03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فسخ نکاح کا شرعی حکم
89316طلاق کے احکاموہ اسباب جن کی وجہ سے نکاح فسخ کروانا جائز ہے

سوال

کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: ایک شخص نے نکاح تو کر لیا مگر کئی سال گزر جانے کے باوجود نہ تو رخصتی کی اور نہ ہی اس کے اسباب مکمل کئے اور کئی سال تک عورت کو لٹکائے رکھا، وقت گزرنے کے ساتھ اس کا رویہ یہ ہو گیا کہ وہ نہ رخصتی پر راضی ہے اور نہ ہی طلاق کے بار ہا مطالبے کے باوجود یہ شخص طلاق دینے پر آمادہ ہے۔ اب عورت کی طرف سے یہ مقدمہ خلع نامہ کے طور پر چئیر مین ثالثی کونسل بہاولپور میں دائر کرایا گیا، جس میں شخص مذکور کے انکار کی دو گواہان سے گواہی بھی لی گئی۔ بعد ازاں ثالثی کونسل نے پہلے انفرادی طور پر اس کے گھر میں نمائندہ کے ذریعے سے کئی مہینے تک برابر نوٹس طلبی بھیجے لیکن یہ شخص حاضر نہ ہوا تو آخر میں انہوں نے عوامی سطح پر اخبار پیس کے ذریعے آخری وارننگ کے طور پر طلبی نوٹس جاری کیا، اس کے باوجود بھی یہ شخص وہاں پر حاضر نہ ہوا، آخر کار ثالثی کونسل کے یک طرفہ فیصلے و کارروائی کے نتیجے میں یہ مقدمہ عورت کے حق میں ہونے کے بعد فسخِ نکاح کا حکم عورت کے حق میں جاری ہو گیا اور چئیر مین ثالثی کونسل حکومتِ پاکستان کی طرف سے عورت کو طلاق کا سرٹیفیکیٹ سپرد کر دیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ: 1 اگر ثالثی کونسل نے فسخِ نکاح کا فیصلہ کر دیا ہو تو کیا یہ نکاح شرعاً ختم سمجھا جائے گا یا باقی ہے؟ اور اگر مذکورہ شخص ثالثی کونسل کی طرف سے فسخ شدہ نکاح کے بعد یہ کہے کہ “اب میں رخصتی کرنا چاہتا ہوں” تو کیا پہلے والا نکاح برقرار رہے گا یا فسخ کے بعد نیا نکاح کرنا لازم ہوگا؟ اسی طرح کیا عورت اس صورت میں کسی دوسرے شخص سے نکاح کر سکتی ہے یا نہیں؟ 2 اگر شخص مذکور کا طلاق نہ دینے کا انکار کسی مطالبے یا حق کی وجہ سے ہو، مثلاً: وہ کہے کہ “میری منکوحہ یا اس کے والدین و خاندان کے ذمہ میرا اتنے لاکھ روپے قرض ہے، وہ واپس کرے تو میں طلاق دوں گا، باقی نہ ہی رخصتی کرنی ہے نہ ہی بصورت دیگر طلاق دینی ہے” اور عورت اس صورت میں فسخِ نکاح کروالے تو کیا اس مطالبے (قرض یا حق) کا اس فسخ کے حکم پر کوئی اثر ہوگا؟ یا پھر انکار کے وہی اصول برقرار رہیں گے جو عام حالت میں ہوتے ہیں؟ 3 اگر مذکورہ شخص کا مطالبہ ظلم اور سراسر جھوٹ اور غلط بیانی پر مبنی ہو تو کیا حکم ہے ؟ اور اگر واقعی یہ مطالبہ سچ اور شرعاً ثابت شدہ قرض یا حق ہو، تو کیا اس صورت میں بھی شخص مذکور کے انکار کے اپنے اصول باقی رہیں گے؟ اور مطالبہ و قرض اپنے الگ شرعی حقوق برقرار رکھیں گے؟ یا پھر جائز مطالبہ ہونے کی وجہ سے شخص مذکور کے انکار پر اس کے کچھ اثرات مرتب ہوں گے؟ 4 ثالثی کونسل حکومت پاکستان کا فسخ شرعاً معتبر ہے یا نہیں؟ مندرجہ بالا صورتِ حال کے بارے میں فقہ حنفی کی روشنی میں ایسی واضح، مدلل اور معتبر فقہی رہنمائی فرمائیں کہ ہر جزئی کی دلیل معتمد کتب کی عربی عبارت کے ذریعے سے ذکر کی گئی ہو۔ بینوا توجرا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر ذکر کردہ صورتِ حال واقعی درست ہے تو ثالثی کونسل کا فسخِ نکاح کا فیصلہ شرعاً معتبر شمار ہوگااور میاں بیوی کے درمیان ایک طلاقِ بائن واقع ہو جائے گی۔ایسی صورت میں اگر دونوں دوبارہ نکاح  پر راضی ہوں تو نئے  سرے سےنکاح کر سکتے ہیں۔ اور اگر عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح کرنا چاہے تو اُسے بھی شرعاً اجازت ہے۔نیز مذکورہ شخص کے والدین پر قرض ہویا نہ ہو اس وجہ سے فسخ نکاح پر اثر نہیں پڑے گا ،کیونکہ قرض الگ معاملہ ہےجو فسخ نکاح کے بعد بھی کیا جاسکتا ہے۔

حوالہ جات

المبسوط للسرخسي (7/ 20):

قوله تعالى {فأمسكوهن بمعروف أو سرحوهن بمعروف} [البقرة: 231]، والإمساك بالمعروف بالمجامعة في المدة...هناك لا تقع الفرقة إلا بتفريق القاضي بل أولى؛ لأن الزوج هناك معذور وهنا هو ظالم متعنت، والقاضي منصوب لإزالة الظلم فيأمره أن يوفيها حقها، أو يفارقها،فإن أبي ناب عنه في إيقاع الطلاق وهو نظير التفريق بسبب العجز عن النفقة على قوله.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 187):

فالحكم الأصلي لما دون ‌الثلاث ‌من ‌الواحدة ‌البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد.

الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية (1/ 524):

إن اختارت الفرقة أمر القاضي أن يطلقها طلقة بائنة فإن أبى فرق بينهما هكذا ذكر محمد - رحمه الله تعالى - في الأصل كذا في التبيين والفرقة تطليقة بائنة.

محمد طلحہ فلک شیر

دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی

21/جمادی  الثانیۃ 1447ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طلحہ ولد فلک شیر

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب