85463 | سود اور جوے کے مسائل | انشورنس کے احکام |
سوال
میرا نام عزیر بیگ ہے، اور میں (Santex Products Pvt Ltd.(Female Period Pads Manufacturer) کے ہیومن ریسورسز(HR) ڈیپارٹمنٹ میں ملازم ہوں۔
میری مختلف ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اپنے ملازمین کے روایتی میڈیکل انشورنس (Conventional Medical Insurance) کے معاملات کی نگرانی کرتا ہوں، جس میں کمپنی اور جوبلی انشورنس(Jubilee Insurance Company) کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتا ہوں ۔ اس حوالے سے میں درج ذیل کاموں کا انتظام کرتا ہوں:
1. تمام دعویٰ(Claims) سے متعلق انکوائریوں کو ہینڈل کرنا۔
2جوبلی انشورنس سے ری ایمبرسمنٹ(Reimbursement) چیک حاصل کرنا اور ملازم کو دینا۔
3ملازم کی طرف سے، جوبلی انشورنس کے ساتھ ری ایمبرسمنٹ چیک کی رقم پر بات چیت کرنا۔
4انشورنس پالیسی سے ملازمین کے اضافے اور حذف کرنے میں مدد کرنا۔
5 . ملازمین کی تشویشات کا جواب دینا اور ایمرجنسی کی صورت میں جوبلی انشورنس کے ساتھ ہم آہنگی کرنا۔
6 طبی پالیسی سے متعلق سوالات اور مالی مباحثوں میں مدد کرنا۔
کمپنی ملازمین اور ان کے خاندانوں کے لیے مکمل انشورنس کوریج فراہم کرتی ہے، جس کے لیے تنخواہوں سے کوئی اضافی کٹوتی نہیں کی جاتی۔
کیا میرے لیے جوبلی انشورنس اور میری کمپنی کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرنا جائز ہے؟ روایتی انشورنس کی نوعیت کے پیش نظر اگر یہ شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے، تو کیا میں اس خاص ذمہ داری سے پیچھے ہٹ جاؤں ؟ جبکہ اپنی دیگر ذمہ داریوں کو پورا کرتا رہوں۔
اس کے علاوہ میں درج ذیل نکات کی رہنمائی چاہتا ہوں :
کیا کمپنی اور انشورنس فراہم کننده کے درمیان ثالث کی حیثیت سے خدمات انجام دینا میرے لئے جائز ہے؟
کیا کمپنی کی طرف سے فراہم کردہ میڈیکل انشورنس پالیسی مذاکرات میں حصہ لینا میرے لئے جائز (حلال) ہے؟
ہماری کمپنی تکافل جیسے شریعت کے مطابق متبادل کی طرف منتقل ہونے کے لئے تیار ہے۔ کیا آپ اس عمل کو شروع کرنے اور اس کے کسی بھی ممکنہ مالی اثرات کے بارے میں مشورہ فراہم کرسکتے ہیں؟ برائے کرم ہماری مکمل شرعی رہنمائی فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
انشورنس کمپنیاں جو روایتی طریقے سے مختلف قسم کی انشورنس پالیسیاں جاری کرتی ہیں، یہ پالیسیاں چونکہ غرر فاحش اور سود پر مشتمل ہوتی ہیں ،لہذا ایسی کوئی بھی پالیسی لینا اور انشورنس کروانا سودی معاملہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ ایک غیر سودی ادارے کا ملازم اپنے متعلقہ ادارے کی طرف سے بطور نمائندہ ، وکیل یا واسطہ کے، کسی انشورنس کمپنی کے ساتھ معاملات جاری رکھنے کی ذمہ داری سرانجام دے ، تو اس حوالے سے تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ کام یا ملازمت براہ راست انشورنس کے ناجائز معاملہ سے تعلق رکھتا ہو، تو ناجائز ہے ۔اگر وہ براہ راست انشورنس کے ناجائز معاملے سے متعلق نہ ہو، تو وہ جائز توہے لیکن ایسی ملازمت سے بھی احتیاط کرنا بہتر ہے۔
سوال میں آپ نے اپنی جو ذمہ داریاں لکھی ہیں، جیسے : انشورنس کلیم سے متعلق سوالات کو دیکھنا ، جوبلی انشورنس سے ری ایمبرسمنٹ (مالی نقصان کی تلافی اورواپس ادائیگی) چیک حاصل کرکے ملازمین کو دینا، یا اپنی کمپنی اور انشورنس کمپنی کے درمیان رابطہ قائم کرنا اور سود پر مشتمل پالیسیوں کو دیکھنا وغیرہ ، یہ سب ایسے معاملات ہیں جو براہ راست یا بالواسطہ انشورنس کے ناجائز معاملے پر مشتمل ہیں، لہذا مذکورہ بالا ناجائز امور کی وجہ سے آپ کا ان معاملات میں کام کرنا شرعا جائز نہیں، جتنا جلد ہوسکے اپنی ان ناجائز ذمہ داریوں سے دستبردار ہوں اور کمپنی کے دیگر جائز معاملات میں اپنے فرائض سرانجام دیں ۔ اگر کمپنی آپ کی بات نہ مانے ، بلکہ آپ کو مفوضہ کاموں کے لیے برقرار رکھنے پر اصرار کرے تو اگر دوسری جائز ملازمت نہیں ملتی تو جس قدر انشورنس کے ناجائز معاملات میں تعاون والے کام کا تناسب ہے، اس کے مطابق تنخواہ کا اتنا حصہ صدقہ کرتے جائیں اور استغفار بھی کریں اور جائز کاروبار تلاش کرنے کی کوشش بھی جاری رکھیں ۔
باقی تکافل کے حوالے سے ہمارے دارالافتاء سے ابھی تک جواز کا فتوی جاری نہیں ہوا ہے ۔جوبلی سمیت جو کمپنیاں تکافل کررہی ہیں وہ دارالعلوم کراچی کے فتوی کی بنیاد پر کام کرتی ہیں، لہذا مزید تفصیلات کے لیے ان سے رجوع کیاجاسکتا ہے۔
حوالہ جات
صحيح مسلم للنيسابوري (5/ 50):
عن عبد الله قال لعن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- آكل الربا ومؤكله. قال قلت وكاتبه وشاهديه قال إنما نحدث بما سمعنا.
فقہ البیوع(1065/2):
أما إذا كانت الوظيفة ليس لها علاقة مباشرة بالعمليات الربوية، مثل وظيفة الحارس أو سائق السيارة، أو العامل على الهاتف أو الموظف المسئول عن صيانة البناء، أو المعدات أو الكهرباء، أو الموظف الذى يتمحض عمله في الخدمات المصرفية المباحة، مثل تحويل المبالغ، والصرف العاجل للعملات، وإصدار الشيك المصرفي،أو حفظ مستندات الشحن أو تحويلها من بلد إلى بلد، فلا يحرم قبولها إن لم يكن بنية الإعانة على العمليات المحرمة، وإن كان الاجتناب عنها أولى، ولا يُحكم في راتبه بالحرمة، لما ذكرنا من التفصيل فى الإعانة والتسبب، وفى كون مال البنك مختلطاً بالحلال والحرام. ويجوز التعامل مع مثل هؤلاء الموظفين هبة أو بيعاً أو شراء.
فقه البيوع(1068/2):
وأما قبول الوظيفة فيها،فحكمه و حكم التعامل مع الموظفين فيها مثل حكم الوظائف في البنوك الربوية.
صفی اللہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
14/جمادی الاولی /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | صفی اللہ بن رحمت اللہ | مفتیان | مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |