021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بچوں کی پرورش اور تحویل میں لینے کا حکم
78081نان نفقہ کے مسائلبیوی کا نان نفقہ اور سکنہ ) رہائش (کے مسائل

سوال

مفتی کرام, میری سابقہ بیوی جس کو ناشزہ ہونے پرمکمّل طلاق ہوچکی ہے،ان سے ٤ بیٹیاں ہیں،جن میں سب سےبڑی ساڑھےسات سال(چاند کے اعتبار سے)اوربقیہ تینوں ٤ سال کی ہیں،علیحدگی سےقبل ہی ان کوباپ کےخلاف ورغلایااورتب سےاب تک باپ کوان سے ملنے اوربات کرنےسےمکمّل روک دیاگیاہے،ماں نےمجھےبرا انسان دکھاکربہت الزمات لگائےتوانکے ہاں سب نے مجھ سےرابطہ منقطع کردیاہے،لہذا بچوں کی کوئی خبرمجھےنہیں ہےاورمجھےڈرہےکےوہ یہ شہر چھوڑ کرنہ بھاگ جائیں اورانکوبالغ ہونےپربھی میرےحوالےنہ کریں،کیونکہ شریعت پروہ لوگ عمل پیرا نہیں،بچیوں کی نگہداشت میں میراکافی حصّہ تھا،اسکےعلاوہ انکی دیکھ بھال وتربیت نوکرانی کےحوالےرہی ہے،جبکہ شروع سےہی ماں شدیدغفلت کرتی آئی ہے،جیسے صفائی ستھرائی میں اورکھلانےپلانےمیں کوتاہیاں،جس سےبچوںکااکثربیماررہنا,اکیلےلڑکیوں کوگھرسےباہرکھیلنےبھیج دینا,انگریزی لباس کثرت سےپہنانا,بےجاسمارٹ فون کااستعمال,نامحرم مردوں سےباتیں کرنااوربچوں پراپناغصّہ نکالنا وغیرہ۔اس لئےعلما کرام سےرہنمائی چاہتاہوں کہ شریعت کےرو سےدوباتیں معلوم کرنی ہیں:

 ۱۔کیا میری مذکورہ صورت حال میں جائز ہے کہ اس وقت میں اپنی چاروں بیٹیوں یا پھر صرف بڑی کو زبردستی اپنی تربیت میں لے سکوں؟جبکہ انکی تربیت, جسمانی و ذہنی صحت کی خرابی, باپ کے لئے نفرت اور بھگا لیجانے کا ڈر مجھے ستارہا ہے۔

۲- نہ لینے کی صورت میں مجھے کتنا عرصۂ انتظار کرنا ہوگااورکیا میرے لئے جائز ہوگا کہ رابطہ نہ ہونے کی صورت میں بچوں کا نان نفقہ روک دوں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ماں کو لڑکی کے پرورش کا حق نو سال تک ہے اور لڑکے کی پرورش کا حق سات سال تک ہے ،لہذا اس سے قبل جب تک والدہ  بچےکے غیر ذی رحم محرم سے شادی نہ کرلے یا اس سے  بچے کی دینی تربیت متاثر ہونے کا اندیشہ نہ ہو یا جسمانی لحاظ سے ضیاع کا خطرہ نہ ہو یا بچے کی تربیت پر اجرت طلب نہ کرے تو اس قسم کے عوارض کے بغیروالد کو مقررہ میعاد سے پہلےبچےکو اپنی تحویل میں لینے کا حق نہیں۔(احسن الفتاوی:ج۵،ص۴۵۷)

لہذا تفصیل بالا کی روشنی میں آپ کے لیے  موجودہ صورت حال میں کسی بھی بچی کو ازخود لے لینا جائز نہیں، البتہ اگر  حالات وقرائن سے اس بات کا ظن غالب ہوجائے کہ اگر ان کو ماں کے یا سسرال کے پاس رہنے دیا گیا تو اس سے بچوں کی دینی حالت وتربیت یا جسمانی صحت واضح طور پر متاثرہوگی تو ایسی صورت میں آپ  عدالت کاسہارالے کران کواپنی تحویل میں لے سکتے ہیں،اوراس صورت حال میں  تحویل میں لینے کے لیے دباؤ  کے طور پربچوں کا نفقہ روکنا بھی شرعا درست ہوگا،جبکہ اس سے مقصد حاصل ہونے کی امید ہو ورنہ نفقہ روکنا جائز نہ ہوگا۔اسی طرح والدہ کی ناحق دخل اندازی روکنے کے لیے بھی عدالت کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 556)
(إلا أن تكون مرتدة) فحتى تسلم لأنها تحبس (أو فاجرة) فجورا يضيع الولد به كزنا وغناء وسرقة ونياحة كما في البحر والنهر بحثا.
قال المصنف: والذي يظهر العمل بإطلاقهم كما هو مذهب الشافعي أن الفاسقة بترك الصلاة لا حضانة لها. وفي القنية: الأم أحق بالولد ولو سيئة السيرة معروفة بالفجور ما لم يعقل ذلك (أو غير مأمونة) .
 (قوله: ما لم يعقل ذلك) أي ما لم يعقل الولد حالها، وحينئذ يجب تقييد الفجور بأن لا يلزم منه ضياع الولد كما لا يخفى. وفي النهر: ما لم تفعل ذلك، وفسره بقوله أي ما لم يثبت فعله عنها وهو صحيح أيضا اهـ ح. وفيه أن قول القنية " معروفة بالفجور " يقتضي فعلها له ط فالمناسب الأول وتكون الفاجرة بمنزلة الكتابية، فإن الولد يبقى عندها إلى أن يعقل الأديان كما سيأتي خوفا عليه من تعلمه منها ما تفعله فكذا الفاجرة. وقد جزم الرملي بأن ما في النهر تصحيف.
والحاصل أن الحاضنة إن كانت فاسقة فسقا يلزم منه ضياع الولد عندها سقط حقها وإلا فهي أحق به إلى أن يعقل فينزع منها كالكتابية.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۵ربیع الثانی۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب