03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بغیر شرعی عذرکےامام کومعزول کرناجائز نہیں
85192وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان عظام،  بیچ اس مسئلے میں کہ یہاں گاؤں میں تین بھائیوں نے مشترکہ طور پر ایک قطعۂ زمین مسجد کےلیے  وقف کردیا تھا۔ اس میں محلے کا ایک شخص امام بنا جو مسجد کی تعمیر کیلئے چندہ اکھٹا کرنے اور تعمیراتی کام میں بہت محنت کیا کرتا تھا۔اُس نے اس مسجد میں کئی سالوں امامت  کی ہےجوکہ لوگوں کے چندہ ہی پر تعمیر ہوا ہے۔ تینوں بھائی اب وفات پا چکے ہیں۔حال ہی میں واقفان میں سے ایک بھائی  کاپوتا  ایک مدرسہ سےتحصیل علم کرکے عالم بن گیاہے۔اِس ایک بھائی کے ورثہ چاہتے ہیں کہ چونکہ یہ زمین ہم نے وقف کی تھی،اس لیے اِس میں ہمارا بندہ امام ہونا چاہیے اورسابقہ امام امامت چھوڑ کر چلا جائے۔ اِس تنازعے کےکھڑے ہونے کے  بعد محلے کے تقریباً سارے لوگ سابقہ  امام کے طرفدار ہوگئے اور انہوں نے تحریراً اپنے دستخطوں کے ذریعےبھی اِس کا اظہار کیا ہے کہ ہم سارے محلےوالے اپنےسابقہ امام کو چاہتے ہیں۔ نئے عالم کے لوگ اپنی بات پر اس لیے زور دے رہے ہیں کہ مسجد کی زمیں اُن کی وقف کردہ ہے، حالانکہ اِ س ایک بھائی کے ورثہ کے علاوہ دوسرے دو بھائیوں (واقفان )کے ورثہ اس نئے عالم کے حق میں نہیں ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ سابقہ امام برقرار رہے۔لہذا شرعی لحاظ سے دریں مسئلہ ہماری رہنمائی فرمائیں کہ سابقہ امام کو محض مذکورہ بالا بات پر معزول کیا جائے  یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی بھی مسجد کےواقف وبانی یا ان کی اولادکومتولی بننےکاحق حاصل ہے۔اسی طرح ان کو امام ومؤذن کے نصب وعزل کا اختیاربھی ہوتا ہے،لیکن یہ اختیار ابتداءًہے۔ پہلے سے رکھے ہوئےیامتعین کیے ہوئے امام کو بلا عذر شرعی ہٹانا جائز نہیں ۔ لہذا صورت مسؤلہ میں واقف کی اولاد میں سے کوئی شخص متولی تو بن سکتا ہے،لیکن امام کو ہٹانے کااختیار اس وقت تک ان کو نہ ہوگاجب تک اکثر اہل محلہ نہ چاہے یا امام میں خدانخواستہ کوئی شرعی خامی نہ ہو ۔

حوالہ جات

قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی : (ولاية نصب القيم إلى الواقف ثم  لوصيه) لقيامه مقامه.

(الدر المختار:421/4  )

قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی : (الباني) للمسجد (أولى) من القوم (بنصب الإمام والمؤذن في المختار، إلا إذا عين القوم أصلح ممن عينه) الباني . ) الدرالمختار :   4/ 430)

قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ  : قوله  ) : الباني أولى) وكذا ولده وعشيرته أولى من غيرهم.  قولہ:( إلا إذا عين القوم أصلح ممن عينه) لأن منفعة ذلك ترجع إليهم.(ردالمحتار : 4/ 430)

قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ :واستفيد من عدم صحة عزل الناظر بلا جنحة عدمها لصاحب وظيفة في وقف بغير جنحة وعدم أهلية.(رد المحتار : 4/ 382)

قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ :واستفيد من عدم صحة عزل الناظر بلا جنحة عدمها لصاحب وظيفة في وقف بغير جنحة وعدم أهلية.(البحرالرائق : 5/ 245)

قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ االہ تعالی :تنازع أهل المحلة والباني في عمارته أو نصب المؤذن أوالإمام فالأصح أن الباني أولى به إلا أن يريد القوم ما هو أصلح منه.)البحر ا لرائق :5 / 269)

قال العلامۃالحصکفی رحمہ اللہ تعالی :  (و) اعلم أن (صاحب البيت) ومثله إمام المسجد الراتب (أولى بالإمامة من غيره) مطلقا.(رد المحتار :/ 559)

وقال العلامة  الحصكفي رحمه الله:  (والأحق بالإمامۃ:الأعلم بأحکام الصلاۃ…. فإن إستووا يقرع بينهم أوالخيار إلى القوم(  فإن اختلفوا اعتبر أكثرهم ولوقدمواغیر الأولی فقد أساءوا.

قال العلامۃ ابن العابدین رحمہ اللہ :قوله :(اعتبر أكثرهم) :لا يظهر هذا إلا في المنصب.

( رد المحتار: 1/ 559)

قال العلامۃ الطحطاوي رحمہ اللہ :أو الخيار إلى القوم فإن اختلفوا فالعبرة بما اختاره الأكثر وإن قدموا غير الأولى فقد أساؤوا  ).حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح   ص :301 )

وقال العلامۃابن عابدین رحمہ اللہ:وسیجیء فی الوقف أن القوم إذاعینوا  إماماومؤذنا وکان أصلح ممانصبہ البانی فھو أولی. (رد المحتار:400/1)

قال العلامۃ ابن الہمام رحمہ اللہ :وأما نصب المؤذن والإمام فقال أبو نصر فلأهل المحلة وليس الباني أحق منهم بذلك. وقال أبو بكر الإسكاف: الباني أحق بنصبهما من غيره كالعمارة. قال أبو الليث: وبه نأخذ إلا أن يريد إماما ومؤذنا والقوم يريدون الأصلح فلهم أن يفعلوا ذلك. (فتح القدير:6/ 232)

محمدادریس    

‏24‏ ربیع الثانی‏، 1446

 دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد ادریس بن غلام محمد

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب