03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہر کا بعض شرائط کی بنیاد پر طلاق تفویض کرنا
85556طلاق کے احکامطلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان

سوال

کیافرماتےہیں مفتیان کرام منسلکہ اسٹامپ پیپرکےمطالعےکےبعداِن سوالات کےبارےمیں: میرےشوہرنےجن شرائط پرمجھےطلاق کاحق تفویض کیاتھا،ان میں سےصرف ایک شرط فقط دوماہ پوری کی ہے اور دوماہ تک دس دس ہزارروپےمیرے اکاؤنٹ میں بھیجے،اگرچہ بیس بیس ہزار کی رقم طے تھی،تاہم میں نے ان کے حالات کو دیکھتے ہوئے دس ہزار پر بھی آمادگی ظاہر کردی تھی ۔اس کے علاوہ باقی کوئی شرط پوری نہیں کی۔پوچھنایہ ہےکہ کیامیں اپنے حق کواستعمال کرتے ہوئےاپنےآپ کوطلاق دےسکتی ہوں؟اگرہاں تو اس کی کیا صورت ہوگی؟کیااس کےلیےعدالت سےرجوع کرناضروری ہے جیساکہ اسٹامپ پیپر کے پہلے صفحے پر لکھاہوا ہے ؟یاجن تین مدارس کےنام لکھےہیں اُن سےفتویٰ لیناکافی ہوگا؟ اس شخص کی تحریراسٹامپ پیپرکی شکل میں منسلک ہے،اس کے علاوہ جس وقت یہ شخص ان الفاظ کو تحریر کررہاتھا ساتھ ہی زبان سے ادا بھی کررہاتھا،میرے پاس اس کی ویڈیو بھی موجود ہے۔اس کے باوجودیہ شخص اپنی بات پر قائم نہیں ہے۔یہ اس کاپرانا وطیرہ ہے اور ہمیشہ جب پھنسنے لگتاہے تو مجھے اول فول دھمکیاں دینا شروع کردیتاہے،تاکہ میں اس کےڈراوے میں آکر اپنا حق مانگنا ترک کردوں۔

واضح رہے کہ میں اس شخص کے ساتھ اپنے رشتہ زوجیت کو مزید برقرار نہیں رکھنا چاہتی ہوں،جبکہ اس شخص کا مقصد صرف طے شدہ مہر وغیرہ سے بچنے کے لیے میری طلاق سے راہ فرار اختیار کرنا اور مجھے یوں ہی لٹکائے رکھناہے۔اس شخص کامیرے ساتھ رویہ انتہائی معاندانہ ہےاوراس نے مجھے میرے کوئی حقوق شادی کے شروع کے دنوں سے ہی نہیں دیے۔ابھی میں،گاؤں میں والدین کے(آبائی)گھر میں اکیلے رہ رہی ہوں،میرے والدین شہر میں رہتے ہیں۔ ازراہ کرم فقہ حنفی کی روشنی میں میری راہ نمائی کیجیے! نوٹ:اگردارالافتاء مجھے خود حاضر ہونے کاحکم دے تومیں حاضر ہوجاؤں گی۔ بینواتوجروا !

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ  میں بیوی کے بیان کے  مطابق اگر حقیقتا شوہر نے  اپنی بیوی کو  مخصوص  شرائط کے ساتھ حق طلاق تفویض کیاہےتواگر شوہر ان تمام شرائط یا ان میں سے کسی ایک شرط پر پورا نہ اترے،تو بیوی کو تفویض طلاق کا حق استعمال کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے ،بیوی جب  چاہےخود کو شوہر کے نکاح سے آزاد  کرسکتی ہے۔اس کے لیے عدالت جانے کی یا مفتیان کرام سے پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں۔جس دن اپنے آپ کو طلاق دے دے گی،اس کے بعد عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

حوالہ جات

قال العلامة برهان الدين رحمه الله"والأصل في هذا: أن الزوج يملك إيقاع الطلاق بنفسه فيملك التفويض إلى غيره فيتوقف عمله على العلم؛ لأن تفويض طلاقها إليها يتضمن معنى التمليك، لأنها فيما فوض إليها من طلاقها عاملة لنفسها دون الزوج، والإنسان فيما يعمل لنفسه يكون مالكا."(المحيط البرهاني:240/3)

قال العلامة ابن العابدين رحمه الله:(ولو قالت) في جواب التخيير المذكور (طلقت نفسي أو اخترت نفسي بتطليقة) أو اخترت الطلقة الأولى (بانت بواحدة في الأصح) لتفويضه بالبائن فلا تملك غيره (أمرك بيدك في تطليقة أو اختاري تطليقة فاختارت نفسها طلقت رجعية) لتفويضه إليها بالصريح . (رد المحتار : 3/ 322)

قال العلامة نظام الدين رحمه الله:وإن قال لها أمرك بيدك ينوي ثلاثا فقالت قد اخترت نفسي بواحدة فهي ثلاث كذا في الهداية.

ولو قال أمرك بيدك ونوى الثلاث وطلقت نفسها ثلاثا كان ثلاثا وإن نوى اثنتين فهي واحدة وكذا إذا قالت طلقت نفسي واخترت نفسي ولم تذكر الثلاث فهي ثلاث وكذا إذا قالت أبنت نفسي أو حرمت نفسي وغير ذلك من الألفاظ التي تصلح جوابا ولو قالت طلقت نفسي واحدة أو اخترت نفسي بتطليقة فهي واحدة بائنة كذا في البدائع. إذا جعل أمرها بيدها فاختارت نفسها في مجلس علمها بانت بواحدة وإن كان الزوج أراد ثلاثا فثلاث وإن نوى ثنتين أو واحدة أو لم تكن له نية في العدد فهي واحدة كذا في.....

(الفتاوى الهندية : 1/ 390)

قال العلامة علاءالدين رحمه الله:والمرأة لا تملك الطلاق، وإنما يملكه الزوج إلا أن القاضي يقوم مقام الزوج؛ ولأن هذه الفرقة يختص بسببها القاضي، وهو التأجيل؛ لأن التأجيل لا يكون إلا من القاضي، فكذا الفرقة المتعلقة به كفرقة اللعان.

(وجه) المذكور في ظاهر الرواية أن تخيير المرأة من القاضي ‌تفويض ‌الطلاق إليها، فكان اختيارها الفرقة تفريقا من القاضي من حيث المعنى لا منها، والقاضي يملك ذلك لقيامه مقام الزوج، وهذه الفرقة تطليقة بائنة؛ لأن الغرض من هذا التفريق تخليصها من زوج لا يتوقع منه إيفاء حقها دفعا للظلم والضرر عنها، وذا لا يحصل إلا بالبائن؛ لأنه لو كان رجعيا يراجعها الزوج من غير رضاها، فيحتاج إلى التفريق ثانيا وثالثا، فلا يفيد التفريق فائدته، ولها المهر كاملا، وعليها العدة بالإجماع إن كان الزوج قد خلا بها، وإن كان لم يخل بها، فلا عدة عليها، ولها نصف المهر إن كان مسمى.

 (بدائع الصنائع : 2/ 326)

سعید محمد دین

دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

 15/جمادی الاولی/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعید بن محمد دین

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب