقہ) کی اولاد اپنے والد کی جائیداد میں حق یا حصہ رکھتی ہے یا نہیں۔؟)
(نمبر 3) محمد حفیظ ولد محمد صدیق کی وراثت تقسیم ہو تو کس طرح تقسیم ہوگی جبکہ محمد حفیظ کے وارث درج ذیل ہیں محمد عظیم (پہلی بیوی سے) دوسری بیوی اور اس کے تین بیٹے ایک بیٹی اور محمد حفیظ کی ماں بھی حیات ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
محمد عظیم اپنے والد محمد حفیظ کی وراثت میں حصہ دار ہیں، اور محمد حفیظ مرحوم نے محمد عظیم کی شادی کے موقع پر جو کچھ محمد عظیم کو دیا ہے وہ ہدیۃ ہے وہ وراثت میں شمار نہیں ہوگا۔اور مرحوم نے بوقت انتقال اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ مال، جائیداد، سونا ،چاندی، نقدی اور ہر قسم کاچھوٹا بڑا جو ساز وسامان چھوڑا ہے اور ان کا وہ قرض جوکسی کے ذمہ واجب ہو، یہ سب ان کا ترکہ ہے۔ اس میں سے ان کے کفن دفن کے متوسط اخراجات نکالنے، ان کے ذمہ واجب الاداء قرض ادا کرنے اور کل ترکہ کے ایک تہائی کی حد تک ان کی جائز وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو ترکہ باقی بچے وہ ورثہ کے درمیان درج ذیل طریقہ سے تقسیم ہوگا:
مرحوم کی زوجہ کو12.5%،مرحوم کی والدہ کو16.666%،مرحوم کے چاروں بیٹوں میں سے ہر ایک کو15.7407%،اور مرحوم کی بیٹی کو7.8703%ملے گا۔
آسانی کے لیے درج ذیل نقشہ ملاحظہ کیجئے:
نمبر شمار |
ورثہ |
216حصے |
100فیصد |
1 |
زوجہ |
27حصے |
12.5% فیصد |
2 |
والدہ |
36حصے |
16.7666% فیصد |
3 |
پہلا بیٹا |
34حصے |
15.7407% فیصد |
4 |
دوسرا بیٹا |
34حصے |
15.7407% فیصد |
5 |
تیسرا بیٹا |
34حصے |
15.7407% فیصد |
6 |
چوتھا بیٹا |
34حصے |
15.7407% فیصد |
7 |
بیٹی |
17حصے |
7.8703% فیصد |
حوالہ جات
قال الله تعالى: {يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ}[النساء:11]
قال الله تعالى :{وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ}[النساء:12]
لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك، والحق يبطل به.
(الأشباه و النظائر:(272/1
الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط(تكملة رد المحتار على الدر المختار:(678/11
وفي البزازية : لو أبرأ أحد الورثة الباقي ثم ادعى التركة وأنكر وإلا تسمع دعواه ،وإن أقروا بالتركة أمروا بالرد عليه. وفيها: ولو قال تركت حقي من الميراث أو برئت منها ومن حصتي لا يصح وهو على حقه، لأن الإرث جبري لا يصح تركه. (تكملة رد المحتار على الدر المختار:116/12)
انس رشید
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
1446/ربیع الثانی13
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | انس رشید ولد ہارون رشید | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |