85775 | جائز و ناجائزامور کا بیان | غیبت،جھوٹ اور خیانت کابیان |
سوال
آج کل ایک رواج چل نکلا ہے کہ درس نظامی مکمل کرنے والے علماء خود کو مفتی کہلاتے اور لکھواتے ہیں، حالانکہ انہوں نے نہ تو مفتی کا کورس کیا ہوتا ہے اور نہ ہی کسی دارالافتاء میں کام کیا ہوتا ہے۔ کیا اس طرح خود کو مفتی کہلانا جائز ہے؟ کیا یہ گناہ کبیرہ کہلانے والے جھوٹ میں شامل نہیں ہے؟ کیا ایسے امام کے پیچھے نماز جائز ہے؟ براہ کرم قرآن و حديث کی روشنی میں جواب عنایت فرما دیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
"مفتی" آج کل ایک خاص اصطلاح ہے جو ان علماء کےلیے استعمال ہوتی ہے جنہوں نے درس نظامی سے فراغت کے بعد کسی دارالافتاء سے ماہر مفتیان کی نگرانی میں افتاء کا کورس کیاہو۔عام عرف میں جب مفتی بولا جائےتو لوگ یہی سمجھتے ہیں۔ مفتی بننے کےلیے اپنی ذہانت یامحض درسِ نظامی مکمل کرنے پر انحصار کافی نہیں، بلکہ ماہرمفتیان کی زیرنگرانی کام کرنا ضروری ہوتاہے۔
جو لوگ درس نظامی مکمل کرنے کے بعد باقاعدہ کسی مدرسہ سے یا ماہرمفتیان کرام کی نگرانی میں افتاء کا کورس نہیں کر چکے ، محض درس نظامی پڑھنے سے اپنے آپ کو مفتی کہلاتےاور لکھواتے ہیں ، ایسے لوگ دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں اور اپنے ساتھ ایسا عہدہ یالقب لگاتے ہیں جس کے وہ اہل نہیں ،لہذا یہ لوگ جھوٹ میں مبتلا ہیں کیونکہ یہ اپنے بارے میں خلافِ واقعہ خبر دیتےہیں اور اسی کا نام جھوٹ ہےجوکہ گناہ کبیرہ ہے۔ایسے لوگ اگر اس عادت پر اصرار نہ کریں،توبہ واستغفار کرلیں تو ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائزہے۔
نوٹ:سابقہ زمانے میں جب مفتی بننے کےلیےباضابطہ تخصص نہیں ہوتےتھےتو درس نظامی کے فاضل کسی بڑے مفتی کے ساتھ طویل عرصہ گزار کر فنِ افتاء سیکھتےتھے،پھر جب ان کے بڑے اجازت دیتے تھے تو وہ اپنے نام کے ساتھ مفتی لگاتے تھے، لہذا ان کے مفتی کہلانے پر کوئی اشکال نہیں ہوسکتا۔آج بھی اگر کسی علاقےمیں اس سابقہ ترتیب کارواج ہوتو بڑے مفتی صاحب کی اجازت کے بعدنام کے ساتھ مفتی لگانے کی گنجائش ہوگی۔
حوالہ جات
أخرج الإمام البخاري رحمہ اللہ عن مسدد رحمہ اللہ .....عن عبد الرحمن بن أبي بكرة رضي اللہ عنھم، عن أبيه رضي الله عنه، قال:قال النبي صلى الله عليه وسلم: "ألا أنبئكم بأكبر الكبائر"ثلاثا، قالوا: بلى يا رسول الله، قال: "الإشراك بالّلہ ، وعقوق الوالدين - وجلس وكان متكئا، فقال : ألا وقول الزور. قال: فما زال يكررها حتى قلنا: ليته سكت.(البخاری:939/2،رقم الحدیث:2511)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ:فلا بد أن يكون المراد من وجوب معرفة الدليل على المفتي ،أن يعرف حاله حتى يصح له تقليده في ذلك مع الجزم به، و إفتاء غيره به ، و هذا لا يتأتى إلا في المفتي المجتهد، وهو المفتي حقيقة، أما غيره فهو ناقل." (عقود رسم المفتي، ص:(48
و قال رحمہ اللہ تعالٰی أیضًا :(وقد) رأيت في فتاوى العلامة ابن حجر سئل في شخص يقرأ ويطالع في الكتب الفقهية بنفسه ولم يكن له شيخ ويفتى ويعتمد على مطالعته في الكتب فهل يجوز له ذلك أم لا؟ فأجاب بقوله :لا يجوز له الافتاء بوجه من الوجوه؛ لانه عامى ... بل الذى يأخذ العلم عن المشايخ المعتبرين لا يجوز له أن يفتى من كتاب ولا من كتابين..... بخلاف الماهر الذى اخذ العلم عن أهله وصارت له فيه ملكة نفسانية فإنه يميز الصحيح من غيره ...فهذا هو الذي يفتى الناس ويصلح أن يكون واسطة بينهم وبين اللہ تعالى ،وأما غيره فيلزمه إذا تسور هذا المنصب الشريف التعزير البليغ، والزجر الشديد الزاجر ذلك لأمثاله عن هذا الامر القبيح الذى يؤدى إلى مفاسد لا تحصى.(مجموعة رسائل ابن عابدين:(15,16/1
قال العلامۃ مصطفى الزحيلي حفظہ اللہ: المفتي: هو المتفقه، أي: الذي درس الفقه على أحد المذاهب الفقهية، وعرف أحكامه، وصار الناس يقصدونه لمعرفة أحكام الشرع، ويسألونه عن أمور الدين، وقد يعين رسميا من قبل الدولة في وظيفة الإفتاء.وهذا المعنى الأخير هو المراد في هذا العصر.
( الوجيز في أصول الفقه الإسلامي :(379/2
وقال حفظہ اللہ أیضًا: يجب أن يكون المفتي عالمًا بالأحكام الشرعية...ويمكن اليوم أن يتوفر شرط العلم بالحصول على إجازة في الشريعة، أي: في الفقه وأصول الفقه، وما يلحق ذلك من العلوم الفقهية، كالقواعد الفقهية، والنظريات الفقهية، والفقه المقارن.( الوجيز في أصول الفقه:(381/2
قال العلامۃ الطحطاوي رحمہ اللہ: كره إمامة الفاسق العالم؛ لعدم اهتمامه بالدين ،فتجب إهانته شرعا فلا يعظم بتقديمه للإمامة، وإذا تعذر منعه ،ينتقل عنه إلى غير مسجده للجمعة وغيرها ،وإن لم يقم الجمعة إلا هو، تصلى معه. (حاشیۃ طحطاوی ، ص:303، 304)
جمیل الرحمٰن بن محمدہاشم
دارالافتاءجامعۃ الرشید،کراچی
4 جمادی الآخرۃ 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | جمیل الرحمٰن ولدِ محمد ہاشم | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |