021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بروکر کا خریدار کو دھوکہ دینے کا حکم
57992اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلدلال اور ایجنٹ کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بروکر زمین بیچنے والے سے ایک قیمت طے کرتے ہیں اور پھر خریدار کو اس سے زیادہ قیمت زمین کی بتاتے ہیں مثلا ایک زمین بیچنے والا 10 لاکھ میں بیچنے کے لیے تیار ہے، اب بروکر خریدار کو اس زمین کی قیمت ساڑھے 10 لاکھ روپے بتاتا ہے اور 50 ہزار روپے بروکر کی جیب میں جاتے ہیں تو کیا اس طرح بروکر کی کمائی حلال ہے اور یہ بیع درست ہے۔ o

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں بروکر کے لیے اس طرح اجرت طے کرنا درست نہیں ہے۔ اس کی متبادل صورتیں مندرجہ ذیل ہیں: 1. پہلی صورت یہ ہے کہ بروکر زمین کے مالک سے صراحۃً اجازت لے لے کہ میں اس زمین کو ساڑھے دس لاکھ میں بیچ کر پچاس ہزار اپنی کمیشن کے طور پر لونگا اور دس لاکھ تجھے دونگا۔ 2. یہ صورت بھی جائز ہے کہ بروکر زمین کے مالک سے مذکورہ قیمت پر پہلے زمین خود خریدلے اس کے بعد گاہک کو اپنی طرف سے جتنی رقم پر وہ زمین بیچنا چاہے بیچ دے۔ 3. یہ صورت بھی جائز ہے کہ بروکر خریدار کو واضح طور پر بتادے کہ اس زمین کی قیمت دس لاکھ ہے، مگر میں تم کو دلانے کے پچاس ہزار روپے بطور کمیشن اضافی بھی لونگا۔ اس طرح وضاحت کے بعد اگر خریدار ساڑھے دس لاکھ دینے پر راضی ہو تو اس میں بھی شرعاً کوئی حرج نہیں۔
حوالہ جات
"والخامس اجارة السمسار لايجوز ذلك وكذلك لو قال بع هذا الثوب بعشرة دراهم فما زاد فهو لك وان فعل فله اجر المثل ولو استأجر السمسار شهرا ليبيع له أو ليشتري بكذا من الاجر جاز ذلك" (النتف في الفتاوى للسغدي2/575 ط:دار الفرقان) "(المادة 578) لو أعطى أحد ماله لدلال , وقال بعه بكذا دراهم فإن باعه الدلال بأزيد من ذلك فالفضل أيضا لصاحب المال , وليس للدلال سوى الأجرة." (مجلة الأحكام العدلية,ص: 107,ط : نور محمد ، كراتشي) "إذا باع الدلال متاعاً لأحد بثمن أزيد من الثمن الذي أمره به فالزيادة لصاحب المتاع وليس للدلال سوى الأجرة." (مرشد الحيران ,ص: 85,ط : المطبعة الكبرى الأميرية) "قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة." (حاشية الدر ابن عابدين :6/ 63,ط : دار الفكر) "وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف، وتمامه في شرح الوهبانية" (الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 400)دارالكتب العلمیۃ) "وقال (إن غره) أي غر المشتري البائع أو بالعكس أو غره الدلال فله الرد (وإلا لا) وبه أفتى صدر الإسلام وغيره" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)5/143ط:دارالفکر بیروت)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب