03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ترکہ سے حاصل ہونے والے منافع کا حکم
86175میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم  ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! محترم جناب مفتی صاحب !  میرا نام محسن علی ہے۔ میرے والد محترم 11/2/2005 کو وفات پا گئے تھے، ان کی وفات کے وقت میری عمر تقریبا 16 سال تھی اور میں اپنے دو بڑے بھائیوں کے پاس کام کرتا تھا، جن میں سے ایک کا نام جمیل بھائی اور دوسرے کا نام تنویر بھائی ہے، ہماری ایک فیکٹری تھی سول بنانے کی اور ایک دکان تھی جہاں پر ہم وہ سیل کرتے تھے، والد صاحب کی زندگی میں بھی یہی دونوں بھائی کام کو دیکھتے تھے اور چلاتے تھے اور گھر کا خرچ بھی اسی کاروبار سے چلتا تھا اور میں بھی اپنے بھائی کے پاس کام کرتا تھا والد صاحب کے ہوتے ہوئے بھی اور ان کی وفات کے بعد بھی جس کا مجھے مناسب سا جیب خرچ ملتا تھا جس سے بمشکل میں اپنے کپڑے وغیرہ لا پاتا تھا،کھانا گھر سے مل جاتا تھا ،جب والد صاحب فوت ہوئے تو انہوں نے وراثت تقسیم نہیں کی اور اس وقت ہمارے پاس دو عدد پرا پرٹیاں تھیں، ایک چھ مرلہ جس کے نیچے فیکٹری اور اوپر رہائش تھی اور دوسری دکان والی ڈھائی مرلہ تھی اور ان بھائیوں نے دکان والی جگہ پر مارکیٹ بنائی اور وہاں سے کرایہ آنا شروع ہوا، گھر کا خرچ یہی چلاتے تھے ،ساتھ وہاں سے کرایا  ا ٓجاتا تھا جو ان دونوں بھائیوں کے پاس ہوتا تھا اور پھر 2007 میں انہوں نے تین مرلہ ایک مکان خریدا جو والدہ کے کہنے پر ہم چھوٹے بھائیوں کے نام برابر لگا دیا گیا اور پھر اس کے بعد 2010 میں انہوں نے ایک مکان اور خریدا 11 مرلے کا وہ بھی والدہ کے کہنے پر ہم چھوٹے بھائیوں کے نام برابر لگوا دی اور جتنی بھی انہوں نے پراپر ٹیاں خریدیں وہ والد صاحب کے وراثتی کاروبار سے بنائی، 2010 کے بعد انہوں نے اور پراپرٹیاں خریدیں، لیکن وہ ہمارے نام نہیں لگوائیں  وہ ان کے اپنے نام ہیں، پھر تقریبا 2012 کے بعد میں نے ان کے پاس کام کرنا چھوڑ دیا اور اب میں ان سے اپنا وراثتی حصہ مانگتا ہوں تو یہ دونوں بھائی کہتے ہیں کے چھوٹے بھائیوں کا حصہ نہیں بنتا  جو دو مکان ہم نے والد صاحب کے بعد لیے ہیں،  ان میں سے جو دو پہلے والے ہیں ان میں سے بنتا ہے اور وہ بھی جو ان کے اوپر بلڈنگ بنی ہے وہ ہم دونوں بڑے بھائیوں کی ہے صرف پلاٹ کا حصہ چھوٹے بھائیوں کا بنتا ہے اور دوسری جو دو پراپرٹی ہیں وہ تو ہم نے بس والدہ کے کہنے پر نام لگوا دی تھی، اب مجھے شرع کے مطابق یہ جاننا ہے کہ کیا ہمارا چھوٹے بھائیوں کا حصہ چاروں  پراپرٹیوں سے لینا جائز ہے یا نہیں؟ اسلام کی رو سے رہنمائی فرمائی جائے اور جو وراثتی کاروبار تھا اس میں سے بھی بنتا ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ جب تک ترکہ تقسیم نہ کیا جائے  اس سے حاصل ہونے والے منافع تمام ورثہ میں ان کے شرعی حصص کے بقدر  مشترک ہوتے ہیں۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں چھ مرلے کی پراپرٹی جس میں ایک فیکٹری اور اوپر رہائش ہے اور ڈھائی مرلے کی دکان والی جگہ  مرحوم والد کے ترکہ میں شامل ہیں  اور تمام ورثہ میں مشترک ہیں۔ باقی    ڈھائی مرلے کی دکان  والی جگہ پر مارکیٹ اوردیگر  پراپرٹیاں   اگر وراثتی کاروبار کے منافع سے خریدی گئی ہیں (جیسا کہ سائل نے وضاحت کی ہے) تو ان سب  کو  مرحوم والد کا ترکہ سمجھا جائے گا اور تمام ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا، لیکن اگر یہ  وراثتی کاروبار کے منافع سے نہیں خریدی گئیں، بلکہ کسی دوسرے الگ  ذریعہ مثلاً ذاتی منافع یا کوئی اور ذاتی سرمایہ سے خریدی گئی ہیں تو ان  میں دوسرے ورثہ  شریک نہیں ہوں گے  ۔

حوالہ جات

قال العلامۃ علي  حیدر رحمہ اللہ:تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما...وحاصلاتها أيضا يجب أن تكون على هذه النسبة؛ لأن الغنم بالغرم...الحاصلات: هي اللبن والنتاج والصوف وأثمار الكروم والجنائن وثمن المبيع وبدل الإيجار والربح وما أشبه ذلك. (درر الحكام في شرح مجلة الأحكام :3/ 26)

قال العلامۃ برہان الدین المرغیناني رحمہ اللہ: فشركة الأملاك: العين يرثها رجلان أو يشتريانها فلا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بإذنه، وكل منهما في نصيب صاحبه كالأجنبي.

(الهداية في شرح بداية المبتدي:3/ 5)

احسان اللہ

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

/03رجب1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ بن سحرگل

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب