کیا فرماتے ہیں علماء دین اس صورت مسئلہ میں کہ
آج کل جہاں مختلف اداروں نے اپنے اپنے مقاصد کی تکمیل اور عوام الناس کی سہولت کے لئے اجتماعی قربانی کا سلسلہ شروع کیا ہواہے وہاں کچھ لوگوں نے اس سہولت کو بھی کمر شل بنیادوں پر اپنے ذاتی مقاصد کی تکمیل اور رقم بٹور نے کا ذریعہ بنالیا ہے ۔ مشاہدہ میں آیا ہے کہ چند حضرات چترال ودیگر شمالی علاقہ جات کے نام پر اجتماعی قربانی کے لئے فی حصہ 3500روپے وصول کرتے ہیں یوں فی جانور ان کے پاس 24500روپے کی خطیر رقم جمع ہوتی ہے ، اس طرح یہ حضرات 400 جانوروں کی اجتماعی بکنگ کرتے ہیں ۔قربانی میں حصہ ملانے والے عمومی طبقہ کا خیال ہوتا ہے کہ یہ حضرات شمالی علاقوں میں جانور خرید کر مستحقین میں گوشت تقسیم کردیتے ہونگے جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ یہ حضرات فی گائے اپنا 6000یا 7000ہزار روپے بطور کمیشن رکھ کر بقیہ رقم تقریبا 18000،17000روپے شمالی علاقہ جات میں موجود اپنے ایجنٹوں کو بھیجوا دیتے ہیں کہ یہ رقم مستحقین کو قربانی کے لئے دیدیں ۔ اور یوں 25سے 30لاکھ روپے کی آمدنی لے کر خود بری الذمہ ہوجاتے ہیں ۔یہ آمدنی بھی اس صورت میں ہےجکہ 400 جانوروں کی قربانی سو فیصد ہو جائے ورنہ تو زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں ۔ اب یہ ایجنٹ کبھی تو مستحق گھرانے کو رقم پوری دے دیتاہے کہ اس سے آپ قربانی کا جانور خرید لیں یا اس رقم سے بھی اپنا کمیشن رکھ کر کسی اور ایجنٹ کو رقم دےدیتاہے یوں یہ سلسلہ دراز ہوتاہے ۔اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ جس مستحق گھرانہ کو قربانی کے لئے رقم ملتی ہے وہ رقم قربانی کے جانور کی خریداری کے انتہائی ناکافی ہوجاتی ہے کیونکہ اس وقت شمالی علاقہ جات میں مہنگائی کی وجہ سے اس رقم جانور ملنا تقریبا ناممکنات میں سے ہے ،
اب مجبورا وہ گھرانہ اس رقم میں اپنی طرف سے رقم ملاکر جانور خریدتا ہے اور قربانی کرتا ہے اوربعض گھرانے تو اس قابل بھی نھیں ہوتے کہ اس میں رقم ملا سکیں ۔اس صورت وہ موصولہ رقم بھی قربانی کی بجائے کسی اور مصرف میں خرچ ہونے کا قوی امکان موجود ہے اب پوچھنا یہ ہے۔
١۔آیا اس طرح اجتماعی قربانی میں حصہ لینا جائز ہے؟چوں کہ ان باتوں کا علم اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والوں کو نہیں ہوتا تو کیا ان کی طرف سے قربانی ہوجائے گی یانہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
١۔سوال جن لوگوں سے متعلق ہے ان کا موقف ہمارے سامنے نہیں ، تاہم اگر سوال کے مندرجات حقیقت کے مطابق
ہو ں تو جواب یہ ہے کہ اجتماعی قربانی کا مطلب یہ ہے کہ گائے ،بھینس ،اونٹ وغیرہ بڑے جانورکی قربانی میں سات افراد کاشریک ہونا ،شرعا اس کی اجازت ہے کہ بڑے جانور کی قربانی میں سات افرادتک شریک ہوکر قربانی کریں ،البتہ اس کے لئے چند شرائط ہیں ۔
١۔سب حصہ داروں کی رقم برابر ہو ،کم وزیادہ نہ ہو۲۔سب کا ارادہ اللہ تعالی کے نام پرقربانی کرنااور ثواب حاصل کرنا ہو صرف گوشت کی نیت سے شرکت نہ کریں ،۳۔ سب حصہ دار مسلمان ہوں،۴ ۔ کسی حصہ دار کی رقم خالص حرام کی نہ ہو
حوالہ جات
الجامع الصحيح سنن الترمذي (3/ 101)
حدثنا قتيبة حدثنا مالك بن أنس عن أبي الزبير عن جابر قال نحرنا مع النبي صلى الله عليه وسلم عام الحديبية البقرة عن سبعة والبدنة عن سبعة قال وفي الباب عن بن عمر وأبي هريرة وعائشة وابن عباس قال أبو عيسى حديث جابر حديث حسن صحيح والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم يرون الجزور عن سبعة والبقرة عن سبعة وهو قول سفيان الثوري والشافعي وأحمد وروي عن بن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم أن البقرة عن سبعة والجزور عن عشرة وهو قول إسحاق واحتج بهذا الحديث حديث بن عباس إنما نعرفه من وجه واحد
رد المحتار (26/ 214)
( أو سبع بدنة ) هي الإبل والبقر ؛ سميت به لضخامتها ، ولو لأحدهم أقل من سبع لم يجز عن أحد ،
الهداية في شرح بداية المبتدي (4/ 360)
وإن كان شريك الستة نصرانيا أو رجلا يريد اللحم لم يجز عن واحد منهم" ووجهه أن البقرة تجوز عن سبعة، ولكن من شرطه أن يكون قصد الكل القربة وإن اختلفت جهاتها كالأضحية والقران والمتعة عندنا لاتحالمقصودوهوالقربة،
رد المحتار (26/ 256)
( وإن ) ( كان شريك الستة نصرانيا أو مريدا اللحم ) ( لم يجز عن واحد ) منهم لأن الإراقة لا تتجزأ هداية لما مر .
لہذاصورت مسئولہ میں اگر رقم کم ہونے کی وجہ سے غریب کو اپنی طرف سے رقم ملانے کی ضرورت پڑجائے یا وہ قربانی ہی نہ کرے ،بلکہ رقم اپنی ضروریات میں خرچ کردے دونوں صورتوں میں قربانی کرنے والوں کی قربانی نہیں ہوگی، ان پر لازم ہے کہ دوبارہ قربانی کریں ، اگر قربانی کا وقت نکل گیا تو ہر حصہ کے عوض میں ایک متوسط بکری کی قیمت صدقہ کریں ۔
﴿نوٹ﴾دوبارہ قربانی کا حکم اس صورت میں ہے کہ کسی معتبر ذریعہ سے یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ ان کی رقم سے قربانی نہیں ہوئی ہے ۔