021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فسخ اجارہ کے لیے جانبین کی رضامندی ضروری ہے
60128/56-2اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

2007میں کام بڑھ جانے کی وجہ سے ہم نے ایک گودام کرایے پر لیا تھا ۔25 سال کی مدت جانبین کی رضامندی سے طے ہوئی تھی، جو کرایہ طے ہوا تھا اس میں سے نصف یکمشت اور باقی نصف ماہانہ طے شدہ قسط کے طور پر ادا کیا جارہا ہے۔9 سال اور چند ماہ گزرے ہیں،مالک کہتا ہے کہ مجھے پیسوں کی ضرورت ہے اس لیے میں اسے بیچ رہا ہوں۔ہم تیار نہیں ہیں۔اس نے کہا کہ آپ شرعی حکم معلوم کرلو دونوں فریق اس کے پابند ہوں گے۔مفتی صاحب!آپ سے ایک مجبوری بھی عرض کردوں کہ فوری طور پر کسی دوسرے گودام کا انتظام بہت مشکل ہوتا ہے پورا بزنس متاثر ہوجائے گا،از راہِ کرم رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکور تفصیل کے مطابق یہ عقد اجارہ ہے اور عقد اجارہ لازم ہوتا ہے،کوئی بھی ایک فریق دوسرے فریق کی رضامندی کے بغیر اس کو فسخ نہیں کرسکتا ۔اس لیے مالک پر معاہدہ کی پابندی شرعاً لازم ہے لہٰذا سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق 25 سال کی مدت گزرنے سے پہلے مالک کسی اور شخص کو یہ گودام نہیں بیچ سکتا اور نہ ہی کرایے پر دے سکتاہے۔لیکن اگر مالک مجبور ہے اور عذر ایسا ہے کہ اس جگہ کو بیچے بغیر وہ عذر زائل نہیں ہوسکتا مثلاً مالک پر اتنا قرضہ آجائے کہ قرض کی ادائیگی کے لیے سوائے اس جگہ کے بیچنے کے اور کوئی صورت نہ ہو تو عدالت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اس اجارہ کو فسخ کردے،یا ایسی کوئی صورت درپیش ہو کہ اگر عقد اجارہ کو باقی رکھا جائے تو مالک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہو تو ایسی صورت میں بھی عدالت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اجارہ کو فسخ کردے۔ایسی صورت میں عدالتی چارہ جوئی کی کلفت میں پڑنے کے بجائے مناسب ہے کہ کرایہ دار مالک کی واقعی مجبوری کا لحاظ کرکے از خود معاملہ ختم کرنے پر آمادہ ہوجائے اور مالک کو چاہیے کہ کرایہ دار کو مناسب متبادل جگہ ڈھونڈنے تک مہلت دے۔
حوالہ جات
البناية شرح الهداية (10/ 348) وكذا إذا أجر دكانا أو دارا ثم أفلس ولزمته ديون لا يقدر على قضائها إلا بثمن ما أجر فسخ القاضي العقد وباعها في الديون؛ لأن في الجري على موجب العقد إلزام ضرر زائد لم يستحق بالعقد وهو الحبس؛ لأنه قد لا يصدق على عدم مال آخر. ثم قوله فسخ القاضي العقد إشارة إلى أنه يفتقر إلى قضاء القاضي في النقض، وهكذا ذكر في الزيادات في عذر الدين. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 76) تفسخ بالقضاء أو الرضا (بخيار شرط ورؤية) كالبيع… البناية شرح الهداية (10/ 146) (وليس للمستعير أن يؤجر ما استعاره، فإن أجره فعطب) ش: أي هلك م: (ضمن؛ لأن الإعارة دون الإجارة) ش: لأن الإجارة عنده لازم دون الإعارة م: (والشيء لا يتضمن ما هو فوقه) ش: أي لا يستتبع ما هو فوقه؛ لأن القوي لا يجعل تابعًا للضعيف. البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 3) وصفتها(الاجارۃ) أنها عقد لازم وفي العناية ويثبت في الإجارة خيار الشرط والرؤية والعيب كما في البيع اهـ.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب