85465 | نکاح کا بیان | نکاح کے منعقد ہونے اور نہ ہونے کی صورتیں |
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقہ ضلع مستونگ میں منگنی کا جو طریقہ رائج ہے، یعنی منگنی میں لڑکی اور لڑکے کی طرف سے وکیل اور ولی تین مرتبہ ایجاب و قبول کرتے ہیں، مولوی صاحب بعض وقت خطبہ بھی پڑھتا ہے، اور سب گواہان کے سامنے معاملہ طے پاتا ہے اور حقِ مہر بھی طے کرتے ہیں،لیکن شادی میں دوبارہ حق مہر مقرر ہوتا ہے اور ایجاب اور قبول اور خطبہ ہوتا ہے۔ اب حال ہی میں یہ مسئلہ پیش آیا کہ لڑکی والوں نے منگنی کے بعد رشتے سے انکار کیا اور ایک مولوی صاحب سے اس کے طلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ا س کا نکاح ہی نہیں ہوا، لہذا طلاق کی ضرورت نہیں۔ جبکہ دوسرے مولوی صاحبان کہہ رہے ہیں کہ منگنی میں ایجاب و قبول ہوچکا ہے لہذا نکاح منعقد ہوا ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح منگنی سے نکاح منعقد ہوتا ہے یا نہیں ؟ جواب عنایت فرماکر مشکور فرمائیں ۔
سائل کی طرف سے تنقیح کی بعد یہ بات معلوم ہوئی کہ منگنی میں ایجاب وقبول کے دوران یہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جیسا کہ : "میں نے اپنی لڑکی دے دی" اور "میں نے قبول کرلیا" ۔مزید یہ کہ اس طرح سے ایجاب وقبول ہونے کو منگنی ہی سمجھا جاتا ہے،نکاح نہیں سمجھا جاتا ،بلکہ نکاح کے لیے ایک الگ مجلس منعقد کی جاتی ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر یہ تقریب منگنی کے عنوان سے ہوتی ہے ،فریقین اسے وعدہ نکاح ہی سمجھتے ہیں اور صراحۃً نکاح کے الفاظ استعمال نہیں ہوتے ،بلکہ لڑکی دینے اور قبول کرنے کی تعبیر تک محدود ہوتے ہیں تو یہمنگنی ہی شمار ہوگی،نکاح شمار نہ ہوگا۔لیکن اگر اس مجلس میں الفاظ نکاح سے باقاعدہ ایجاب و قبول ہوتا ہے اور اس میں مہر کا ذکر اور گواہوں کا ذکربھی ہوتا ہے،تو پھر نکاحمنعقد ہوجائے گا۔ تاہم اس میں گواہ وغیرہ بنانے سےنکاحکی تقریب جیسا ماحول بنتا ہے،اور فریقین کے اختلاف کی صورت میں مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔لہذا اس رواج کو ختم کرنا چاہیے اور صرف وعدہ کے الفاظ استعمال کرناچاہییں۔
حوالہ جات
وكذا أنا متزوجك أو جئتك خاطبا لعدم جريان المساومة في النكاح أو هل أعطيتنيها إن المجلس للنكاح، وإن للوعد فوعد.....(الرد المختار:4/73)
قال في شرح الطحاوي: لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح.(حاشية ابن عابدين:4/73)
(قوله النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول) قدمنا أن النكاح في عرف الفقهاء هو العقد، وهذا بيان لأن هذا العقد لم يثبت انعقاده حتى يتم عقدا مستعقبا لأحكامه، فلفظ النكاح في قوله النكاح ينعقد بمعنى العقد: أي ذلك العقد الخاص ينعقد حتى تتم حقيقته في الوجود بالإيجاب والقبول، والانعقاد هو ارتباط أحد الكلامين بالآخر على وجه يسمى باعتباره عقدا شرعيا ويستعقب الأحكام.(فتح القدير:3/ 189)
ينعقد بالإيجاب والقبول وضعا للمضي أو وضع أحدهما للمضي والآخر لغيره مستقبلا كان كالأمر أو حالا كالمضارع، كذا في النهر الفائق. (الفتاوى الهندية:1/ 270)
(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي) لأن الماضي أدل على التحقيق (كزوجت) نفسي أو بنتي أو موكلتي منك(و) يقول الآخر (تزوجت، و) ينعقد أيضا (بما) أي بلفظين (وضع أحدهما له) للمضي (والآخر للاستقبال) أو للحال....... (قوله: وينعقد) قال في شرح الوقاية: العقد ربط أجزاء التصرف أي الإيجاب والقبول شرعا لكن هنا أريد بالعقد الحاصل بالمصدر، وهو الارتباط لكن النكاح الإيجاب والقبول مع ذلك الارتباط، إنما قلنا هذا؛ لأن الشرع يعتبر الإيجاب والقبول أركان عقد النكاح لا أمورا خارجية كالشرائط. (الدر المختار مع رد المحتار: 3/ 9)
محمد علی
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
14/جمادی الاولیٰ 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد علی ولد محمد عبداللہ | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |