03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مرحوم نےاپنی جائیداداپنی زندگی میں   بیوی  کودی اور لےپالک کےلیے وصیت کی  توکیاحکم ہے ؟
85452میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ  ایک شخص کے چار بیٹے ہیں،اس شخص کا انتقال ہو گیا، اس کے انتقال کے بعد اس کے چاروں بیٹوں نے والد صاحب کی جائیداد آپس میں تقسیم کر لی اور اپنی  بہنوں کو بھی حصہ دے دیا ،کچھ عرصہ بعد چاروں بھائیوں کابھی  انتقال ہو گیا، ان چاروں بھائیوں میں سے ایک  بھائی نے یہ کہا تھا کہ میری ساری جائیداد میری بیوی  کی ہےاور میرے بیٹے کی ہے ، یہ اس کا اپنا بیٹا نہیں تھا، کسی دوسرے سے لےکر اپنا بیٹا بنایااور بڑا کیا تھا ،اس مرحوم بھائی  نےاپنی زندگی میں  واٹس اپ  پر وائس  میسج بھی کیا تھا(جوپشتومیں  ہے) اورتحریری صورت میں بھی یہ لکھاتھاکہ میرا سارا مال اورجائیداد میری بیوی  اور میرے بیٹے کی ہے، اس پر اور کسی کا کوئی حق نہیں،اس شخص کے انتقال کے بعداب اس کی بہنیں (جن  کو پہلے اپنا حصہ مل چکا تھا )اس شخص کی بیوی سے جائیداد دینے کا مطالبہ کر رہی ہیں کیا اُس شخص  کے مال میں اس کی بہنوں اور بھتیجوں کا حق بنتا ہے؟ یا یہ مال اور جائیداد صرف اس کی بیوی اور اس کی  بیٹے کی  ہے ؟

تنقیح: مرحوم کے بہن بھائیوں کےدرمیان 15سال پہلےبٹوارہ ہوگیاتھا(میراث تقسیم ہوگئی تھی)مرحوم نے لےپالک کےلیےاپنی زندگی میں وصیت کی تھی کہ میرےمرنےکےبعد میری جائیداد میں بیوی اورلےپالک بیٹےکاحق ہوگا،اس کےعلاوہ کسی کا نہ ہوگا،بیوی کو زندگی میں قبضہ بھی دےچکاہے،موجودہ جائیدادمرحوم کی زندگی سےبیوی کےقبضےمیں ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں تنقیح کےمطابق مرحوم بھائی نےاپنی زندگی میں اپنی جائیداد بیوی اور لےپالک لڑکےکودینےکاکہاتھا،بیوی کو تواپنی زندگی میں قبضہ بھی دےدیاہے،لہذا جو جائیدادبیوی کو دی ہےوہ اسی کی ذاتی شمار ہوگی،اس میں دیگر ورثہ کاحصہ نہ ہوگا۔

لےپالک کوچونکہ قبضہ  نہیں دیااور زندگی میں کہ کہاتھاکہ میرےمرنےکےبعدمیری جائیداداس کوبھی دی جائے،لہذا یہ وصیت ہوگی ،لےپالک چونکہ  شرعاوارث نہیں ہوتا،لہذا اس کےلیےوصیت کرنا شرعادرست ہے،البتہ وصیت میں جوساری جائیداددینےکاکہاہے،شرعااس کااعتبارنہیں ہوگا، بلکہ شرعا وصیت ایک تہائی تک معتبرہوتی ہے،اس لیےورثہ ایک تہائی تک وصیت کو پورےکرنےکےشرعاپابند ہونگے(مرحوم کی وصیت کےمطابق ترکہ میں سےایک تہائی جائیدادلےپالک کودی جائےگی)،ہاں اگرتمام ورثہ راضی ہوں تومرحوم کی پوری جائیداد بھی لےپالک کودی جاسکتی ہے، شرعااس کی بھی اجازت ہے۔

مذکورہ بالاتفصیل کےمطابق بیوی کوجو جائیداداپنی زندگی میں مرحوم نےقبضہ میں  دی ہے،اس کےعلاوہ  مرحوم کی اگرکوئی جائیدادموجود ہےتو اس میں سے  پہلے تجہیز وتکفین کامعتدل خرچہ (اگركسی وارث نے یہ خرچہ بطورتبرع نہ کیا ہو (اداکیاجائےگا،پھر مرحوم کاقرضہ اداکیاجائےگا،چونکہ مرحوم نےلےپالک(غیروارث) کےلیےوصیت کی ہےتومرحوم کےبقیہ مال میں سےتہائی تک اس کو اداکیاجائےگا،اس کےبعدجوکچھ بچ جائے،اس کومرحوم کےانتقال کےوقت موجود ورثہ (بیوہ،تین بہنوں  اور بھتیجوں)میں تقسیم کیاجائےگا۔

اوراگرمرحوم کی طرف سےاپنی زندگی میں قبضہ میں دی جانےوالی جائیدادکےعلاوہ کوئی اور جائیداد موجود ہی نہ ہوتو نہ لےپالک کےلیےکی گئی وصیت کو پوراکیاجائےگا،نہ ورثہ کو میراث  میں حصہ ملےگا،کیونکہ میراث اس وقت تقسیم ہوتی ہے،جب مرحوم  کی طرف سےکچھ مال بچ جائے،اگرکوئی مال ہی نہیں بچا،سارامال اپنی زندگی میں تقسیم کرکےقبضہ میں دےدیاجائےتومیراث  ہی نہیں ہوگی ۔

حوالہ جات

"شرح المجلۃ"1 /462:

وتتم(الھبۃ)بالقبض الکامل لأنہامن التبرعات والتبرع لایتم الابالقبض الکامل ۔

"شرح المجلۃ" 1 /  473 :ویملک الموھوب لہ الموھوب بالقبض فالقبض شرط لثبوت الملک ۔   

"السراجی فی المیراث "5،6 : الحقوق المتعلقہ بترکۃ المیت :قال علماؤنارحمہم اللہ تعالی تتعلق بترکۃ المیت حقوق اربعۃ مرتبۃ الاول یبدأبتکفینہ وتجہیزہ من غیرتبذیرولاتقتیر،ثم تقصی دیونہ من جمیع مابقی من مالہ ثم تنفذوصایاہ من ثلث مابقی بعدالدین ،ثم یقسم الباقی بین ورثتہ بالکتاب والسنۃ واجماع الامۃ ۔

  "سنن الترمذي" 3 / 293:عن أبى أمامة الباهلى قال :(سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في خطبته عام حجة الوداع: إن الله تبارك وتعالى قد أعطى كل ذى حق حقه فلا وصية لوارث۔

"الہندیة" 6/99:ولاتجوزالوصیة بمازادعلی الثلث الاان یجیزہ الورثة بعدموتہ وھم کبار،ولامعتبر باجازتہم فی حال حیاتہ۔

"رد المحتار" 29 / 355،359:تقدم ( وصيته ) ولو مطلقة على الصحيح خلافا لما اختاره في الاختيار ( من ثلث ما بقي ) بعد تجهيزه وديونه۔۔۔۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

14/جمادی الاولی 1446ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب