021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ادھار اورنقداشیاءکی قیمت میں فرق کاشرعی حکم
71000خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

مفتی صاحب !میری الیکٹرونکس کی دکان ہے ،میں قسطوں کاکاروبارکرتاہوں ،میرے پاس لوگ آکر پوچھتے ہیں کہ فلاں  چیز نقد میں کتنے کی ہے اور قسطوں میں کتنے کی ہے؟تو میں جواباکہتاہوں مثلافلاں چیز نقد میں پانچ ہزار کی ہےاور قسطوں  میں نو ہزار کی ہے ۔توسوال یہ کہ کسی چیز کو نقدمیں کم اور قسطوں میں زیادہ کابیچنا صحیح ہے یانہیں ؟اگر ناجائز ہے تو صحیح طریقہ کیا ہے?

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نقدمعاملہ اور ادھارمعاملہ کے ثمن (price)میں فرق کرنا کہ ادھارکی قیمت نقدکی بنسبت زیادہ رکھی جائےدرج ذیل شرائط کے ساتھ جائزہے۔

۱۔بھاؤتاؤ کے بعد معاملہ کی (situation)حالت متعین طور پر معلوم ہوکہ یہ معاملہ نقد پر ہو ا یاادھار پر ۔

۲۔اگر معاملہ ادھار پر ہو تو اس کی مدت متعین ہوکہ کتنی مدت کے لیے  ہے ۔

۳۔اسی وقت اس مدت کے مطابق ماهانه /هفته وارقسط  طے کی جائے۔

۴۔قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں جرمانہ کی شرط نہ ہو۔

اگر ان شرائط میں سے کوئی شرط نہ پائی جائے تومعاملہ فاسد ہوگا اورایسی صورت میں ادھار کی وجہ سےبطورجرمانہ اضافی قیمت وصول کرنابھی جائز نہ ہوگا۔

حوالہ جات
{ إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا } [البقرة: 275]
جامع الترمذي(1/233)
 وروى الترمذي - رَحِمَهُ اللَّهُ - من حديث أبي هريرة - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - «أن النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - نهى عن بيعتين في بيعة» .
قال الترمذي - رَحِمَهُ اللَّهُ - قال بعض أهل العلم أن يقول الرجل: أبيعك هذا الثوب نقدا بعشرة ونسيئة بعشرين فلا مفارقة على أحد البيعتين، فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس إذا كانت العقدة على واحد منهما.
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (2/ 78)
من اشترى ثوبا بعشرة نسيئة وباعه بربح واحد حالا ولم يبين ذلك فعلم المشتري خيانته يصير مخيرا إن شاء رده وإن شاء قبله لأن للأجل شبها بالمبيع ألا ترى أنه يزاد في الثمن لأجل الأجل.
 
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (6/ 124)
(ولو اشترى بألف نسيئة، وباع بربح مائة، ولم يبين خير المشتري) لأن للأجل شبها بالمبيع ألا ترى أنه يزاد في الثمن لأجل الأجل۔
شرح ا لمجله (124,125)
البيع مع  تاجيل الثمن و تقسيطه صحيح,يلزم أن تكون المدة معلومة في البيع بالتاجيل والتقسيط اذا عقد البيع علي تأجيل الثمن الي وقت معلوم عند العاقدين كيوم قاسم أوالنهروز,صح البيع اذا كان يوم القاسم أو النيروز معموما عند المتبايعين.أما لو كان مجهولا عندهما او عند أحدهمافلا يصح.

  وقاراحمد   

 دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

24/05/1442

 

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

وقاراحمد بن اجبر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب