85706 | حدیث سے متعلق مسائل کا بیان | متفرّق مسائل |
سوال
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ایک رات سامان کی حفاظت کر رہے تھے کہ (انہوں نے دیکھا) ایک آدمی آیا اور آتے ہی اس نے غلے وغیرہ کو سمیٹنا شروع کر دیا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسے پکڑ لیا اور کہا، " میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش کروں گا۔" اس آدمی نے جواب دیا " میں غریب ہوں، محتاج ہوں، بال بچے ہیں، مجھ پر مہربانی کریں اور مجھے چھوڑ دیں۔" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ سُنا تو اس پر ترس کھا کر اسے چھوڑ دیا۔ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا، " اے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رات جس شخص کو تم نے پکڑا تھا، اس کا کیا بنا؟" انہوں نے عرض کیا، " یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وہ آدمی بہت غریب تھا۔ جب اس نے اپنی حاجت بیان کی تو میں نے ترس کھا کر اسے چھوڑ دیا۔" اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، " اس نے جھوٹ بولا، اور وہ پھر آئے گا۔" جب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات سُنی تو وہ بہت حیران و پریشان ہوئے۔ حیران اس بات پر کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تفصیلات سے آگاہی کیسے ہوئی؟ اور پریشانی اس امر پر کہ وہ رات کو پھر کیوں آئے گا؟ لیکن جب انہوں نے غور کیا تو وہ سمجھ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے سے واقعہ کی تفصیلات معلوم ہوئیں اور انہیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اس لیے وہ شخص رات کو ضرور آئے گا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رات بھر اس شخص کی تاک میں لگے رہے اور اچانک وہ شخص اسی حلیے میں دوبارہ آ پہنچا۔ اس نے آتے ہی غلہ وغیرہ سمیٹنا شروع کر دیا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فوراً اسے پکڑ لیا اور کہا کہ اب تو میں ضرور تمہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش کروں گا۔ اس آدمی نے پھر وہی جواب دیا کہ مجھ پر مہربانی کریں مجھے چھوڑ دیں، میں بہت غریب آدمی ہوں اور میرے بیوی بچے ہیں۔ میں اب دوبارہ نہیں آؤں گا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جب یہ سُنا تو ان کا دل پسیج گیا اور انہوں نے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسے پھر چھوڑ دیا۔ اگلی صبح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تمہارے قیدی کا کیا بنا؟ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے عاجزانہ انداز میں عرض کی، " یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص نے اپنی حاجت بیان کی، مجھے اس پر رحم آ گیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ یہ سُنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، " اس نے تم سے جھوٹ بولا اور وہ پھر آئے گا۔" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جب یہ جواب سُنا تو وہ کچھ محتاط ہو گئے۔ ذہن کچھ سوچنے لگ گیا۔ رات پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس شخص کا شدت سے انتظار کرنے لگے۔ آج ان کے ارادے کچھ پختہ دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے قدم تیز تیز اٹھ رہے تھے۔ وہ اسی کیفیت میں تھے کہ اچانک ان کی نظر سامان پر پڑی تو انہوں نے دیکھا کہ وہی شخص ایک مرتبہ پھر سامان وغیرہ اٹھا کر لے جانے کے لیے جمع کر رہا تھا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فوراً اس کو پکڑ لیا اور کہنے لگے، " اب تیسری اور آخری مرتبہ ہے۔ تم ہر دفعہ کہتے ہو کہ میں دوبارہ نہیں آؤں گا اور پھر آ جاتے ہو۔" یہ سننا تھا کہ وہ شخص بول پڑا، " مجھے چھوڑ دو، اس کے بدلے میں تمہیں کچھ کلمات سکھاؤں گا۔ جن سے تم کو بہت فائدہ ہو گا۔" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ متوجہ ہوئے اور اسے وہ کلمات بتانے کے لیے کہا۔ وہ شخص کہنے لگا، " دیکھو رات کو تم جب سونے کے لیے بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی " اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم ۔۔۔۔۔" آخر تک پڑھا کرو اور اگر تم ایسا کرو گے تو اللہ رات بھر تمہاری حفاظت کرتا رہے گا اور صبح تک کوئی شیطان تمہارے قریب نہیں آئے گا۔ جب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات سُنی تو فوراً اسے چھوڑ دیا۔ اگلی صبح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ان سے پوچھا کہ اے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تمہارے قیدی کا کیا بنا؟" انہوں نے جواباً عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نے مجھے کچھ کلمات سکھائے ہیں اور اس کا دعویٰ تھا کہ ان کلمات کی بدولت اللہ تعالٰی مجھے نفع پہنچائے گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا، " بات تو سچ کہی مگر وہ نہایت جھوٹا تھا۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا " جانتے ہو تین راتوں سے تم کس سے مخاطب تھے؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " وہ شیطان تھا۔" (حوالہ بخاری شریف) اس واقعہ کی تحقیق اور تخریج مطلوب ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ روایت ، مذکورہ الفاظ کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا ثابت ہے۔امام بخاری نے "صحیح بخاری " میں اس حدیث کی تخریج کی ہے۔ لہذا اس حدیث کی سندصحیح ہے، اور اسے بیان کیا جاسکتا ہے۔
وقال عثمان ُبن الهيثم أبو عمروٍ، حدّثنا عَوفٌ عَن محمّد بنِ سِيرين عَن أبي هُريرة -رضي الله عنه-، قال: وكّلني رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم- بِحفظِ زكاةِ رمضان، فَأتاني آتٍ فجَعل يَحثُو مِن الطعام، فأخذتُه، وقلتُ: وَاللهِ لَأرفعنَّك إلى رسولِ الله -صلّى الله عليه وسلّم-، قال: إنّي محتاجٌ وعليَّ عيالٌ ولِي حاجةٌ شديدةٌ، قال: فخلّيتُ عنه، فَأصبحتُ، فقال النبيُّ -صلّى الله عليه وسلّم-: يا أبا هُريرة، مَافَعل أسِيرُك البارحةَ؟ قال: قلتُ: يا رسولَ الله، شكا حاجةً شديدةً وعِيالاً، فَرحِمتُه، فخلّيتُ سبيلَه، قال: أَما إنّه قد كذَبك، وسيعودُ، فَعرفتُ أنّه سيعودُ، لِقولِ رسولِ الله -صلّى الله عليه وسلّم- إنّه سَيعودُ، فَرصدتُه، فَجاء يَحثُو مِن الطعام، فأخذتُه، فَقلتُ: لَأرفعنّك إلى رسولِ الله -صلّى الله عليه وسلّم-، قال: دَعْنِي؛ فإنّي محتاجٌ وعليَّ عِيالٌ، لا أعودُ، فَرحِمتُه، فخَلّيتُ سبيلَه، فأصبحتُ، فَقال لي رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم-: َيا أبا هُريرة، مَا فَعل أسِيرُك؟ قلتُ: يا رسولَ الله شَكا حاجةً شديدةً وعِيالاً، فَرحِمتُه، فخَلّيتُ سبيلَه، قال: أَما إنّه قد كذَبك، وسَيعودُ، فَرصدتُه الثالثةَ، فجَاء يَحثُو مِن الطعام، فَأخذتُه، فَقلتُ: لَأرفعنّك إلى رسول الله، وهذا آخرُ ثلاثَ مرَّاتٍ، أنّك تَزعمُ لا تَعودُ، ثُمّ تَعودُ، قال: دَعْنِي أُعلِّمُك كَلماتٍ يَنفعُك اللهُ بِها، قلتُ: ما هو؟ قال: إذا أويتَ إلى فِراشِك، فَاقرأْ آيةَ الكرسيِّ: {اللهُ لَا إِلهَ إلّا هُو الحيُّ القيُّومُ}، حَتّى تَختِم الآيةَ، فإنّك لَن يزالَ عَليك مِن الله حافظٌ، وَلا يَقرُبنَّك شَيطانٌ حَتّى تُصبِحَ، فخلّيتًُ سبيلَه، فأصبحتُ، فَقال لي رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم-: مَا فعل أسِيرُك البارحةَ؟ قلتُ: يَا رسولَ الله، زَعم أنّه يُعلّمُني كلماتٍ يَنفعُني اللهُ بِها، فَخلّيت سبيلَه،قالَ: ما هي؟ َقلتُ: قالَ لي: إذا أَويتَ إلى فِراشِك فَاقرأْ آيةَ الكرسيِّ مِن أوّلِها حَتّى تَختِم الآيةَ: {اللهُ لا إِلهَ إلّا هُو الحيُّ القيُّومُ}، وَقالَ لِي: لَن يزالَ عَليك مِن الله حافظٌ، وَلا يَقرُبُك شَيطانٌ حَتّى تُصبِحَ - وَكانُوا أحرصَ شَيءٍ عَلى الخيرِ - فقال النبيُّ -صلّى الله عليه وسلّم-: أمَا إنّه قد صدقَك، وهُو كَذوبٌ، تَعلم مَن تُخاطِبُ مُنذ ثلاثِ ليالِ يَا أبا هُريرة، قَال: لا، قَال: ذاكَ شَيطانٌ".
حوالہ جات
صحيح البخاري، محمد بن إسماعيل البخاري، الطبعة السلطانية،"(كتاب الوكالة، بابُ إذا وكّل رجلاً، فَترك الوكيلُ شَيئاً فأجازَه الموكّل فَهو جائزٌ، وإنْ أقرضَه إلى أجلٍ مسمّى جازَ، رقم الحديث: (3/ 101: 2311).
محمد بلال بن محمدطاہر
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
۱۷/جماد الاولی/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد بلال بن محمد طاہر | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |