021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بینک کے ذریعے کار فائنانسنگ کا حکم
84261خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میں بینکنگ چینل کے ذریعے کار خریدنا چاہتا ہوں۔ میں کئی سالوں سے اس سے گریز کر رہا ہوں کیونکہ میں کسی بھی سود پر مبنی لین دین میں شامل نہیں ہونا چاہتا ۔ میں نے اس مسئلہ پر اپنے حلقہ کے بعض علماء سے گفتگو کی جنہوں نے مجھے بتایا کہ فقہ حنفی کے مطابق اگر ہم مال کی قسم کو بدلے میں بدل دیں تو سود نہیں سمجھا جائے گا۔ انہوں نے اسے تجارتی لین دین کے طور پر کہا، یعنی کار فنانسنگ سود کے بغیر کی جا سکتی ہے۔

کل ایک دوست نے ایک اور آئیڈیا تجویز کیا۔ اس نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اپنی تنخواہ کی بنیاد پر بینک سے قرض لے لوں اور پھر براہ راست کار خرید لوں۔ میں قرض کی قسطوں میں ادائیگی کروں گا، جیسا کہ کار فنانسنگ کام کرتی ہے۔ اس طرح، گاڑی پہلے دن سے میری ہو جائے گی۔ میری موت کی صورت میں یا اگر میں مستقبل میں غیر متوقع حالات کی وجہ سے قسطیں ادا کرنے سے قاصر ہوں، تو میں گاڑی بیچ سکتا ہوں اور باقی رقم بینک کو واپس کر سکتا ہوں، اس طرح وہ رقم محفوظ ہو جائے گی جو میں نے پہلے ہی قسطوں میں ادا کر دی تھی۔ میرے دوست نے بتایا کہ اس نے اس منظر نامے کے بارے میں کچھ اہل علم سے مشورہ کیا تھا، اور ان میں سے ایک نے جواب دیا کہ اگر آپ اس قرض کی رقم سے گاڑی خرید رہے ہیں، تو آپ اقساط کو خود کار کی ادائیگی سمجھ سکتے ہیں۔میں اس معاملے میں آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔ برائے مہربانی مجھے بتائیں کہ حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  واضح رہے کہ کسی بھی روایتی بینک سے کار فائنانسنگ حاصل کرنا جائزنہیں ہے ۔ کیونکہ روایتی بینک کار فائنانسنگ میں سود سمیت متعدد غیر شرعی معاملات کا ارتکاب کرتے ہیں۔تاہم متبادل کے طور پر اسلامی بینک یہ معاملہ "الاجارۃالمنتھیۃ بالتملیک اور مرابحہ  مؤجلہ"کی تکییف پر کرتے ہیں،  جوکہ سود سے پاک  ایک جائز صورت  ہے۔  لہذا اسلامی بینک کے چینل سے کار فائنانسنگ حاصل کرنا  موزوں ہے۔

دوسری صورت میں کسی بینک سے قرض لے کر پھر براہ راست کار خریدنا اور بینک کی قرض والی قسط کو کار کی قسط شمار کرنا صرف اس صورت میں درست  ہے، جب قرض بلاسود ہو ، جو کہ روایتی بینکوں کے تحت ناممکن ہے ، اور اسلامی بینک عام طور پر براہ راست قرض فراہم نہیں کرتے۔

لہذا اگر قرض لینے میں سود شامل ہے، تو یہ طریقہ کار ناجائز ہے، اگر بلاسود ہے تو قرض کی اقساط کو کار فائنانسنگ کی اقساط تصور کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔  

حوالہ جات
 (سورة البقرة: ٢٧٨-٢٨٠):
 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ . فَإِن لَّمْ تفعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ . وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ۔
صحیح مسلمكتاب البيوع،  ‌‌باب لعن آكل الربا ومؤكله، ج:٣، ص:١٢١٩، ط:
"عن ‌جابر قال:  لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌آكل ‌الربا ومؤكله، وكاتبه وشاهديه، وقال: هم سواء
شرح المجلة العدلية 1/234 :
يقول خالد الأتاسي في شرح المجلة :وأما التي لا تصح تعليقه بالشرط شرعا فضابطه كل ما كان من التمليكات ... كالبيع والإجارة.....
الشرح الكبير لابن قدامة4/119:
 جاء في الشرح الكبير لابن قدامة: وكذلك لا يصح هبته ولا رهنه ولا دفعه أجرة وما أشبه ذلك ولا التصرفات المنعقدة إلى القبض لأنه غير مقبوض فلا سبيل إلى اقباضه ....
الفتاوى الهندية4/114:
وجاء في الفتاوى الهندية: ومنها أن يكون مقبوض المؤاجر إذا كان منقولا فإن لم يكن في قبضه فلا تصح إجارته ....
الخرشي على مختصر خليل7/4:
جاء في شرح الخرشي على مختصر خليل: (أن الإجارة إذا وقعت مع الجعل في صفقة واحدة فإنها تكون فاسدة لتنافر الأحكام بينهما؛ لأن الإجارة لا يجوز فيها الغرر وتلزم بالعقد ويجوز فيها الأجل ولا يجوز شيء من ذلك في الجعل؛ إذ لا يلزم بالعقد ولا يجوز فيه ضرب الأجل، وكذلك لا يجوز اجتماع بيع الأعيان مع الجعل في صفقة واحدة للعلة المذكورة بخلاف اجتماع الإجارة مع البيع في صفقة واحدة فيجوز سواء كانت الإجارة في نفس المبيع كما لو باع له جلودا على أن يخرزها البائع للمشتري نعالا أو كانت الإجارة في غير المبيع كما لو باع له ثوبا بدراهم معلومة على أن ينسج له ثوبا آخر)

عبدالرحمٰن جریر

دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

07/ذیقعدہ/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمدعبدالرحمن جریر بن محمد شفیق

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے