03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدین پسند کے رشتے پر راضی نہ ہوں تو اولاد کیا کرے؟
85549نکاح کا بیانولی اور کفاء ت ) برابری (کا بیان

سوال

میں واقعی بہت پریشان ہوں اور مجھے مدد کی ضرورت ہے،اگر میرا نکاح جائز نہیں تو اس صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت نے نکاح کے معاملہ میں والدین اور اولاد دونوں کو حکم دیا ہے کہ ایک دوسرے کی پسند کی رعایت کریں، اولاد کے بالغ ہو جانے کے بعد ان کی مرضی کے خلاف رشتہ کرنا اور اس کے لیے ان پر  دباوٴ  ڈالنا زیادتی ہے، لڑکا لڑکی بلوغت کے بعد  اپنا رشتہ پسند کرنے کےخود مجاز ہو جاتے  ہیں، چنانچہ  والدین کے لئے اپنے بچوں کا  کسی ایسی جگہ نکاح کروانا جائز نہیں جہاں وہ بالکل راضی نہ ہوں، اسی طرح بچوں کوبھی ایسی جگہ نکاح پر اصرار نہیں کرنا چاہیے جہاں والدین بالکل راضی نہ ہوں۔

لہذا مذکورہ صورت میں جہاں آپ رشتہ کرنا چاہتی ہیں اگر اس رشتے کو ٹھکرانے کی کوئی معقول وجہ موجود نہ ہو تو آپ کے والدین اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرکے اپنی پسند پر آپ کی پسند کو ترجیح دیں،کیونکہ شادی کے بعد شوہر کے ساتھ زندگی لڑکی نے گزارنی ہوتی ہے اور اس طرح زور زبردستی  کے ذریعے کئے گئے رشتوں میں اکثر میاں بیوی دونوں خوشگوار ازدواجی زندگی سے محروم رہتے ہیں۔

تاہم خاندانی رسم و رواج اور تعلقات کو قطع نظر رکھتے ہوئے اگر آپ کے والدین سمجھتے ہیں کہ جس جگہ آپ رشتہ کرنا چاہتی ہیں وہ آپ کے حق میں بہتر نہیں ہے تو انہیں پیار محبت سے آپ کو بٹھاکر سمجھانا چاہیے اور اس کے بعد آپ کو بھی ماننا چاہیے کہ ماں باپ کبھی بچوں کا برا نہیں  سوچتے، بہت ممکن ہے کہ کوئی ایسی وجہ ہو جو ان کو معلوم ہو اور آپ کے ذہن میں نہ ہو ، لہذا اگر وہ کوئی معقول وجہ بتائیں تو اس کو مانیں ۔

خلاصہ یہ ہے کہ عاقلہ بالغہ  لڑکی پر نکاح کے معاملہ میں جبر اور زبردستی کرنا درست نہیں، والدین کو چاہیے کہ نکاح کے معاملہ میں اپنے بچوں کی پسند کی رعایت کریں، لیکن اولاد کو بھی چاہیے کہ والدین کو اپنا خیر خواہ سمجھتے ہوئے ان کی پسند کو  اپنی پسند پر ترجیح دیں،  اس لیے کہ عموماً والدین اور بزرگوں کے طے کردہ رشتے آگے چل کر خوش گوار ثابت ہوتے ہیں، ممکن ہے کہ ایک چیز فی الحال ناپسند ہو لیکن بعد میں وہ خیر اور محبت کا ذریعہ بن جائے  اور جو رشتے وقتی جذبات سے مغلوب ہو کر کیے جاتے ہیں تجربہ شاہد ہے کہ عموماً وہ ناپائیدار ہوتے ہیں، وقتی پسند بعد میں ناپسندیدگی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

نیز مذکورہ صورت میں چونکہ کیا گیا نکاح آپ کی عدم رضامندی کی وجہ سے منعقد نہیں ہوا اور نہ ازدواجی تعلقات قائم ہوئے ہیں،اس لئے کسی دوسری جگہ نکاح سے پہلے آپ کے کزن(جس سے آپ کا نکاح کیا گیا ہے) سے طلاق لینا ضروری نہیں اور آپ کے ذمے عدت گزارنا بھی لازم نہیں۔

حوالہ جات

.....

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

21/جمادی الاولی1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب