03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ناسمجھ بچوں کو مسجد لانا اور ان کا نمازیوں کے سامنے گزرنا
85587نماز کا بیانمسجدکے احکام و آداب

سوال

ہمارے گاؤں میں کچھ لوگ نمازوں میں اپنےبچوں کوساتھ لے کر آتے ہیں ،جو نمازیوں کے آگے سےگزرتے ہیں اور نماز کے درمیان ان کے شور کی آواز آتی ہے جس کی وجہ سے گاؤں کے لوگ ناراض ہوتے ہیں،کیا بچوں کے نمازیوں کے آگے سے گزرنے سے نماز میں کوئی خلل آئے گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ایسے چھوٹے بچوں کو تو مسجد لانا جائز نہیں جو اتنے ناسمجھ ہوں کہ انہیں مسجد اور غیر مسجد،طہارت اور نجاست کی تمیز نہ ہو اور ان کی وجہ سے مسجد کی تلویث کا اندیشہ ہو،جبکہ ایسے بچے جن کی وجہ سے مسجد کی تلویث کا اندیشہ تو نہ ہو،لیکن وہ مسجد کے ادب و احترام سے واقف نہ ہوں تو انہیں بھی مسجد لانے سے گریز کرنا چاہیے اور کبھی کبھار مسجد لایا بھی جائے تو سرپرست کی ذمہ داری ہے کہ مسجد لانے سے پہلے انہیں مسجد کے آداب سکھائے اور مسجد لانے کے بعد ان کی نگرانی کرے،انہیں شور مچانے،دیگر نمازیوں کی نماز میں خلل ڈالنے اور ان کے آگے سے گزرنے سے روکے اور اس مقصد کے لئے ایسے بچے کو صف میں اپنے ساتھ کھڑا کرنے کی بھی گنجائش ہے،اگر سرپرست اس میں کوتاہی کرے گا تو اس کا وبال اس کے سر ہوگا،لیکن ان بچوں کے نمازیوں کے آگے سے گزرنے سے نمازیوں کی نماز میں کوئی فساد نہیں آئے گا۔

نیز ایسے بچے جو مسجد کے تقدس اور احترام سے واقف ہوجائیں انہیں مسجد لانا بہتر ہے،تاکہ بچپن سے نمازکا اہتمام ان کی عادت بن سکے۔

حوالہ جات

"الدر المختار " (1/ 656):

"ويحرم إدخال صبيان ومجانين حيث غلب تنجيسهم وإلا فيكره".

قال العلامة ابن عابدین رحمہ ﷲ:" (قوله ويحرم إلخ) لما أخرجه المنذري " مرفوعا «جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم، وبيعكم وشراءكم، ورفع أصواتكم، وسل سيوفكم، وإقامة حدودكم، وجمروها في الجمع، واجعلوا على أبوابها المطاهر» " بحر.

والمراد بالحرمة كراهة التحريم لظنية الدليل. وأما قوله تعالى - {أن طهرا بيتي للطائفين} [البقرة: 125]- الآية فيحتمل الطهارة من أعمال أهل الشرك تأمل؛ وعليه فقوله وإلا فيكره أي تنزيها تأمل

"الدر المختار "(1/ 571):

"(ثم الصبيان) ظاهره تعددهم، فلو واحدا دخل الصف".

قال العلامة الرافعی رحمہ ﷲ:" قال الرحمتي وربما یتعین في زماننا إدخال الصبیان في صفوف الرجال؛ لأن المعہود منہم إذا اجتمع صبیان فأکثر تبطل صلاۃ بعضہم ببعض وربما تعدی ضررہم إلی إفساد صلاۃ الرجال."

"البحر الرائق " (2/ 16):

"وأما الثالث وهو مرور المار في موضع سجود المصلي فإنما لا يفسدها عند عامة العلماء سواء كان المار امرأة أو حمارا أو كلبا أو غيرها لحديث الصحيحين «عن عائشة أنه - صلى الله عليه وسلم - كان يصلي وأنا معترضة بين يديه فإذا سجد غمزني فقبضت رجلي فإذا قام بسطتهما والبيوت يومئذ ليس فيها مصابيح» .

ولقوله - عليه السلام - «لا يقطع الصلاة مرور شيء وادرءوا ما استطعتم فإنما هو شيطان» لكن ضعفه النووي وفي فتح القدير والذي يظهر أنه لا ينزل عن الحسن لأنه يروى من عدة طرق".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

22/جمادی الاولی1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب