021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مہرمیں دکان متعین کی ہوں تواس کے بدلے مکان دینا
54105نکاح کا بیانجہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان

سوال

1. میں مسمات مسرت جبیں ولد محمد طاہرخان میری شادی فاروق عبدالعزیزولد عبدا لعزیز سے 1998 میں ہوئی ،میرے سسر عبدالعزیز نے مجھے میری شادی کے موقع پر اپنی جائیداد ) جوسسر کی اپنی ملکیت تھی(میں سے تین عدددکانیں واقع لکڑمنڈی ڈبگری پشاور بطورحق مہر نکاح کے وقت روبروگواہان متعین کرکے نکاح فارم پرلکھ دی ۔ دکان 1۔ 2۔ 3۔ CA/572 /12/5496 /-99/53465/- بطورحق مہردی ۔ 2. سسرنے 1971 میں ایک عدددکان واقع پٹھان کالونی کوہاٹ روڈ 402-56/302 جس کارقبہ 18 مرلہ ہے ،اپنے تینوں بیٹوں نوشادعلی ،لیاقت علی خان ،اورخالدارشد کے نام پرانتقال کردی ۔ 1993میں میرے شوہرفاروق عبدالعزیز نے نوشادعلی خان کے 6مرلہ والدکی رضامندی سے اپنے نام رجسٹری کردی ۔جس میں قیمت طے پائی ،اس مکان میں ہم رہائش پذیر ہیں ۔اس کے رجسٹری میرے سسرعبدالعزیز اورمیرے شوہر کے بھائی نوشادعلی خان کے باہمی رضامندی سے ہوئی ،کچھ عرصہ بعد میرے دیور نوشادعلی خان نے اصرارکیاکہ مجھے 6مرلہ مکان کے بدلے اپنے مہرکی دکانیں واقع لکڑی واقع ڈبگری میرے نام رجسٹری کروادیں،میرے سسرعبدالعزیز نے بھی اس بات پراصرار کیا،پھر میں 6مرلہ مکان کے بدلے اپنے مہر کی دکانیں اپنے سسرعبدالعزیزاورنوشادعلی کے حق میں دست بردارہوگئی اورمیرے سسرنے میرے حق مہر کی تین عدد مذکورہ بالادکانیں ۔میرے دیورنوشادعلی خان کو1994٫ میں 6مرلہ مکان کے عوض رجسٹری کردی ،اس میں میری رضامندی شامل تھی ،کیونکہ میں نے 6مرلہ گھر اپنے حق مہر دکانوں کے عوض تبادلہ کیااوراپنے شوہر فاروق عبدالعزیز کے نام رجسٹری اورانتقال کی ،آپ حضرات سے گذارش ہے کہ شریعت کے روسےت واضح کریں کہ یہ 6مرلہ مکان جس کے عوض میں مذکورہ بالادکانوں سے دستبردارہوئی ہوں ،یہ 6مرلے میرے حق مہر میں اب بھی موجودہیں ،اورکیامیں ان 6مرلوں کودکان کے عوض حق مہر میں طلب کرسکتی ہوں؟کیایہ میراحق مہر تسلیم کیاجائے گا؟جواب دے کرمشکوروممنون فرمائیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ اس مکان کی پہلے ایک قیمت طے پائی تھی ،پھراس قیمت کے متبادل کے طورپرتمام فریقوں کی رضامندی سے یہ دکانیں دی گئی تھیں ،اس لئے مکان توآپ کے شوہرکاہی ہوگا،البتہ شوہرپرلازم ہوگاکہ ان تین دکانوں کی اس وقت کی بازاری قیمت آپ کوبطورمہر کے دے ،اورچونکہ آپ کی اجازت سے یہ صلح ہوئی ہے ،اس لئے اب آپ کاحق مہران دکانوں کی قیمت ہے ،نہ کہ دکانیں ۔
حوالہ جات
o "البحر الرائق " 16 / 351: وصرح الشارح بأنه أمانة في يده فلا ضمان عليه إذا هلك سواء هلك قبل الإجازة أو بعدها ، وإن كان الثمن عرضا كان مملوكا للفضولي ، وإجازة المالك إجازة نقد لا إجازة عقد لأنه لما كان العوض متعينا كان شراء من وجه ، والشراء لا يتوقف بل ينفذ على المباشر إن وجد نفاذا فيكون ملكا له ، وبإجازة المالك لا ينتقل إليه بل تأثير إجازته في النقد لا في العقد ثم يجب على الفضولي مثل المبيع إن كان مثليا ، وإلا فقيمته إن كان قيميا لأنه لما صار البدل له صار مشتريا لنفسه بمال الغير مستقرضا له في ضمن الشراء فيجب عليه رده كما لو قضى دينه بمال الغير ، واستقراض غير المثلي جائز ضمنا ، وإن لم يجز قصدا ألا ترى أن الرجل إذا تزوج امرأة على عبد الغير صح ، ويجب قيمته عليه ، ولا يشترط قيام المبيع في مسألة من مسائل الفضولي مذكورة في الخلاصة من اللقطة قال - : الملتقط إذا باع اللقطة بغير أمر القاضي ثم جاء صاحبها بعدما هلكت العين إن شاء ضمن البائع ، وعند ذلك ينفذ البيع من جهة البائع في ظاهر الرواية ، وبه أخذ عامة المشايخ ۔ "العناية شرح الهداية " 9 / 366: وإذا أجاز المالك كان الثمن مملوكا له أمانة في يده بمنزلة الوكيل ، لأن الإجازة اللاحقة بمنزلة الوكالة السابقة ، وللفضولي أن يفسخ قبل الإجازة دفعا للحقوق عن نفسه ، بخلاف الفضولي في النكاح لأنه معبر محض ، هذا إذا كان الثمن دينا ، فإن كان عرضا معينا إنما تصح الإجازة إذا كان العرض باقيا أيضا . ثم الإجازة إجازة نقد لا إجازة عقد حتى يكون العرض الثمن مملوكا للفضولي ، وعليه مثل المبيع إن كان مثليا أو قيمته إن لم يكن مثليا ، لأنه شراء من وجه والشراء لا يتوقف على الإجازة ۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب