021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بینکوں میں رائج تورق کاحکم
54489 خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میں سعودی عرب میں کام کرتا ہوں، میں نے ساب بینک سے لون لینا ہے۔ یہ لون تین اور پانچ سال کی مدت کے لیے ملتا ہے۔ کیش لون لینے کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ساب بینک والوں کے پاس ایک دھات ہوتی ہے، جو وہ قرض دار کو ایک متعین قیمت پرخاص مدت، مثلا تین سال کے لیے ادھار فروخت کرتے ہیں۔ ازاں بعد قرض دار بینک کو اس دھات کے فروخت کا اختیار دیتا ہے۔ پھر بینک اس کو قرض فراہم کرتا ہے۔ صورت مسئلہ یوں ہے کہ: میری تنخواہ چھ ہزار ریال ہے۔ ساب بینک اس تنخواہ کا تینتیس فیصد یعنی دوہزارریال قرض فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ اس دوہزار ریال کو تین سال کے چھتیس مہینوں پر تقسیم کرنے سے کل مقدار72000 ہزار ریال بنتی ہے۔اب بینک مجھے 66000ہزار کی رقم کے بقدر کوئی سی دھات تین سال کی مدت پر ادھار 72000 میں فروخت کرتا ہے، اور مجھ سے اس دھات کو بیچنے کا پاور آف اٹارنی لیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مجھے 66000 ہزار کا کیش لون جاری کرتاہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بینک سے قرض لینے کا مذکورہ طریقہ تورق کہلاتاہے،اسلامک بینکوں میں قرض دینے کایہی طریقہ رائج ہے،جس کی عملی صورت یہ ہوتی ہےکہ جب کسی بندے کو قرض کی ضرورت ہوتی ہے تووہ بینک کے پاس جاتا ہےاور اس سے قرض مانگتا ہے،بینک قرض دار کو نقدی پیسے دینے کی بجائے اپنی کوئی چیز مہنگی کرکے ادھار فروخت کرتاہےجیسے مذکورہ سوال میں ساب بینک نے 66000 ہزارکی دھات تین سال کی مدت پر 72000 کی ادھار فروخت کی،قرض دار وہ چیز خریدنے کے بعدبازار میں نقدی کم قیمت پر فروخت کرتا ہےاور اپنی ضرورت پوری کرتاہے۔ اس طرح دونوں فریقوں کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے، قرض دار کو ضرورت کے لئے پیسے اور بینک کو نفع مل جاتاہے۔ فقہاء کے نزدیک تورق کی یہ صورت جائز ہے،اگر اس میں دو باتوں کا خیال رکھا جائے، پہلی بات یہ کہ بینک اپنی مملوکہ چیز ادھار فروخت کرےاور دوسری یہ کہ خریدنے والا وہ چیزایسے شخص کو فروخت کرے، جس کا پہلےبیچنےوالےسے کوئی تعلق نہ ہو۔البتہ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ خریدار بینک سے چیز خریدنے کے بعد بینک کو ہی یہ چیز بیچنے کا وکیل بنا دیتاہےاور بینک اس چیز کو مارکیٹ میں فروخت کرکے اس کی قیمت خریدار کو ادا کر دیتاہے،اب یہ وکیل بنانا اگر پہلےسے بطور شرط طے ہو تو یہ معاملہ فاسد ہو جائے گا اور اگر پہلے سے اس کی شرط نہ لگائی جائے تو بھی یہ معاملہ کراہت سے خالی نہیں کیونکہ اس صورت میں اس کی مشابہت سودی معاملہ سے بہت زیادہ ہو جاتی ہے،وہ اس طرح کہ اگرچہ بینک حقیقت میں تو پہلے بطور مالک اور دوسری صورت میں بطور وکیل معاملہ کرتاہے،لیکن ظاہری صورت یہ ہے کہ بینک خریدار کو پہلے کم پیسے دے رہا ہے اور پھر کچھ مدت گزرنے کے بعد اس سے زیادہ وصول کر رہاہے،تو یہ مشابہت چونکہ بہت قوی ہے،لہذا یہ معاملہ کراہت سے خالی نہیں ہو گا،الا یہ کہ کوئی ایسی خاص صورت ہو جس میں خریدار وہ چیز بینک کے ذریعے ہی بیچ سکتاہو،خود نہ بیچ سکتا ہوتو اس صورت میں بینک کو وکیل بنانا درست ہے۔ اب سوال میں مذکورہ صورت میں چونکہ بینک دھات فروخت کرنے کے بعد خریدار کی طرف سے اس کو بیچنے کا وکیل بھی بنتا ہے،لہذا دیکھا جائے کہ دھات فروخت کرتے وقت اگر یہ بات بطورشرط طے ہوتی ہےکہ بینک بعد میں بطور وکیل اس کو فروخت بھی کرے گا تو یہ معاملہ درست نہیں اور اگر بطور شرط طے نہ ہو تو بھی اس سے بچنا چاہیے کیونکہ اس صورت میں بھی کراہت ضرور پائی جاتی ہے،ہاں اگر بینک کے واسطے کےبغیر خریدار اس دھات کو فروخت نہ کرسکتا ہوتو اس صورت میں یہ قرض کا معاملہ درست ہوگا۔
حوالہ جات
قال فی فتح القدير: "ثم الذي يقع في قلبي أن ما يخرجه الدافع إن فعلت صورة يعود فيها إليه هو أو بعضه كعود الثوب أو الحرير في الصورة الأولى ، وكعود العشرة في صورة إقراض الخمسة عشر فمكروه ، وإلا فلا كراهة إلا خلاف الأولى على بعض الاحتمالات كأن يحتاج المديون فيأبى المسئول أن يقرض بل أن يبيع ما يساوي عشرة بخمسة عشر إلى أجل فيشتريه المديون ويبيعه في السوق بعشرة حالة ، ولا بأس في هذا فإن الأجل قابله قسط من الثمن والقرض غير واجب عليه دائما بل هو مندوب ، فإن تركه بمجرد رغبة عنه إلى زيادة الدنيا فمكروه أو لعارض يعذر به فلا ، وإنما يعرف ذلك في خصوصيات المواد وما لم ترجع إليه العين التي خرجت منه لا يسمى بيع العينة ؛ لأنه من العين المسترجعة لا العين مطلقا وإلا فكل بيع بيع العينة ." (ج:16,ص:221و222, المكتبة الشاملة) وفي مجلة مجمع الفقه الإسلامي: "اولاً:ان بيع التورق،هوشراءسلعة فى حوزة البائع و ملكه، بثمن موجل،ثم يبيعها المشترى بنقدلغيرالبائع للحصول على النقد(الورق) ثانيا: أن بيع التورق هذا جائزشرعا، وبه قال جمهورالعلماء،لان الاصل فى البيوع الاباحة، لقول الله تعالى: وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا: ولم يظهر فى هذا البيع ربا، لا قصداً ولا صورة، ولأن الحاجةداعيةالى ذلك..... ثالثاً: جواز هذا البيع مشروط بأن لا يبيع المشترى السلعة بثمن أقل مما اشتراهابه على بائعها الأول،لا مباشرة ولابالواسطة، فان فعل فقد وقعا فى بيع العينة المحرم شرعا، لاشتماله على حلية الربا،فصار عقدا محرماً." (ص:321و322, المكتبة الشاملة)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سمیع اللہ داؤد عباسی صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب