03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زوجہ اور ذوی الارحام کے ما بین تقسیم وراثت
85108تقسیم جائیداد کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

میراحقیقی چچاسسرچندماہ قبل انتقال فرماگیا ۔والدین پہلے ہی انتقال فرماچکے تھے ۔ایک بھائی اورایک بہن تھی ،وہ بھی پہلے فوت ہوچکے تھے ،مرحوم کی اولاد نہیں ہوئی لاولدتھے، بھتیجا چچا چچازادکوئی نہیں ۔غرض ذوی الفروض اور عصبات میں سے کوئی نہیں ہے ۔مرحوم کے ورثہ میں صرف ایک بیوی ،تین بھتیجیاں ،دو بھانجے اورایک بھانجی ہے ۔مرحوم نے ترکہ میں 120 ایکڑ زمین اور18000000 ایک کروڑاسی لاکھ نقدی چھوڑی ہے ۔اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ مرحوم کاترکہ مذکورہ ورثہ میں کس طرح تقسیم ہوگا؟بھتیجیوں کے ساتھ بھانجا ،بھانجی کو حصہ ملے گایانہیں ملے گا ؟یہاں ایک عالم نے کہا ہے کہ بھانجوں اور بھانجی کوحصہ نہیں ملے گا۔بیوی کو چوتھائی حصہ دے کرباقی تین حصے بھتیجیوں کوملیں گے، یعنی تینوں بھتیجیوں کو ایک ایک حصہ ملے گا ۔کیا اس عالم صاحب کافتوی صحیح ہے؟امیدہے کہ آپ مفتی صاحبان جلدجواب باصواب سے سرفراز فرمائیں گے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مرحوم  نے  انتقال کےوقت  اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ مال،جائیداد، سونا ،چاندی،نقدی اور ہر قسم کا سازو سامان  چھوڑا ہو،یہ سب ان کا تر کہ ہے۔اس میں سے مرحوم  کے ذمہ جو قرضہ ہو اس کو ادا کرنے اور ایک تہائی میں  ان کی جائز وصیت کو پورا کر نے کے بعد جو ترکہ باقی بچ جائے تو اس  کے  60حصے کیے جائیں،15حصے مرحوم کی بیوہ کو،        30    حصے  3بھتیجیوں کو،12حصے2 بھانجوں اور 3حصے ایک بھانجی کودے دیے جائیں گے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس  عالم کایہ کہنا   ٹھیک نہیں کہ بھانجوں اور بھانجی کوحصہ نہیں ملے گا  ،بلکہ ان کو بھی حصہ ملے گا۔ آسانی کے لیے نقشہ ملاحظہ فرمائیں:

نمبرشمار

ورثاء

عددی حصہ

فیصدی حصہ

 

1

بیوہ

15

25%

 

2

بھتیجی

10

16.66%

 

3

بھتیجی

10

16.66%

 

4

بھتیجی

10

16.66%

 

5

بھانجا

6

10%

 

6

بھانجا

6

10%

 

7

بھانجی

3

5%

 

 

ٹوٹل

مجموعہ:60

100%

حوالہ جات

قال الله تبارك وتعالى:ﵟوَلَهُنَّ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكۡتُمۡ إِن لَّمۡ يَكُن لَّكُمۡ وَلَدٞۚ ﵞ [النساء: 12]

قال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالى: والربع لها عند عدمهما ،فللزوجات حالتان :الربع بلا ولد، والثمن مع الولد. (الدر المختار  مع رد المحتار: 10/512)

قال العلامة ابن عابدين رحمه الله  تعالى:وعند محمد:وهو الظاهر من قول أبي حنيفة ، يقسم المال على الأصول، أي الإخوة والأخوات مع اعتبار عدد الفروع والجهات في الأصول، فما أصاب كل فريق يقسم بين فروعهم ،كما في الصنف الأول. (رد المحتار: 10/ 550)

قال العلامةالسرخسي رحمه الله تعالى :فإن انفردوا فكانوا لأب وأم أو لأب فعلى قول أبي يوسف الآخر القسمة بينهم على الأبدان ،وعلى قوله الأول وهو قول محمد على الآباء حتى إذا ترك ابن أخت وابنة أخ وهما لأب وأم أو لأب فعند أبي يوسف: الثلثان لابن الأخت والثلث لابنة الأخ، وعند محمد: على عكس هذا الثلثان لابنة الأخ ،والثلث لابن الأخت بمنزلة الأخ والأخت، ثم ينتقل ميراث كل واحد منهما إلى ولده.
(المبسوط للسرخسي 30:/ 13)

قال العلامة  سراج الدين محمد السجاوندي رحمه الله:و محمد  يقسم المال على الإخوة والأخوات  مع اعتبار عدد الفروع والجهات في الأصول، فما أصاب كل فريق يقسم بين فروعهم كما في الصنف الأول  ، أي یقسم المال علی أعلی الخلاف باعتبار عددالفروع فی الأصول. (السراجی:136)

قال العلامةعثمان بن علي الزيلعي رحمه الله تعالى: وقول محمد رحمه الله :أصح في ذوي الأرحام جميعا، وهو أشهر الروايتين عن أبي حنيفة رحمه الله. (تبيين الحقائق (7/ 496:

محمد مجاہد    

دار الافتاء جامعۃ  الرشید ،کراچی

16/ربیع الثانی6144ھ 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مجاہد بن شیر حسن

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب