86188 | نکاح کا بیان | نکاح کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایسا نکاح پڑھانا کیسا ہے جس میں ایک شخص نے اپنی بیٹی دینے پر پیسے لیے ہوں، کیا اس سے نکاح پڑھانے والاشخص گناہ گار ہوتا ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
بعض جگہوں پر لڑکی کے رشتے کے معاوضے میں اس کےخاندان والے کچھ رقم اپنے لیےوصول کرتے ہیں۔شرعاًیہ رقم لینا جائز نہیں ، فقہائےکرام ؒ نے اسے رشوت قرار دیا ہے۔البتہ نکاح خوان کا اس لین دین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی اس عمل سے نکاح کی صحت پر کچھ اثرپڑتا ہے، لہذاس کی وجہ سےنکاح پڑھانے والا شخص گناہ گار نہیں ہو گا ۔
اگر ممکن ہو توخطبہ کے موقع پر مختصر بیان میں نکاح کی رسوم پر بات کر سکتا ہے۔اس میں فی الجملہ اس رسم پر بھی بات ہو جائےگی۔تاہم موقع محل دیکھ کر بات کرنا ضروری ہے تاکہ اصلاح کے بجائےفساد کی صورت نہ ہو جائے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ: (أخذ أهل المرأة شيئا عند التسليم، فللزوج أن يسترده) لأنه رشوة.
قال العلامۃ ابن عابدين رحمہ اللہ: قوله:( عند التسليم) أي بأن أبى أن يسلمها أخوها أو نحوه حتى يأخذ شيئا، وكذا لو أبى أن يزوجها، فللزوج الاسترداد، قائما أو هالكا ؛لأنه رشوة، بزازية.( رد المختار: 3/ 156)
وفی الفتاوى الهندية:ولو تزوج امرأة على أن يهب لأبيها ألف درهم ، فهذا الألف لا يكون مهرا ، ولايجبر على أن يهب ،فلها مهر مثلها، وإن سلم الألف فهو للواهب، وله أن يرجع فيها إن شاء.
(الفتاوى الهندية: 1/ 308)
وفی الفتاوى الهندية:لو جهز ابنته ،وسلمه إليها ليس له في الاستحسان استرداد منها ،وعليه الفتوى. ولو أخذ أهل المرأة شيئا عند التسليم، فللزوج أن يسترده؛ لأنه رشوة، كذا في البحر الرائق.
( الفتاوى الهندية: 1/ 327)
سخی گل بن گل محمد
دارالافتاءجامعۃالرشید، کراچی
28/جمادی الثانیۃ ،1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سخی گل بن گل محمد | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |