03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیٹی کے عوض پیسے لینے اور نکاح پڑھانے کا حکم
86188نکاح کا بیاننکاح کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایسا نکاح پڑھانا کیسا ہے جس میں ایک شخص نے اپنی بیٹی دینے پر پیسے لیے ہوں، کیا اس سے نکاح پڑھانے والاشخص گناہ گار ہوتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بعض جگہوں پر لڑکی کے رشتے  کے معاوضے میں اس کےخاندان والے کچھ رقم  اپنے لیےوصول کرتے ہیں۔شرعاًیہ رقم لینا جائز نہیں ، فقہائےکرام ؒ نے  اسے رشوت قرار دیا ہے۔البتہ نکاح خوان کا اس لین دین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی اس عمل سے نکاح کی صحت پر کچھ  اثرپڑتا ہے، لہذاس کی وجہ سےنکاح پڑھانے والا شخص  گناہ گار نہیں ہو گا ۔

اگر ممکن ہو توخطبہ کے موقع  پر مختصر بیان میں نکاح کی رسوم پر بات کر سکتا ہے۔اس میں فی الجملہ اس رسم پر بھی بات ہو جائےگی۔تاہم موقع محل دیکھ کر بات کرنا ضروری ہے تاکہ اصلاح کے بجائےفساد کی صورت نہ ہو جائے۔

حوالہ جات

قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ: (أخذ أهل المرأة شيئا عند التسليم، فللزوج أن يسترده) لأنه رشوة.

قال العلامۃ ابن عابدين  رحمہ اللہ: قوله:( عند التسليم) أي بأن أبى أن يسلمها أخوها أو نحوه حتى يأخذ شيئا، وكذا لو أبى أن يزوجها، فللزوج الاسترداد، قائما أو هالكا ؛لأنه رشوة، بزازية.( رد المختار: 3/ 156)

وفی الفتاوى الهندية:ولو ‌تزوج ‌امرأة ‌على ‌أن ‌يهب لأبيها ألف درهم ، فهذا الألف لا يكون مهرا ، ولايجبر على أن يهب ،فلها مهر مثلها، وإن سلم الألف فهو للواهب، وله أن يرجع فيها إن شاء.

(الفتاوى الهندية: 1/ 308)

وفی الفتاوى الهندية:لو جهز ابنته ،وسلمه إليها ليس له في الاستحسان استرداد منها ،وعليه الفتوى. ولو أخذ أهل المرأة شيئا عند التسليم، فللزوج أن يسترده؛ لأنه رشوة، كذا في البحر الرائق.

( الفتاوى الهندية: 1/ 327)

سخی گل بن گل محمد

دارالافتاءجامعۃالرشید، کراچی

28/جمادی الثانیۃ ،1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سخی گل بن گل محمد

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب