021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
”جاؤ تم آزاد ہو، میں نے تمہیں آزاد کیا”،کہنے کا حکم
77685طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

گزشتہ دنوں کسی معمولی بات پر میری اور اہلیہ کی لڑائی ہوئی،ہماری اکثر ایسی لڑائی ہوتی ہےاور ہم رات کو ایک دوسرے کو منا کرسو جاتے ہیں،جس دن یہ لڑائی ہوئی اس دن غصے میں میں نے اہلیہ کو ان کا موبائل دیتے ہوئے کہا کہ ''جاؤ تم آزاد ہو، میں نے تمہیں آزاد کیا'' اگر تم چاہو تو میں وہ تین الفاظ بھی کہہ دوں؟ یہ کہنے کے بعد میں لیٹ گیا،اگرچہ یہ کہتے وقت میری نیت طلاق کی نہیں تھی،بلکہ یہ تھی کہ وہ مجھے منا لے،میں انہیں ڈراؤں گا تو وہ ناراضگی ختم کرکے مجھے منا لیں گی۔

بعد ازاں اہلیہ رونے لگی اور انہوں نے گوگل پر سرچ کیا تو معلوم ہوا کہ ایسے الفاظ کنایہ الفاظ ہوتے ہیں جن سےطلاق واقع ہو جاتی ہے۔اس سے قبل مجھے یا اہلیہ ہم دونوں کو ان الفاظ کے بارے میں بالکل نہیں معلوم تھا کہ ایسے کوئی الفاظ بھی ہیں جن کے کہنے سے طلاق ہوجاتی ہے، اگر لاعلمی میں ایسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور نیت بھی چھوڑنے کی نہیں تھی تو کیا حکم ہے؟

 ایک اور بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ ماضی میں کبھی ایسے لفظ کا استعمال کیا ہے؟اس کی میں سو فی صد تصدیق نہیں کرتا میرا گمان ہے کہ شاید کبھی غصے میں کرلیےہوں،لیکن اہلیہ کہتی ہیں کہ آپ نے ماضی میں ایسے الفاظ استعمال نہیں کیے ہیں۔برائے مہربانی رہنمائی فرما دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر آپ کےعلاقہ وزبان کے عرف وعادت میں "جاؤ تم آزاد ہو،میں نے تمہیں آزاد کیا"کے الفاظ طلاق دینےکےلیے ہی  مستعمل ہوں یعنی یہ الفاظ اپنی بیوی کو کسی دوسرے مفہوم میں کہنا معروف نہ ہو تو ایسی صورت میں دو طلاق رجعی واقع ہوچکی ہیں۔( فتاوی حقانیہ:ج۴،ص۴۸۴،احسن الفتاوی:ج۵ص۱۸۹،) اور اگر طلاق کے علاوہ بھی ان کا استعمال ہوتاہوتو غصہ کی حالت  میں بولے جانے کے باعث ان الفاظ سے ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے،جبکہ"اگرتم چاہوتو میں وہ تین الفاظ بھی کہہ دوں؟" سے سابق الفاظ سےطلاق کا مراد ہونا بھی مفہوم ہوتا ہے(احسن الفتاوی:ج۵،ص۲۰۲)

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 299)
 وإن كان الحرام في الأصل كناية يقع بها البائن لأنه لما غلب استعماله في الطلاق لم يبق كناية، ولذا لم يتوقف على النية أو دلالة الحال، ولا شيء من الكناية يقع به الطلاق بلا نية أو دلالة الحال كما صرح به في البدائع، ويدل على ذلك ما ذكره البزازي عقب قوله في الجواب المار إن المتعارف به إيقاع البائن لا الرجعي، حيث قال ما نصه: بخلاف فارسية قوله سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اهـ وقد صرح البزازي أولا بأن: حلال الله علي حرام أو الفارسية لا يحتاج إلى نية، حيث قال: ولو قال حلال " أيزدبروي " أو حلال الله عليه حرام لا حاجة إلى النية، وهو الصحيح المفتى به للعرف وأنه يقع به البائن لأنه المتعارف ثم فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت، لكن لما غلب استعمال حلال الله في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن ولولا ذلك لوقع به الرجعي.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۴ صفر۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب