021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدالتی نکاح حکم
56550نکاح کا بیاننکاح کے منعقد ہونے اور نہ ہونے کی صورتیں

سوال

محترم مفتی صاحب سوال یہ ہے کہ میں نے عدالت میں نکاح کیا ہے ، نکاح کے وقت کمرہ عدالت میں تقریبا دس لوگ موجود تھے ، لیکن میرے نکاح نامہ میں جن گواہوں کا نام لکھا گیاتھا وہ وکیل صاحب نے اپنی طرف سے لکھے تھے ، جن کا نام لکھا گیا تھا وہ موقع پر موجود نہیں تھے ، جس لڑکی سے میرا نکاح ہوا ہے اس کا نام کوثر بی بی ہے ، لڑکی میرے خاندان یعنی میرے ابو کی پھوپھی کی بیٹی ہے ،ان کا اور ہمارا ایک ہی پیشہ ہے کاشتکاری ،اس سے پہلے میرا نکاح ایک اور لڑکی سے بھی جس سے میری اولاد نہیں ہوئی ،اور جو میں نے عدالت میں نکاح کیا ہےاس پر میرے اور لڑکی والدین کی کوئی رضامندی نہیں ۔ اب فتوی دیاجائے جو میں نے نکاح عدالت میں کیا یہ نکاح ہوا ہے یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت مطہرہ میں نکاح کا پسند یدہ طریقہ یہ ہے کہ والدین اور سر پرست حضرات ہی سربراہی اور اعتماد میں لیکر نکاح کیا جائے ،ان کو بے خبر رکھ کر بالا بالا لڑکی اور لڑکے کا آپس میں نکاح کرلینا شرعا اور عرفا بہت معیوب بات ہے اس سے بچنا چاہئے ،تاہم اگر کوئی ہم پلہ خاندانی لڑکا اور لڑکی باہمی رضامندی سے مہر مثل کے ساتھ دوشرعی گواہوں کی موجودگی میں مجلس نکاح باقاعدہ ایجاب و قبول کے ساتھ نکاح کرلے تو نکاح منعقد ہوجاتا ہے ، دو شرعی گواہ ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ گواہ نکاح کی مجلس میں حاضر ہوں اور یہ سمجھ رہے ہوں کہ ان دونوں لڑکےاور لڑکی کے درمیان نکاح ہورہا ہے ، اور ایک ہی مجلس میں دونوں کے ایجاب وقبو ل کو سنیں ۔ صورت مسئولہ میں بھی اگر مذکورہ بالا صورت پائی گئی ہے تو یہ نکاح منعقد ہوگیا ہے ،ان کاآپس میں میاں بیوی کی حثیت سے زندگی گذار نا جائز ہے۔
حوالہ جات
رد المحتار (9/ 233) ( و ) شرط ( حضور ) شاهدين ( حرين ) أو حر وحرتين ( مكلفين سامعين قولهما معا ) على الأصح ( فاهمين ) أنه نكاح على المذهب بحر ( مسلمين لنكاح مسلمة ولو فاسقين أو محدودين في قذف أو أعميين أو ابني الزوجين أو ابني أحدهما ، وإن لم يثبت النكاح بهما ) ( قوله : فاهمين إلخ ) قال في البحر : جزم في التبيين بأنه لو عقدا بحضرة هنديين لم يفهما كلامهما لم يجز وصححه في الجوهرة ، وقال في الظهيرية : والظاهر أنه يشترط فهم أنه نكاح واختاره في الخانية فكان هو المذهب ، لكن في الخلاصة : لو يحسنان العربية فعقدا بها والشهود لا يعرفونها اختلف المشايخ فيه والأصح أنه ينعقد .ا هـ . لقد اختلف التصحيح في اشتراط الفهم .ا هـ .وحمل في النهر ما في الخلاصة على القول باشتراط الحضور بلا سماع ولا فهم : أي وهو خلاف الأصح كما مر ، ووفق الرحمتي بحمل القول بالاشتراط على اشتراط فهم أنه عقد نكاح والقول بعدمه على عدم اشتراط فهم معاني الألفاظ بعدما فهم أن المراد عقد النكاح۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / فیصل احمد صاحب