03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پانچ بھائیوں کا اپنی اپنی حیثیت کے مطابق رقم ملا کر اجتماعی قربانی کرنا
87687قربانی کا بیانقربانی کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

اگر پانچ بھائی مل کر ایک جانور کی قربانی کریں اور سب اپنی اپنی حیثیت کے مطابق پیسے ملا کر جانور خریدیں، یعنی کچھ بھائی کم اور کچھ زیادہ پیسے دیں، تو کیا اس صورت میں سب کی قربانی درست ہو گی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر ان میں سے ہر بھائی کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہ ہو اور جانور بڑا (گائے یا اونٹ) ہو، تو سب کی قربانی درست ہو گی، اور گوشت کی تقسیم رقم کے حساب سےہوگی۔

اور اگر کسی بھائی کا حصہ ساتویں حصے سے کم ہو، لیکن کسی دوسرے بھائی نے اس کی اجازت سے اس کا بقیہ رقم ادا کرکے اس کا حصہ مکمل کر دیا ہو، تو بھی سب کی قربانی درست ہو گی۔

لیکن اگر کسی ایک بھائی کا حصہ ساتویں حصے سے کم ہو، اور کسی دوسرے بھائی نے اس کی اجازت سے اس کا حصہ مکمل نہ کیا ہو، تو اس صورت میں کسی کی بھی قربانی درست نہیں ہو گی۔ کیونکہ جس کا حصہ ساتویں حصے سے کم ہے، وہ قربانی کے بجائے صرف گوشت حاصل کر رہا ہے، اور قربانی کے ایک ہی جانور میں ایسی تقسیم درست نہیں ہوتی کہ کسی کا حصہ قربت (عبادت) کا ہو اور کسی کا صرف گوشت حاصل کرنے کا۔ لہٰذا جب ایک کی قربانی درست نہ ہوئی تو باقی سب کی بھی نہیں ہو گی۔

زیادہ بہتر یہ ہے کہ جس بھائی کی رقم پورے ایک حصے سے کم ہورہی ہو، دوسرے بھائی اس کو اپنی رقم تحفہ (گفٹ) کر کے اس کا حصہ مکمل کرا دیں، اور پھر وہ بھائی اپنی مکمل حصے کی رقم شامل کرے، اور اس کے بعد جانور خریدا جائے۔

حوالہ جات

المبسوط للسرخسي (12/ 19):

قال: ولا بأس أن يشترك سبعة نفر في بقرة أو بدنة"……. فإن كان الشركاء في البدنة ثمانية لم تجزهم؛ لأن نصيب كل واحد منهم دون السبع، وكذلك إن كان نصيب أحدهم دون السبع، حتى لو سئل عن رجل مات وترك ابنا وامرأة وبقرة وضحى بها يوم العيد هل يجوز؟ والجواب أنه لا يجوز؛ لأن نصيب المرأة الثمن، فإذا لم يجز ثمنها في نصيبها لا يجوز في نصيب الابن أيضا.

فی الأشباہ والنظائر:

 واما الضحایا فلا بد فیہا من النیۃ لکن عند الشراء لا عند الذبح۔ الخ (ص۴۰).

وفی الفتاویٰ الہندیۃ: یجب أن یعلم أن الشاۃ لا تجزیٔ إلا عن واحد، وإن کانت عظیمۃ والبقر والبعیر یجزی عن سبعۃ إذا کانوا یریدون بہ وجہ اللہ تعالیٰ والتقدیر بالسبع یمنع الزیادۃ، ولا یمنع النقصان، کذا فی الخلاصۃ۔ الخ (ج۵، ص۳۰۴).

وفیہ أیضاً:

وإن کانوا کبارا إن فعل بأمرہم جاز عن الکل فی قول أبی حنیفۃ وأبی یوسف رحمہما اللہ تعالیٰ، وإن فعل بغیر أمرہم أو بغیر أمر بعضہم لا تجوز عنہ ولا عنہم فی قولہم جمیعًا؛ لأن نصیب من لم یأمر صار لحما فصار الکل لحما۔ الخ (ج۵،ص۳۰۲)

الھندیۃ: (293/5، ط: دار الفکر):

ولیس علی الرجل أن یضحي عن أولادہ الکبار وامرأتہٖ إلا بإذنہ. (بإذنہم)

بدائع الصنائع: (فصل اما کیفیۃ الوجوب، 67/5، ط: سعید):

ولو ضحی بدنۃ عنہ نفسہ وعن اولادہ فان کانوا صغارا اجزأہ واجزأھم وان کانوا کبارا فان فعل ذلک بامرھم فکذلک وان کان بغیر امرھم لم یجز علی قولھم.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

30/11/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب