03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کفریہ کلمات کہنے والے سے توبہ کروانا
86696ایمان وعقائدکفریہ کلمات اور کفریہ کاموں کابیان

سوال

پاکستان میں فقہ حنفی کے ایک مفتی ہیں، جن کا نام مفتی اکمل ہے۔ میں نے یوٹیوب پر اُنکی ایک ویڈیو دیکھی ۔مفتیِ صاحب سے کسی نے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص ہمارے سامنے کُفرِیہ الفاظ بولتا ہے تو کیا ہم پر واجب ہے کہ اُسکو بتائیں اور اُس سے توبہ اور تجدیدِ ایمان کروائیں؟تو مفتیِ صاحب نے جواب دیا کہ آگر آپ کو یقین ہے کہ وہ آپ کی بات مان لےگا اوراصلاح قبول کرکےتوبہ اور تجدیدِ ایمان کر لےگا، تو آپ پر فرض ہے کہ آپ اُسے بتائیں اور آگر آپ نہیں بتائیں گےتو  آپ بھی گئے۔ انہوں نے وجہ یہ بتائی کہ۔۔۔۔آپ اسکو نہیں بتا رہے ، حا لاں کہ آپ کو پتا ہے کہ وہ اصلاح قبول کریگا گویا کہ آپ اُسکے کُفر پر راضی ہو گئے پھر آپ کو بھی تجدیدِ ایمان کرنا ہوگا۔

یہ ویڈیو دیکھنے کے بعدمیں کافی پریشان ہوں۔ کیا یہ بات صحیح ہے کہ کوئی شخص ہمارے سامنے کُفرِیہ الفاظ نکالے اور ہم اُسے نہ بتائیں تُو ہم بھی گئے اور پھرہمیں بھی تجدیدِ ایمان کرنا ہوگا ؟

مُجھےاپنے ایک دوست کےبولے ہوئے  تین چار غلط الفاظ جِن سے کُفر  کا اندیشہ ہوتا ہے یاد آرہےہیں، جو میرے سامنے ہی بولے گئے تھے،لیکن پورا جُملہ یاد نہیں آرہا ہے جومیں آپ کو لکھ کر بھیج سکوں۔نيز جب دوست سے یہ  الفاظ سنے تو مجھےاحساس بھی ہوا کہ یہ کُفرِیہ الفاظ ہو سکتے ہیں ،لیکن پھر بھی میں نے کچھ نہیں کہا۔ کیونکہ میں کوئی مفتیِ تو ہوں نہیں  اور  یہ مسئلہ  بہت نازک ہے ۔ چند دن  پہلے ایسے ہی دوست کے منہ سے غلط الفاظ سن لئے، تو میں نے اُسے تھوڑی دیر بعد کہا کہ تمہاری زُبان سے غلط الفاظ نِکل گئے ہیں ،تُم توبہ کرکے احتیاطاً تجدیدِ ایمان کرلو، تووہ کہنے لگا کون سا لفظ نکلا ہے؟مجھے تو یاد  نہیں، تم بتاؤ، پھر میں نے  وہ الفاظ اسے بتائے  تو وہ کہنے  لگا کہ مجھے تو یاد نہیں کہ ایسا  کچھ بولا ہو ۔اب مجھے سمجھ نہیں  آتا میں کیا کروں؟ کیا مجھےتجدیدِ ایمان کرنا ہوگا؟یا پہلے اس دوست سے توبہ کروا کر پھر میں تجدیدِ ایمان کروں؟جب کہ میں وہ الفاظ بھی بھول چکا ہوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

فقہائے کرام نے کلمات کفر کےبارے میں یہ ضابطہ ذکرکیا ہے کہ اگر کسی کلمہ کفر میں ننانوے احتمالات کفر کےنکلتے ہوں اورایک احتمال اسلام اورایمان کانکلتاہو توایسے کلمات کےکہنے والے پر کفر کاحکم نہ لگائیں گے ۔ لہذا اگر کسی نے کوئی کلمہ کہا ہوتو وہ اس کا پور ا پس منظر تفصیل کےساتھ لکھ کربھیجے تاکہ اس کےبارے میں کوئی حتمی رائے قائم کی جاسکے۔باقی رہا مسئلہ کفریہ کلمات کے قائل کی اصلاح اور توبہ کا ، تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ جس وقت کوئی شخص کفریہ کلمات بول رہا ہو، اور  سننے والے کو یہ  گمان ہو کہ اگر میں اس کو  ابھی روکو ں  گا ،تو وہ مشتعل ہو کر مزید  کفریہ الفاظ بولے گا ، تو سننے والا اس کو اسی حالت میں نہ روکے ، اور اگر اس کو گمان ہو کہ اگر میں اس کو روک دوں، تو وہ میری بات مانے گا ، تو سننے والے پر اس کا روکنا واجب ہے ،اوراگر نہ روکا ،تو ترک واجب کا گناہ گار ہو گا۔اگر سننے والے کو گمان ہو کہ میرے روکنے سے وہ مجھےمارے گا ،یامجھے گالیاں دے گا ، اور  میں ان کو برداشت بھی نہیں کرسکتا، یا میرے روکنے سے لڑائی اور فتنہ پیدا ہو گا ، تو اس کو نہ روکنا افضل ہے ،لیکن  اگر وہ اس کی گالیاں یا مار پیٹ برداشت کر سکتا ہے ، تو اس کا روکنا افضل ہے ،اور اگر نہ روکا ،تو اس پر کچھ گناہ نہیں اوراگر اس کا غالب گمان ہو کہ وہ میری بات نہیں مانے گا ، لیکن گالیاں وغیرہ بھی نہیں دے گا ، تو اس کو اختیار ہے ،چاہے اس کو روکے یا نہ روکے،تاہم  روکنا افضل ہے۔ باقی سننے والے کو چاہئے کہ اس کو بعد میں نصیحت کر کے سمجھائے،تا کہ وہ توبہ کرے،البتہ بعد میں بتانا سننے والے کے ذمے واجب نہیں ، کیونکہ گناہ کرنے کے بعد  اس کو بتانا تغییر منکر نہیں ، بلکہ توبہ کی ترغیب ہے ۔

صورت مسئولہ میں اگر کسی شخص نے کفریہ الفاظ کہےتو سننے والے کو چاہئے کہ اس کو بعد میں نصیحت کر کے سمجھائے،تا کہ وہ توبہ کرلے ،البتہ یہ  بتانا سننے والے کے ذمے واجب نہیں ، لہٰذا  اگر  قائل کو توبہ کی ترغیب نہیں دی تو سننے والے کو کوئی گناہ نہ ہوگا ۔

حوالہ جات

الفتاویٰ العالمکیریہ (3/588) :

 إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر، ووجه واحد يمنع، فعلى المفتي أن يميل إلى ذلك الوجه كذا في الخلاصة في البزازية إلا إذا صرح بإرادة توجب الكفر، فلا ينفعه التأويل حينئذ.

وفیہ ایضاً(5/407):

ذکر الفقيه ‘‘فی کتاب البستان’’ أن الأمر بالمعروف علی وجوہ:إن کان یعلم بأکبر رأيه أنه لو أمرہ بالمعروف ،یقبلون ذالک منه ویمنعون عن المنکر ،فالأمرواجب عليه ،ولا یسعه تركه ،ولو علم بأکبر رأيه أنه لو أمرهم بذالک،قذفوہ وشتموہ،فتركه أفضل،وکذالک لو علم أنهم یضربونه ولا يصبر علی ذالک،ویقع بینهم عداوةويهيج منه القتال ،فتركه أفضل،ولو علم أنهم لو ضربوه،صبر علی ذالک ولا یشکو إلی أحد، فلا بأس بأن ینهى عن ذالک وهو مجاهد،ولو علم أنهم لا یقبلون منه ولا یخاف منه ضرباولا شتماً،فهو بالخیار،والأمر أفضل.

منیب الرحمنٰ

دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی

26/رجب /1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

منیب الرحمن ولد عبد المالک

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب