85439 | نکاح کا بیان | نکاح کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
السلام علیکم مفتی صاحب ایک مسئلہ پوچھنا ہے۔ ایک جوان لڑکی کے اپنے منگیتر کے ساتھ کافی عرصے سے ناجائز تعلقات ہیں۔ یہ بات لڑکی کی ماں بھی جانتی ہے ۔ اب یہ دونوں گھر والوں سے چھپ کر نکاح کرنا چاہتے ہیں( کیونکہ گھر والے جلدی نکاح کرانے پر راضی نہیں ہیں) اب پوچھنا یہ تھا کہ کیا زنا سے مزید بچنے کے لئے کیا گھر والوں سے چھپ کر لڑکی اور لڑکا نکاح کر سکتے ہیں؟ امید ہے تفصیل سے رہنمائی فرمائیں گے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
عاقل بالغ لڑکے یا لڑکی کا اپنے والدین کی اجازت کے بغیر، دوگواہوں کی موجودگی میں نکاح کرنے سے شرعًا نکاح منعقد ہوجاتاہے، البتہ والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح پر خود اقدام کرنا مناسب نہیں، کیونکہ ان کی رضامندی کے بغیر نکاح کرنا شرعًا و اخلاقًا انتہائی ناپسندیدہ ہے اور اس سے بسا اوقات بعد میں نا قابل تحمل معاشرتی وخانگی مسائل بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ والدین کو راضی کرکے رشتہ کرنے کی کوشش کیجیے باقی اگر کسی وجہ سے نکاح کی کوئی ترتیب نہیں بن رہی ہو تو زنا سے بچنے کے لیےتسلسل کے ساتھ روزے رکھنے کا اہتمام کریں کیو نکہ روزہ انسانی شہوت کو توڑ دیتا ہے۔لیکن اگر اس کے باوجود بھی زنا میں پڑنے کا خطرہ ہو تو بامر مجبوری قریبی دار الافتاء سے رجوع کرنے کے بعد ان کی نگرانی میں نکاح کر نے کی گنجائش نکل سکتی ہے ۔ لہذاصورتِ مسئولہ میں لڑکے اور لڑکی کو چاہیے کہ وہ اپنے خاندان کےکسی بڑے مرد یا عورت کو اعتمادمیں لیں ان کے ذریعے سے اپنے والدین کو جلدی نکاح پر راضی کرنے کی کوشش کریں۔اگر نکاح کروانے کے اسباب (اخراجات)مہیا ہوں تو والدین کو بھی جلد نکاح کروا دینا چاہیے وگرنہ والدین بھی گناہ گار ہوں گے ۔ واضح رہے کہ زنا بہت بڑا گناہ ہے، جس کی قرآن و حدیث میں سخت مذمت بیان کی گئی ہے اور اس پرسخت وعیدیں نازل ہوئی ہیں۔ لہذا دونوں پر لازم ہے کہ اپنے اس عمل پر صدق دل سے اللہ کے حضور توبہ واستغفار کریں اور آئندہ اس کام سے بچیں۔
حوالہ جات
وقال الله تعالي ﴿والذين لا يدعون مع اللَّـه إِلـٰها آخر ولا يقتلون النفْس التي حرم اللَّـه إِلا بِالْحَقِ ولا يزنون ۚ ومن يفعل ذلك يلق أثاما ﴿٦٨﴾ يضاعف له الْعذاب يوم القيامة ويَخْلدفيه مهانا ﴿٦٩﴾ إلا من تاب وآمن وعمل عملا صالِحًا فأولـٰئك يبدل اللَّـه سيِئاتهمْ حسنات ۗ وكان اللَّـه غفورا رحيما﴿٧٠﴾[الفرقان ]
وقال الله تعالي﴿ قل يا عبادي الذين أسرفوا علَىٰ أنفسهِم لا تقنطوا من رحْمَة اللَّهِ ۚ إِن اللَّه يغفر الذنوب جَمِيعا ۚ إِنه هو الْغفور الرحيم ﴾ [الزمر:53]
أخرجه الإمام محمدبن إسماعيل في "صحيحه" (2/ 875: 2343) من حديث أبي هريرة رضي الله عنه قال:قال النبي صلى الله عليه وسلم: (لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن، ولا يشرب الخمر حين يشرب وهو مؤمن، ولا يسرق حين يسرق وهو مؤمن، ولا ينتهب نهبة، يرفع الناس إليه فيها أبصارهم، حين ينتهبها وهو مؤمن).
أخرجه الإمام مسلم بن الحجاج بن في "صحيحه" (4/ 128: 1400) من حديث عبد الله رضي الله عنه قال:قال النبي صلى الله عليه وسلم: ( يا معشر الشباب، من استطاع منكم الباءة فليتزوج، فإنه أغض للبصر، وأحصن للفرج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم، فإنه له وجاء .
وقال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالي:(نكاح صغير ومجنون ورقيق) لا مكلفة (فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والاصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه، وما لا فلا.(الدر المختار :ص183)
وقال العلامة الكاساني رحمه الله تعالي:(الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلا بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض. (بدائع الصنائع :2/ 247)
وقال العلامةالمرغيناني رحمه الله تعالي:(النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول بلفظين يعبر بهما عن الماضي ۔۔۔ ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين عدولا كانوا أو غير عدول أو محدودين في القذف. (الهداية :1/ 185)
وقال أيضا رحمه الله تعالي:( وينعقد نكاح الحرة العاقلة البالغة برضاها وإن لم يعقد عليها ولى بكرا كانت أو ثيبا عند أبي حنيفة وأبي يوسف " رحمهما الله " في ظاهر الرواية.(الهداية: 1/ 191)
محمد بلال بن محمدطاہر
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
۳ جمادالاولی ۱۴۴۶ ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد بلال بن محمد طاہر | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |