03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جوائنٹ فیملی میں  خرچ کرنے کا اصول
87226شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

ہم  نو بہنیں اور ایک بھائی ہیں ،جوائنٹ فیملی  کے طور پر ایک ساتھ رہتے تھے۔والد صاحب کی زندگی میں بھائی نے  مشترکہ مکان گیارہ لاکھ میں فروخت کرکے  نیا گھر خریدا ،جس کی مالیت بھائی کے بقول اکتالیس لاکھ روپے ہیں، گیارہ لاکھ پرانے مکان کے اور باقی پیسے اپنی طرف سے ملائے۔  نیا گھر دو پورشن پر مشتمل ہیں، ایک پورشن  میں والدین کے ساتھ ہم چار بہنیں  رہتی ہیں اور دوسرے پورشن میں بھائی کی فیملی رہتی ہے۔نیا مکان بھائی نے اپنے نام پر خریدا تھا ، اس کا ہمیں بعد میں پتہ چلا ۔

 والد صاحب کے انتقال کے بعد ہمارا گزر بسر والد صاحب کے پینشن  اور بھائی کے خرچے پر تھا۔خریدے گئے مکان پر بھائی نے رہائش کے کچھ عرصے بعد مرمتی کام کروایا ۔ آج بارہ سال بعد جب گیارہ لاکھ میں سے بہنوں کو حصہ دینے کی بات آئی تو بھائی اپنے دو حصوں کے ساتھ مرمتی کام جو کراوایا ہے اس کا بھی مطالبہ کررہا ہے، جبکہ  یہ اخراجات اس نے اپنی مرضی سے کئے ہیں ہمیں بتائے بغیر  کہ کل کو میں اس کا مطالبہ کروں گا۔

لہذا معلوم کرنا ہے چاہتی ہوں کہ کیا وہ  اپنی خرچ کی گئی رقم لے سکتاہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مشترکہ چیزوں میں خرچ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دیگر شرکاء کی اجازت لے کر خرچ کیا جائے۔ اگر کوئی شخص شرکاء کی اجازت کے بغیر مشترکہ چیز پر خرچ کرے تو شرعاً وہ متبرع (ثواب کی نیت سے خرچ کرنے والا) شمار ہوگا، لہٰذا وہ اپنی خرچ شدہ رقم واپس لینے کا حق نہیں رکھتا۔

لہٰذا، صورتِ مذکورہ میں جب بھائی نے دیگر شرکاء کی اجازت کے بغیر مشترکہ گھر میں اپنی مرضی سے مرمتی کام کروایا، تو شرعاً وہ اس مرمت پر خرچ شدہ رقم واپس لینے کا حق نہیں رکھتا۔ بلکہ گیارہ لاکھ روپے کو تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔

حوالہ جات

«درر الحكام في شرح مجلة الأحكام» (3/ 316):

«المادة (1311) - (إذا عمر أحد الملك المشترك من نفسه أي بدون إذن من شريكه أو القاضي يكون متبرعا أي ليس له أن يأخذ من شريكه مقدار ما أصاب حصته من المصرف سواء كان ذلك الملك قابلا للقسمة أو لم يكن) إذا عمر أحد الملك المشترك من نفسه أي بدون أخذ إذن من شريكه أو القاضي على الوجه المبين في المواد (1310 و 1313 و 1315) يكون متبرعا أي ليس للشريك المعمر أن يأخذ من شريكه مقدار ما أصاب حصته من المصرف سواء كان ذلك الملك المشترك قابلا للقسمة أو لم يكن»

 زاہد خان

دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

15/رمضان 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

زاہد خان بن نظام الدین

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب